یمن اور پاکستان کی پولیس میں کیا مشترک ہے؟


ملک کے دارالحکومت میں ایک پرہجوم مقام پر اس کی ایک چھوٹی سی دکان تھی۔ وہ روزانہ اپنی اس چھوٹی سی دکان پر صبح سے شام تک محنت مزدوری کرتا تھا، جس کی بدولت اسے چند رقم مل جاتی تھی، جس سے وہ اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالتا تھا۔ لیکن آج صبح اس کے لیے ایک اچھی صبح ثابت نہ ہوئی، وہ معمول کے مطابق اپنی دکان پر پہنچا، اس نے اپنی دکان کھولی تو دکھائی دینے والے منظر سے دنگ رہ گیا۔ وہ کیا دیکھتا ہے کہ اس کی دکان کی پچھلی جانب کی دیوار ٹوٹی پڑی ہے، شیشے کی کرچیاں بکھری پڑی ہیں۔

ضروری سامان اور نقدی کا دور دور تک کوئی نشان نہیں۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے سر پہ ہاتھ رکھ کر پاؤں کے بل ایک کونے میں ہو کر بیٹھ جاتا ہے، کافی دیر تصورات کی وادیوں میں سرگرداں گھومنے کے بعد وہ اٹھا اور فوراً پولیس آفس پہنچا۔ جب وہ افسر کو پورے واقعہ سے آگاہ کرنے ہی لگتا ہے تو اسے کچھ ایسے رویوں کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے اسے خاموش کرا دیا۔ کیوں کہ پولیس افسر اپنی ‘فیس’ لیے بغیر اس کی کسی قسم کی کوئی بھی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ اتنے میں ایک جاسوس افسر ظاہر ہوتا ہے، وہ بھی فنگر پرنٹ لینے پر اس وقت تک رضامند نہیں ہوتا جب تک اپنی جیب گرم نہیں کر لیتا۔

چنانچہ اس معاملے میں اسے 1200 ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرنا پڑی، تب جا کر اس کی بات پر کان دھرے گئے۔ اور اگر وہ یہ رقم ادا نہ کرتا تو اسے انصاف ملنا مشکل تھا۔ ایک ایسا ملک جہاں 55 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہو تو اتنی رقم کی ادائیگی ہر فرد کے بس کی بات نہیں، اور نہ جانے کتنے لوگ اس خطیر رقم کے نہ ہونے کی وجہ سے انصاف سے کوسوں دور ہوں گے اور انصاف ان کے ہاں عنقاء کی طرح ایک تخیلاتی شے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

اس ملک کا ماحول کچھ ایسا ہے کہ اگر آپ بمشکل اتنی رقم کا بندوبست کر بھی لیں جس سے پولیس افسر کی ہوس کی تسکین ہو سکے تو پھر بھی آپ شفاف تحقیقات سے بے غم نہیں ہو سکتے، کیوں کہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوسرا فریق اس سے زیادہ رقم دے کر تحقیقات اور انصاف کی راہ میں روڑے اٹکانے میں آسانی سے کامیاب ہو جاتا ہے۔ اور بعض دفعہ تو ڈپٹی چیف آف پولیس تفتیش سے قبل آپ کو فون کر ے گا اور الزامات خارج کرنے پر کچھ رقم کی پیش کش بھی کرے گا، جب معاملہ اس نہج پر پہنچ جائے تو آپ سمجھ لیں کہ دوسرے فریق نے آپ سے زیادہ رقم دے کر تفتیش کو رکوانا چاہا ہے، پھر کیا ہوتا ہے ، مہینوں گزر جاتے ہیں لیکن پولیس کسی بھی ملزم یا مجرم کو گرفتار کرنے میں ناکام رہتی ہے۔

نہ جانے آپ یہ کہانی پڑھ کر کس ملک کے بار ے سوچ رہے ہوں گے، اور کس ملک کی پولیس کے ان قدر انفرادی اوصاف پر فریفتہ ہو رہے ہوں گے، ممکن ہے آپ کسی ملک کی پولیس کے بارے اس واقعہ کو یقینی سمجھ لیں، میں آپ کو بتاتا چلوں کہ آپ چاہے جس مرضی ملک کا سمجھ لیں لیکن حقیقت سے آگاہ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ یہ حادثہ 33 سالہ حسین کو پیش آیا۔ جس کا تعلق یمن سے ہے۔ یمن کے دارالحکومت صنعاء میں یہ الیکٹرانک شاپ کا مالک تھا۔

سابق صدر کو جس جگہ نظر بند کیا گیا، اس سے تھوڑی ہی مسافت پر اس کی دکان واقع تھی۔ اور یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں پولیس اہلکار دن رات ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں، اس کے باوجود اسے اپنی مدد کے لئے کسی افسر کو تلاش کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ اور تقریباً 60 فیصد یمنی باشندوں کی طرح اسے بھی پولیس کو اپنی بات سنانے کی خاظر رشوت دینا پڑتی تھی، جب دارالحکومت کی یہ حالت ہے تو باقی علاقوں کا اندازہ لگا لیجیے۔ یہ ایک سچی کہانی ہے، جسے ورلڈ بینک نے کرپشن اور بدعنوانی کے واقعات کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی سائٹ پر ڈال رکھا ہے۔

توجہ طلب امر یہ ہے کہ ہم نے اس کہانی کا تذکرہ کیوں کیا۔ شاید اس لئے کہ اگر آج بھی وہاں اور کئی دیگر ملکوں کی پولیس کی صورتحال ایسی ہے یا اس سے بھی بدتر ہے۔ اہل اقتدار کو اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے اور پولیس اہلکار کے مجرم یا ملزم سے خفیہ رابطوں پر کڑی سے کڑی سزا ہونی چاہیے۔  اس شعبہ میں کچھ ایسی تبدیلیاں اور اصلاحات ناگزیر ہیں جن کی بدولت عوام کا پولیس پر اعتماد بحال کیا جا سکے تاکہ لوگ پولیس کو دیکھ کر انجانے خوف میں مبتلا ہونے کے بجائے سکھ کا سانس لیں۔

مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں اگلے کچھ عرصے میں اخبارات میں دیگر دھاتوں کی طرح انصاف کی قیمت کا بھی ایک خانہ درج نہ ہو جائے۔ اگرچہ یہ دھات نہیں لیکن بے شمار دھاتوں کو اس کی نذر کرنے والے بھی بہت ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو قیمتی دھاتوں سے اسے روندنے کی بھی بھرپور سکت رکھتے ہیں۔ لیکن اس دوران پسے گا کون؟ اصل مسئلہ یہی ہے جس کی پروا کوئی باشعور ہی کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).