زندگی ایک ماسک ہو کر رہ گئی ہے


“سنیں آپ باہر جا رہے ہیں؟ آپ نے اپنا ماسک رکھ لیا ہے نا؟”

“اوہ! نہیں! بھول گیا. ابھی لیتا ہوں.” یہ کہہ کر وہ تیزی سے واپس مڑے اور اپنا نیا نکور ماسک سائڈ بورڈ پر سے اٹھا لیا. جب سے کورونا آیا تھا ان کے ہاں سائڈ بورڈ پر مستقل ایک ٹوکری رکھی تھی جو ہر وقت ماسک سے بھری ہی رہتی. پاس ہی ہاتھوں سے جراثیم پاک کرنے والی بوتلیں بھی رکھی تھیں.

“ماہین! سنو تم ہسپتال جا رہی ہو تو ماسک ہرگز نہیں بھولنا.”
“جی ماما! سن لیا ہے اور رکھ بھی لیا ہے.”
“ارے یہیں تو رکھا تھا میں نے اپنا ماسک کدھر گیا. آخر. اوہو!”
حیدر اپنا ماسک ڈھونڈتے ہوئے سٹ پٹا رہا تھا.
“نائلہ جلدی کرو. دیر ہو رہی ہے، ورنہ کیک کٹ جائے گا.”

“ہاں ٹھیک ہے. میں ماسک تو لے لوں. تم نے لے لیا اپنا ماسک.” عفت نے اپنی بہن سے کہا. وہ دونوں اپنے کزن کے بیٹے کی پہلی سال گرہ پر جا رہی تھیں. “اف! سارا وقت ماسک لگا لگا کے میری ناک کا حشر خراب ہو گیا.” امتیاز جھنجھلا رہا تھا کہ وہ ایک مقامی کوچ کا ڈرائیور تھا.

“سنو! میں تمہارے گھر آ رہی ہوں مجھے کچھ ضروری کاغذات تم سے تصدیق کروانے ہیں.” زارا نے اپنی پرانی سہیلی عالیہ کو فون کر کے کہا جو ایک مقامی سرکاری میڈیکل کالج میں پروفیسر تھی. اگلے روز وہ جب عالیہ کے گھر گئی تو موٹر سے اترنے سے پہلے اس نے منہ پر ماسک چڑھا لیا. عالیہ جب دروازے پر آئی تو اس کا چہرہ بھی ماسک سے ڈھکا ہوا تھا. وہ دونوں بس دور دور ہی سے سینے پر ہاتھ رکھے اپنے سروں کو جنبش دیتے ہوئے ترکیانہ انداز میں ملیں.

حالاں کہ وہ دونوں پورے ڈیڑھ سال کے بعد مل رہی تھیں. دونوں چونکہ بہت گہری سہیلیاں تھیں تو زور سے ایک جھپی تو بنتی تھی. مگر بھلا ہو اس کورونا کا جس نے ہاتھوں میں احتیاط اور سماجی فاصلوں کی ڈوریاں تھما دی ہیں. زارا پچھلے کئی برسوں سے ایک بیماری میں مبتلا تھی جس سے اس کا مدافعتی نظام خاصا کمزور ہو چکا ہے. دوسری طرف عالیہ ایک مقامی میڈیکل کالج کی H. O. D تھی. لہٰذا احتیاط ضروری تھی. وہ اپنے ارد گرد پھیلی سب کہانیوں اور کرداروں کے بارے میں سوچتی ہوئی گاڑی چلا رہی تھی کہ چوراہے کی بتی لال ہو گئی.

اس نے موٹر کو بریک لگائی تو ساتھ ہی اس کی کھٹ کھٹ کی آواز آئی. دیکھا تو ایک بوڑھا صدا لگا رہا تھا “ماسک لے لیں باجی ماسک” اف! پھر سے ماسک وہ سوچنے لگی “زندگی تو بس ایک ماسک ہو کے رہ گئی ہے” بھلا کبھی سوچا تھا کسی کہ اب چوراہوں پر ماسک بھی بکنے لگیں گے. “بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے” کا مفہوم آج اس کی سمجھ میں آیا. زندگی مانو جیسے اک جنگ سی بن کے رہ گئی ہے. اس وبا سے پہلے تو بس زندگی ایک بہاؤ میں بہے چلی جا رہی تھی.

یکایک ایک بھونچال آ گیا. سبھی کو اپنی اپنی پڑ گئی. اوپر سے یہ ماسک ایک بیگانہ اور انوکھا سا اضافہ ہو گیا ہے زندگی میں. وہ خود بھی ماسک لگانے سے گھبراتی تھی مگر لگاتی ضرور تھی کیونکہ اس کے گھر میں بوڑھے ماں باپ جو تھے. جب کبھی ٹیلے وژن یا یوٹیوب پر وہ دنیا کے دیگر ممالک کا حال دیکھتی تو لگتا کہ ہر ملک میں، وادیوں میں، شاپنگ مالز میں، ہسپتالوں میں، سڑکوں پر، تفریح گاہوں میں اور سبزہ زاروں میں ہر جگہ لوگ ماسک پہنے گھوم رہے ہوتے.

یہ تو ذکر ان لوگوں کا ہے جو کڑے طریقے سے تمام ایس. او. پیز کی پیروی کرتے ہیں. دوسری طرف ہمارے وطن عزیز میں بہت بڑی کھیپ ایسے لوگوں کی ہے جو سرے سے کورونا کو مانتے ہی نہیں. نہ تو وہ لوگ ماسک پہنتے ہیں اور ہی سماجی فاصلے برقرار رکھتے ہیں. اس میں عام لوگ کثیر تعداد میں شامل ہیں. ان میں اکثریت ان گھریلو ملازمین کی ہے جو گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے ہیں. اکثر ایسے ملازمین بھی ہیں جو سودا سلف لینے کو بازاروں میں بھی جاتے ہیں.

