کمیونٹی پولیسنگ، شفافیت اور احتساب


اسلام آباد میں پولیس کے ہا تھوں اسامہ ندیم کی ہلاکت ہو یا ڈولفن اہلکاروں کے ہاتھوں عام شہریوں کی درگت اور بے عزتی کا معاملہ، میں نے ہمیشہ یہ سوچا ہے کہ پولیس کے جوان اس معاملے میں اس لئے حق بجانب ہوتے ہیں کہ وہ چوبیس گھنٹے اپنے فرائض سر انجام دینے، اپنی ڈیوٹی سے اکتاہٹ اور گھر سے دوری کی بنا پر بد اخلاق ہو جاتے ہیں لیکن اخبار کی شہ سرخیوں پر جیسے ہی نظر پڑتی ہے تو چیختی چنگاڑتی سرخیاں مظلوم عوام پر پولیس کی جانب سے روا رکھے گئے متشدادانہ سلوک سے بھری پڑی ہوتی ہیں۔

گزشتہ دنوں ملتان کے علاقے گلگشت میں ہونے والی ایف آئی آر پہ دل بے اختیار چیخ اٹھا، اس خبر کے مطابق ڈولفن اہلکاروں نے موٹر سائیکل سوار دو نوجوانوں کا پیچھا کیا، روکنے پر دونوں نوجوانوں نے بد تمیزی شروع کر دی اور اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی وردیاں بھی پھاڑ ڈالیں لیکن ان نوجوانوں کی بجائے ہمارے سرکاری اہلکاروں نے ابھی تک چھ ملزم گرفتار کر لئے ہیں اور بقیہ گیارہ افراد فرار ہیں جن کی گرفتاری کے لئے پولیس اپنے بقیہ فرائض منصبی پس پشت ڈالتے ہوئے جگہ جگہ چھاپے مار رہی ہے۔

جہاں تک میرے اور عوامی مشاہدات کی بات کی جائے تو ہم سب اس بات پہ متفق ہیں کہ پولیس کے شیر جوان اپنے علاقے میں موجود تمام افراد کو انگریز سرکار کی طرح اپنی رعایا سمجھتے ہیں اور ان پر حکم چلانے اور عزت نفس پامال کرنے کا حق ان کو اس وقت ہی مل جاتا ہے جب ان کی کسی بھی علاقے میں پہلی تعیناتی ہوتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پولیس سے کوئی بھی ملزم کبھی خوف نہیں کھاتاکیونکہ اس کو نہ صرف پولیس سے بچنے کے تمام دروازوں کا علم ہوتا ہے اور اگر وہ کسی قتل یا ڈکیٹی میں مطلوب ہوتا ہے تو وہ ویسے بھی جاں ہتھیلی پر رکھ کر ہمارے شیر جوانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سامنا کرنا ہے۔ لیکن اگر آپ دن یا رات کے کسی بھی حصے میں کبھی کسی پولیس ناکے سے گزرے ہوں اور چہرے مہرے سے بارعب بھی نظر نہیں آرہے تو عین ممکن ہے، ناکے پر موجود شیر جوان آپ سے خوش اخلاقی سے بات کرنے میں عار ہی سمجھیں گے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو یا سانحہ ساہیوال، اسامہ ستی کا قتل ہو یا کسی بھی شریف شہری کا ماورائے عدالت پولیس کے ہاتھوں قتل، یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پولیس کے شیر جوانوں کی اکثریت ہمیشہ اپنی حدود و قیود میں رہنے، خوش اخلاقی اور خوش اسلوبی سے اپنی وردی کا بھرم رکھنے کی بجائے پولیس کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں جرائم کی شرح میں خاطر خواہ کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے میں آتا ہے کیونکہ اکثر مجرم صرف اس لئے بھی جرم کی راہ اختیار کرتے ہیں کہ تھانے میں ان سے زبانی یا جسمانی تشدد کیا جاتا ہے۔

پولیس کے ہاتھوں زبانی تشدد کا نشانہ بننے والے ایک بے گناہ نوجوان نے مجھے اپنی کتھا سناتے ہوئے کہا کہ دوران تفتیش میرے کیس کے تفتیش کار نے ایک بھی جملہ ماں، بہن کی گالی کے بغیر نہیں بولا تھا اور میں اپنے ناکردہ گناہ کی ایسی بھیانک سزا پہ شرم سے زمین میں گڑا جا رہا تھا، میرا دل خون کے آنسو تو رو ہی رہا تھا لیکن میری آنکھوں سے بھی آنسو رواں تھے، بعد میں مجھے علم ہوا کہ وہ افسر میرے کیس کا انچارج نہیں بلکہ ضمنی تحریر کرنے والا کرائے کا ریٹائرڈ پولیس والا تھا۔

ایس ہی کئی داستانوں کے آپ بھی گواہ ہوں گے جن میں اکثر بے گناہ انسانوں نے اپنی سفید پوشی اور عزت کا بھرم رکھنے کے لئے بھاری رشوت بھی دی ہو گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تمام تر الزامات کی ذمہ داری کس کے سر ہے؟ کیا پولیس کو کسی بھی بے گناہ کی بے گناہی کا علم نہیں ہوتا؟ کیا وہ عام افراد کے ساتھ خوش اخلاقی اور صبر و تحمل سے بات نہیں کر سکتے؟ اگر کچھ ملازمان ہی ایسے رویہ کا ذمہ دار ہیں تو ادارہ ان کے خلاف سخت کارروائی کیوں نہیں کرتا؟

