فارن فنڈنگ کیس: پاکستان تحریک انصاف نے سکروٹنی کمیٹی کی کارروائی اوپن کرنے کے وزیر اعظم کے بیان کی نفی کر دی


فارن
حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف نے فارن فنڈنگ کیس کے معاملے میں حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اس معاملے کی کارروائی کو اوپن کورٹ میں کروانے کے بیان کی مخالفت کر دی ہے۔

تحریک انصاف نے عمران خان کے اس بیان کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حوالے سے الیکشن کمیشن پہلے ہی ایک وضاحتی بیان جاری کر چکی ہے کہ غیر ملکی فنڈنگ کے معاملے کی تحقیقات کے لیے سکروٹنی کمیٹی کی کارروائی ان کیمرہ ہوگی۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے یہ جواب فارن فنڈنگ کیس میں پارٹی کے وکیل شاہ خاور کی طرف سے الیکشن کمیشن میں جمع کروایا گیا ہے۔

شاہ خاور نے بی بی سی کو بتایا کہ درخواست گزار اکبر ایس بابر کی طرف سے ایک درخواست سکرونٹی کمیٹی میں دی گئی تھی جس میں وزیر اعظم عمران خان کے جنوبی وزیرستان میں حالیہ خطاب کو بنیاد بنایا گیا تھا۔

اس بیان میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ان کی جماعت کو بیرون ممالک سے جتنے بھی فنڈز ملے ہیں ان کے شواہد ان کی جماعت کے پاس موجود ہیں لہذا وہ اس سکروٹنی کمیٹی کی کارروائی کو اوپن کرنے کو تیار ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہہ اس درخواست کے حوالے سے جو جواب جمع کروایا گیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ چونکہ الیکشن کمیشن 21 جنوری کو ایک وضاحتی بیان جاری کر چکا ہے کہ سکروٹنی کمیٹی کی کارروائی ان کیمرہ ہی ہوگی تاہم جب سکروٹنی کمیٹی اس معاملے میں اپنی سفارشات الیکشن کمیشن کے حکام کو بھجوائے گی تو ان سفارشات کی روشنی میں الیکشن کمیشن میں ہونے والی کارروائی اوپن کورٹ میں ہو گی۔

شاہ خاور کا کہنا تھا جب الیکشن کمیشن پہلے ہی اس بات پر فیصلہ دے چکا ہے تو پھر سکروٹنی کمیٹی کی کارروائی کو کیسے پبلک کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

فارن فنڈنگ کیس: ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟

فارن فنڈنگ کیس کے تحریک انصاف اور پاکستانی سیاست پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟

فارن فنڈنگ کیس: الیکشن کمیشن کیوں اور کس کے کہنے پر گھبرا رہا ہے، نواز شریف کا سوال

اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں نہیں معلوم کہ وزیر اعظم نے اس حوالے سے کیا بیان دیا ہے لیکن انھوں نے تو الیکشن کمیشن کے وضاحتی بیان کو ہی اکبر ایس بابر کی درخواست میں جمع کروائے گئے جواب میں بنیاد بنایا ہے۔

اس درخواست میں اکبر ایس بابر کی طرف سے وزیر اعظم کے اس بیان کو کہ ان کے پاس غیر ملکی فنڈنگز کے تمام شواہد موجود ہیں، کو بنیاد بناتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ 40 ہزار ڈونرز کے ناموں کی فہرست دینے کے ساتھ ساتھ ان 23 بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی فراہم کریں جن میں پاکستان تحریک انصاف کے لیے غیر ملکی فنڈز آئے ہیں۔

فارن

شاہ خاور کا کہنا تھا کہ اس معاملے کے بارے میں اپنے جواب میں سکرونٹی کمیٹی کو کہا ہے کہ سکرونٹی کمیٹی اس بارے میں خود فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ جس دستاویز کو مناسب سمجھے گی اس کی تفصیلات مخالف فریق کو دے دی جائیں گی۔