اگر آپ کبھی اتفاقاً ان کو بازاروں کے اندر یا گھر کی بیرونی سڑک پر غلطی سے دیکھ لیں تو مگن ہو کے لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے چل رہے ہوں گے. جونہی آپ انہیں سوالیہ نگاہوں سے دیکھیں گے تو جھٹ سے جیب میں ہاتھ ڈال مڑا تڑا کسمسایا ماسک نکال کر فوراً منہ پر چڑھا لیں گے. “وہ جی بس ابھی ابھی جیب میں ڈالا تھا.” یہ ہوگا ان کی معصوم سی بنی ہوئی شکل کا ایک غریبانہ سا جواب. اس کو ہر وقت ماسک پہننا پڑتا کیونکہ وہ ایک مقامی کالج میں لیکچرار تھی.

باوجود اس کے کہ آن لائن کلاسز ہوتیں لیکن اساتذہ اور دیگر تمام عملے کو بہرحال آنا ہوتا. اس کو یوں لگتا تھا جیسے زندگی بس ایک ماسک ہو کر رہ گئی ہے. خدا جانے کب یہ کووڈ ختم ہوگا اور کب اس وبا مع ماسک سے جان چھوٹے گی؟ دراصل دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ خود یا ان کے عزیز و اقارب اگر کورونا کے زیر عتاب آ جائیں تو مانتے ہیں کہ کورونا پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے. دوسرے وہ لوگ جو نہ تو خود اور نہ ہی ان کے دوست رشتہ دار کورونا کا شکار ہوئے وہ سرے سے مانتے ہی نہیں کہ کورونا ہے.

دنیا بھر میں بیشتر ایسے لوگ ہیں جو جانے مانے ہیں اور ایسے بھی جو عام ہیں کورونا یکسر کا شکار ہوئے. علما، اداکار، صدا کار، لکھاری بہت سے لوگ اس کی زد میں آئے. لہٰذا ثابت ہو گیا کہ یہ وائرس کسی کو بھی لگ سکتا ہے. درحقیقت بیشتر لوگوں کو A. Sympatomatic کے بارے میں معلوم ہی نہیں کہ وہ ہے کیا بلا. ہوتا یوں ہے کہ اگر کوئی مریض کسی بھی بیماری یا انفیکشن کو اپنے اندر لیے ہوئے ہوں یعنی اس کے جراثیم موجود ہوں لیکن اس کی کسی قسم کی کوئی علامات ظاہر نہ ہوں تو ایسے مریضوں کو A.Sympatomatic کہتے ہیں. ایسے مریض بآسانی دوسروں کو یہ وائرس منتقل کر سکتے ہیں. کووڈ. 19 یا کورونا وائرس کی بنیادی طور پر پانچ حالتیں ہوتی ہیں. ( 1 ) Asymptomatic ( 2 ) Mild ( 3 ) Moderate ( 4 ) Severe ( 5 ) Critical. ابھی تک دستور کے مطابق اس کی مائلڈ، موڈریٹ اور سویئر حالتیں تھوڑا بہت تو ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہیں. مگر کریٹیکل اللہ! اللہ! یا تو موت کی وادی میں پہنچا دیتی ہے یا پھر موت کے کنویں میں گھمن گھیریاں دلا کر واپس چھوڑتی ہے کہ لو بھیا!

اب کر لو بقیہ کام. تحقیق بتا رہی ہے کہ A.symptomatic اور Pre.symptomatic انفیکشن والے لوگ دوسروں میں یہ جراثیم منتقل کرنے میں ذرا سی دیر بھی نہیں لگاتے. مانا کہ چھے فٹ کے فاصلے برقرار رکھنا اور ماسک لگائے رکھنا خاصا مشکل کام ہے. لیکن اس کی پیروی ضرور کرنی چاہیے. تا ہم ایسے لوگ جو خود اس وائرس کا ہلکا پھلکا بوجھ اٹھائے ہوتے ہیں وہ دوسروں کو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کر سکتے ہیں. یہ دوسروں کو لگ جانے والی بیماری ہے.

یقیناً ہر وقت ماسک لگانا شاید جان جوکھوں کا کام ہے لیکن اس نامراد وبا سے بچنے کا آسان اور سستا ترین ذریعہ صرف ایک ماسک ہے. وگرنہ لاکھوں روپے پانی کی طرح بہانے پڑتے ہیں اور زندگی کی ضمانت پھر بھی نہیں. دوسری لہر کا وائرس پہلے سے کہیں زیادہ مہلک اور تیزی سے پھیلنے والا ہے. کیا ہوا اگر زندگی ایک ماسک ہو کر رہ گئی ہے. اگر آپ کو یہ یقین ہو جائے کہ آپ اپنے اہل خانہ کو اور دوسروں کو ایک جان لیوا وبا سے بچا رہے ہیں تو آپ دل کے نہاں خانوں میں اک طمانیت کی لہر دوڑ جائے گی. کام کرنے کی تمام جگہوں پر، دکانوں پر، مدرسوں میں، کالجوں میں، جامعات میں، سفر کرنے کی جگہوں پر ماسک کا استعمال لازمی بنائیں۔ جب تک یہ وبا پوری طرح ختم نہیں ہوئی خدارا! ماسک ضرور پہنیں چاہے آپ کو یہ ہی کیوں نہ کہنا پڑے کہ زندگی ایک ماسک ہو کر رہ گئی ہے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).