آخر حکومت اسکول ڈھا کر مدرسے ہی کیوں نہیں بنا دیتی؟



کہیں جامعات میں حجاب کو لازمی کیا جا رہا ہے تو کہیں طالبات کو زبردستی برقعہ پہنایا جا رہا ہے۔ اور جب ان تمام بے تکے فیصلوں سے بھی دل کو سکون نہیں مل رہا تو اس کا بدلہ معصوم بچوں پر عربی زبان کا بوجھ ڈال کر لیا جا رہا ہے۔

جب بھی موجودہ حکومت کے کسی احمقانہ فیصلے پر نظر جاتی ہے تو یہی خیال آتا ہے کہ اب بس۔ یہی آخری حد ہے۔ آخر کوئی حکومت اس سے زیادہ ملک کا کیا ستیاناس مارے گی۔ لیکن نہیں جی پی ٹی آئی کی حکومت نے تو جیسے ہماری نیک امیدوں کے تمام مینار ڈھانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ابھی ہم ایک حکومتی پالیسی کو کوس ہی رہے ہوتے ہیں کہ حکومت دوبارہ بے سر پیر کی ہانک دیتی ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ آج سینیٹ میں پہلی تا بارہویں جماعت کے لیے عربی زبان کو ایک لازمی مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کر دیا گیا ہے۔

اور سب سے افسوس کی بات یہ یے کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی کے علاوہ ایوان بالا کے تمام ہی سینیٹرز نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جس کی وجہ سینیٹر علی محمد خان نے یہ بیان کی کہ چونکہ قرآن عربی زبان میں ہے لہٰذا ایک اچھا مسلمان بننے کے لئے عربی زبان سمجھنا ناگزیر ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے آئین کے آرٹیکل 31 کا حوالہ بھی دیا جس کے مطابق حکومت ایسا کوئی بھی فیصلہ کر سکتی ہے جس سے عوام کی زندگیوں کو اسلام کے مطابق ڈھالا جاسکے۔

اس نکتے کی جماعت اسلامی کے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے بھی خوب تائید کی یہاں تک کہ انھوں نے براہ راست پیپلز پارٹی کے سینیٹرز اعتزاز احسن، رحمان ملک اور غلام سرور خان کا نام لیتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ ان تمام افراد کو قرآن کہ کوئی دعا یاد نہیں اور وہ اس بل کی مخالفت محض عربی سے نابلد ہونے کہ وجہ سے کر رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں انھوں نے رحمان ملک کی سورہ اخلاص کی تلاوت کرنے پر ان کا خوب مذاق بھی اڑایا۔ البتہ رضا ربانی اپنے بیان پر ڈٹے رہے جس کے مطابق یہ بل سندھ اور پاکستان کے باسیوں پر زبردستی عرب کلچر تھوپنے کی سازش ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اور محکمہ تعلیم کی توجہ طالب علموں کو جدید علوم سے آگاہی دینے کے بجائے صرف مذہبی امور پر کیوں ہے؟ نیز وہ طالب علم جو پہلے ہی انگریزی اور اردو کے درمیان گھن چکر بنے ہوئے ہیں ان کو عربی زبان میں الجھانے کا آخر کیا مقصد ہے؟ اگر سینیٹر علی محمد خان کی بودی دلیل کو سچ مان بھی لیا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی انگریز، چینی یا جاپانی اچھا مسلمان نہیں بن سکتا؟

اور اگر دنیا کے کسی ملک میں پکا مومن ہونے کے لئے عربی کی سند رکھنا ضروری نہیں تو پاکستان میں ناقص معیار تعلیم کے مارے بچوں کی کمر پر بوجھ بڑھانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا سینیٹ نے کبھی یہ سوچا کہ اس بل کے پاس ہونے کے بعد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے بچوں پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟ اگر کل ہندوستان میں سیکولر ازم کا خاتمہ کر کے وہاں کے آئین میں ہندو مذہب کو بنیادی حیثیت دے دی جائے اور تمام بچوں کو زبردستی بھگوت گیتا پڑھنے پر مجبور کیا جائے تو کیا یہ ہمارے لیے قابل قبول ہوگا؟

لیکن اگر واقعی اس حکومت کا مقصد بچوں کو صرف مخصوص مذہبی تعلیم دینا ہی ہے تو ہمارے خیال سے اسکول کالج کا گھڑاک پالنے سے بہتر ہے ملک میں تمام اسکول، کالجز، جامعات کی عمارتیں ڈھا کر صرف مدارس ہی بنادیے جائیں تاکہ کم سے کم بچوں کو گھر یا گھاٹ میں سے کسی ایک جانب دھکیلا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).