انھوں نے کہا کہ اکبر ایس بابر نے اس حوالے سے وزیر اعظم کے بیان کو غلط پیرائے میں لیا ہے کہ وہ پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے تمام دستاویزات شیئر کرنے کو تیار ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی سکروٹنی کمیٹی اکبر ایس بابر کی پاکستان تحریک انصاف کے دستاویزات فراہم کرنے کی متعدد درخواستوں کو مسترد کر چکی ہے۔

الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ شاید وزیر اعظم کو سکرونٹی کمیٹی میں ہونے والی کارروائی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں یا اُنھیں اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

اُنھوں نے کہا کہ سکرونٹی کمیٹی کی حیثیت کسی بھی معاملے کی تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم یعنی جے آئی ٹی کی ہوتی ہے اور جس طرح جے آئی ٹی میں ہونے والی کارروائی کو پبلک نہیں کیا جا سکتا اسی طرح سکروٹنی کمیٹی کی کارروائی کو بھی عام نہیں کیا جا سکتا۔

کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ جس طرح جب تحقیقات کے بعد معاملہ عدالت میں جاتا ہے تو وہاں پر کارروائی اوپن ہو جاتی ہے اسی طرح سکروٹنی کمیٹی جب اپنی سفارشات الیکشن کمیشن کو دے گی تو الیکشن کمیشن کے فل بینچ کی کارروائی کھلی عدالت میں ہوگی۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم گذشتہ چند ہفتوں کے دوران یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ان کی جماعت کے پاس غیر ملکی فنڈنگز کے تمام شواہد موجود ہیں جبکہ حزب مخالف کی تین بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز ، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعت علمائے اسلام (فضل الرحمن ) جنھیں غیر ملکی فنڈنگ ملتی رہی ان کے پاس شواہد موجود نہیں ہیں۔

الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ کافی عرصے سے سکروٹنی کمیٹی اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور اب اس کمیٹی کو اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے دینی چاہیے کیونکہ اس معاملے میں تاخیر کی وجہ سے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔

سکرونٹی کمیٹی کا اب اگلا اجلاس آئندہ ہفتے میں ہونے کی توقع ہے۔

فارن

وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن میں یہ مقدمہ جیت جائیں گے تاہم اس دعوے کے برعکس ماضی میں پاکستان تحریک انصاف غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو کارروائی سے روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کرتی رہی ہے۔

فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ الیکشن کمیشن میں کوئی سیاسی مخالف جماعت نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اپنے بانی اراکین میں سے ایک اکبر ایس بابر سنہ 2014 میں لے کر آئے تھے۔

اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے بھی فنڈز حاصل کیے، جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اکبر ایس بابر نے کہا کہ مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو ملنے والے فنڈز کا معاملہ اُنھوں نے سنہ 2011 میں پارٹی کے چیئرمین عمران خان کے سامنے اٹھایا تھا اور یہ کہا تھا کہ پارٹی کے ایک اور رکن جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس معاملے کو دیکھے لیکن اس پر عمران خان کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہونے کی بنا پر وہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں لے کر گئے۔

اکبر ایس بابر کے مطابق امریکہ اور برطانیہ میں جماعت کے لیے وہاں پر رہنے والے پاکستانیوں سے چندہ اکھٹے کرنے کی غرض سے لمیٹڈ لائبیلیٹیز کمپنیاں بنائی گئی تھیں جن میں آنے والا فنڈ ممنوعہ ذرائع سے حاصل کیا گیا۔

اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے بھی ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو فنڈز ملے اور یہ رقم پاکستان تحریک انصاف میں کام کرنے والے کارکنوں کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی جبکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بھی ہنڈی کے ذریعے پارٹی کے فنڈ میں رقم بھجوائی گئی۔

اُنھوں نے کہا کہ ان کا الیکشن کمیشن میں اس درحواست کو لے کر جانے کا مقصد کسی جماعت پر پابندی لگوانا نہیں اور نہ ہی کسی کی عزت کو اُچھالنا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے والے فنڈز سے ملکی سلامتی پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp