بچہ آپ کا غلطی کرے اور ذمہ دار لبرلز ٹھہریں؟



وطن عزیز کی فضا ایسی بن چکی ہے کہ ابھی آپ سوچ ہی رہے ہوتے ہیں کہ فلاں موضوع توجہ مانگتا ہے۔ اس پہ کچھ کہنا چاہیے۔ اتنی دیر میں کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ پچھلے واقعے کو چھوڑ کے اگلے واقعے پہ توجہ مرکوز ہو جاتی ہے۔

پورا ملک چھوڑ، پوری دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ ٹویٹر کھولیں، اور ساری دنیا کی خبریں آپ کے سامنے۔ لو جی ہو گئے آپ باخبر۔ یونہی پچھلے دنوں ایک خبر بہت گرم رہی۔ خبر کا گرم رہنا بنتا بھی ہے۔ نوجوان لڑکا لڑکی کے پریکوشنز کے بنا سیکس کے بعد لڑکی کی پریگننسی اور پھر ابارشن کے وقت موت نے شور مچا دیا۔ حسب معمول مختلف گروہوں میں لوگ بٹے۔ کسی نے فحاشی و عریانی پہ قلم اٹھایا۔ کسی نے لڑکا لڑکی کی اعلی تعلیم کو کوسنے دیے۔

کسی نے کہا کہ لڑکیوں کی کم عمر میں شادی کر دی جائے تو ایسے واقعات رک سکتے ہیں۔ دو چار نے سیکس ایجوکیشن دینے کی بات کی۔ یہ الگ بات ہے کہ سیکس ایجوکیشن کے نام پہ ہمارے عقلمند لوگ ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں۔ کہ سیکس ایجوکیشن سے ہمارے نوجوان سیکس کے طریقے سیکھ جائیں گے۔ جبکہ انہیں یہ معلوم نہیں کہ ان کے شاہین و فاختائیں پورن سائٹس وزٹ کرتی ہیں۔ اس کے لیے انہیں کسی سیکس ایجوکیشنسٹ کی ضرورت نہیں۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اپنے بچوں پہ اعتبار کرنے کا رواج ہی نہیں۔ یہاں پلیز کوئی یہ مت کہنے پہنچے کہ جی والدین نے دوسرے شہر پڑھنے بھیجا۔ اعتبار تھا تو بھیجا۔ تو جناب اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ جب آپ اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں تو کتنے فیصد والدین اس اعتماد کے ساتھ بھیجتے ہیں کہ “میرے بچے اگر کوئی غلطی ہو جائے تو بنا خوف ہمارے پاس آنا۔ ہم ہیں تمہارے ساتھ”۔ بلکہ ہم الٹا اپنی عزت، غیرت و خاندان بھر کی ناک کی حفاظت کے ٹوکرے اپنے بچوں کے کندھوں پہ رکھ کے انہیں بھیجتے ہیں۔ لڑکوں کو لڑکا ہونے کا مارجن مل جاتا ہے۔ مگر لڑکیوں کے لیے آزمائش و نصیحتوں کے انبار ہوتے ہیں۔

ہم میں سے کتنے والدین اپنے بچوں کو بچپن سے اعتماد دیتے ہوئے بڑا کرتے ہیں۔ جو بچوں کو یہ بھروسا دیں کہ بیٹا اگر کچھ غلط کر بیٹھو تو ڈرنا نہیں۔ ہمارے پاس آنا ہم اس غلطی کو سدھاریں گے۔ بچے کو معاشرے سے خود سے رشتے داروں سے اور لوگوں سے ڈرا ڈرا کے بڑا کیا جاتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ آپ سے ہر بات چھپانے لگتا ہے۔ اس میں اس کا قصور نہیں آپ کا قصور ہے۔ آپ اسے بھروسا دلانے میں ناکام رہے۔

میں ہمیشہ کہتی ہوں۔ سپرنگ کو جتنا دبائیں گے وہ اتنی تیزی سے اچھلے گا۔ اور دور جا گرے گا۔ ایسے ہی انسانی فطری جذبات ہیں آپ لڑکا و لڑکی کو ایک دوسرے کے لیے ہوا بنائیں گے۔ وہ اتنا ہی ایک دوسرے کی جانب کشش محسوس کریں گے۔ بلوغت کے بعد لڑکا لڑکی دونوں کے ہارمونز میں بدلاو آتا ہے۔ اس بدلاو کے ساتھ ساتھ صنف مخالف میں کشش بھی بڑھتی ہے۔ اس وقت نہ تو والدین نہ ہی تعلیمی ادارے بچوں کو ان کے فطری تقاضوں و تبدیلیوں بارے آگاہی نہیں دیں گے۔ تو پھر ایسے واقعات پیش آتے رہیں گے۔

دو بالغ افراد میں سیکس ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ہاں مگر سیف سیکس و سیکس کے بعد کے پری کوشنز کو اگنور کرنا وہ بھی آج کے دور میں ضرور قابل غور ہے۔ اگر اس بچی کو اپنے والدین کی جانب سے بھروسا ملا ہوتا تو وہ کبھی جھوٹ بول کے پیسے نہ لاتی۔ لڑکے کو بھی اگر اپنے گھر سے یہ اعتماد ملا ہوتا کہ ایسی کسی بے وقوفی پہ وہ والدین سے مشورہ کرے، تو شاید حالات اور ہوتے۔ ابارشن کرنے والے کلینک کو اگر یہ ڈر ہوتا کہ کسی بھی غلطی کی صورت میں ان پہ بھی کیس بن سکتا ہے۔ تو وہ بھی لڑکی کی جان ایسے آرام سے نہ جانے دیتے۔ ابارشن کروانے کے لیے بھی ایک وقت ہوتا ہے۔ اور اگر وہ بچے اس وقت سے آگے تھے۔ تو یہ حادثہ ہونے کا علم ان کو بھی ہو گا۔ مگر معاشرے میں بدنامی و والدین کے ڈر سے انہوں نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ جس کی سزا لڑکی کو موت اور لڑکے کو جیل کی صورت ملی۔

ان ساری باتوں کا مدعا لبرلز پہ ڈال کے شور مچا دیا گیا۔ کہ جی چونکہ لڑکا لڑکی مخلوط تعلیمی ادارے میں جاتے تھے۔ کسی مدرسے میں نہیں اس لیے لبرل چپ رہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مدارس میں جو چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں۔ وہ ریپ و ہراسمنٹ میں آتا ہے۔ یہاں پہ تو کیس بالکل الگ ہے۔ دو بالغ افراد کے درمیان باہمی رضامندی سے سیکس اور اس کے بعد کے حفاظتی اقدامات نہ لینے سے لڑکی کی جان جانے کا سرا آپ کیسے چھوٹے بچوں سے ریپ کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔ معاف کیجئیے گا یہاں یہ نصیحت کرنے سے بھی باز رہئیے گا کہ ہمارا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارا مذہب تو پھر مدارس میں جنسی زیادتیوں کی بھی اجازت نہیں دیتا جناب۔

سادہ سا کلیہ ہے۔ نہ ہی لبرلز کو الزام دیں نہ ہی مذہب پسندوں کو کوسیں۔ بچوں کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کو سیکس ایجوکیشن دیں۔ انہیں ان کے جسم کی اٹانومی سمجھائیں۔ جب آپ بچوں کو اعتماد دیں گے، محبت دیں گے۔ تو یقین کریں وہ غلطیاں بھی کم کریں گے۔ جن بچوں کو والدین سے بھرپور اعتماد ملتا ہے۔ ان کی زندگیاں بھی آسان ہوتی ہیں اور ان کے والدین کی بھی۔ لڑکے لڑکیوں کو ایک دوسرے کے لیے ہوا نہ بنائیں۔ لڑکے و لڑکی میں جنس کی بنا پہ فرق کرنا چھوڑ دیں۔

انہیں زندگی کو اس کے اصل رنگ میں جینے دیں۔ اور آخر پہ گزارش ہے کہ یہ آرٹیکل بے حیائی کو پروموٹ کرنے، فحاشی پھیلانے یا سیکس کی جانب راغب نہیں کر رہا۔ نہ ہی اکسانے کے لیے لکھا ہے۔ میں نے وہ چند پوائنٹس بتانے یا سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ جن کی وجہ سے ہمارے بچے زندگی میں بڑی غلطیاں کر کے نقصان اٹھاتے ہیں۔ اپنے بچوں کے دوست بنیے، حاکم نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).