کمیونٹی پولیسینگ ایک ایسی اصطلاح ہے جس میں معاشرے کی مدد سے چھوٹے موٹے جرائم پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے افراد اور پولیس کے جوانوں کے درمیان اعتماد اور ہم آہنگی کی فضا پیدا کی جاتی ہے۔ اس اصول کی مدد سے نہ صرف عوام کا پولیس پر اعتماد بڑھتا ہے بلکہ پولیس افسران کے مہذب رویہ اور خوش اخلاق اطوار کی بنا پرپولیس سے نفرت اور جرائم کا قلع قمع ہوتا ہے۔ کمیونٹی پولیسنگ کا یہ جدید تصور 1829 ء میں رابرٹ پیل نے پیش کیا لیکن اس اصطلاح کا استعمال بیسیویں صدی عیسوی میں جدید مغربی معاشرے نے اپنے نظام میں محکمہ پولیس کی تنظیم، ترتیب اور توسیع کی خاطر کیا۔

یاد رہے کہ سر رابرٹ پیل نے لندن میٹرو پولیٹن پولیس کی تشکیل کے لئے جو بنیادی اصول طے کیے وہ آج بھی قابل عمل ہیں لیکن تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہمارے علم میں یہ بات آتی ہے کہ اسلامی معاشرے میں قانون کے نفاذ اور امن و امان کی قیام کی خاطر محکمہ پولیس کی ابتداء خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں ہوئی۔ اس بات سے سب لوگ بخوبی واقف ہیں کہ عوام، جرائم اور نظام انصاف کا آپس میں گہرا رشتہ ہوتا ہے، اس لیے حضرت عمر ؓ نے اس امر پر خصوصی توجہ دی اور ایک ایسا پرامن معاشرہ تشکیل دیا جس کی مثال نہیں ملتی۔

اس دور میں پولیس کو ’احداث‘ اور پولیس افسر ’صاحب الاحداث‘ کہلاتا تھا۔ اس محکمے کا سب سے بنیادی اصول ’احتساب‘ تھا۔ شفاف احتساب کے حصول کے لئے آپ ؓنے حضرت محمد بن مسلمہؓ کو محکمہ احتساب کا انسپکٹر جنرل بنایا۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ نے تمام گورنروں یا والیان ریاست کے اعمال پر نظر رکھتے تھے اور باقاعدہ ایک رپورٹ خلیفہ کو پیش کرتے تھے۔

حضرت عمر ؓ نے تفتیش کا ایک ایسا انداز متعارف کروایا جس میں تحقیق کے ساتھ ساتھ انصاف کی عمل داری تھی اور پولیس افسران بلا روک ٹوک اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے معاشرے میں جرائم کی بیخ کنی کرنے کے مجاز تھے۔ آپ ؓ نے رشوت کے خاتمے کے لئے افسران کی خاطر خواہ تنخواہوں کا انتظام انصرام کا بھی کیا۔ ہم موجودہ پولیس نظام کی بات کریں تو یہ سب سے پہلے فرانس اور بعد میں انگلینڈ میں پولیس کا نظام تشکیل دیا گیا۔

جب اس نظام کا خاکہ بن رہا تھا تو یہ بات بھی زیر غور آئی کہ اسے سیاسی طور پر استعمال کیا جائے گا لیکن اس بنیادی ڈھانچے کی ناکامی کے بعد انہوں نے اس محکمہ کو سیاسی مداخلت سے پاک کر دیا اور ان ملکوں میں آج کی غیر سیاسی پولیس وجود میں آئی، جو وزارت داخلہ کے نیچے خودمختار رہ کر کرمنل جسٹس سسٹم کے ساتھ عوام کی بھلائی اور دفاع کا کام کرتی ہے، نہ کہ سیاسی ہتھکنڈوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے، چوں کہ پولیس کا بنیادی مشن جرائم کو روکنا اور امن قائم کرنا ہوتا ہے تاکہ ریاست کا نظم و نسق خوش اسلوبی کے ساتھ چلتا رہے۔

پولیس کی کامیابی اور اہلیت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ عوام اس کے اقدامات کی تعریف کریں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک محکمہ پولیس میں کوئی بھی ایسی اصلاح نہیں کی گئی جس کی بنا پر وہ عوام کی محبت اور ہمدردی حاصل کر سکے۔ بجائے اس کے کہ ایسے اقدامات کیے جاتے ء جس کی وجہ سے نہ صرف پولیس کا مورال بلند ہوتا اور پولیس کی وردی کو فخر کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ اس محکمے کو ذاتی اور انتقامی مقاصد کے حصول کے لئے یو ں استعمال کیا گیا جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔

پولیس نظام کو دیکھا جائے تو یہ امر واضح ہے کہ پولیس کا بنیادی ڈھانچہ شفافیت اور احتساب پر مبنی ہونا چاہیے تاکہ پولیس کا ہرنوجوان نہ صرف اپنے افعال و اعمال سے بلکہ کردار سے اس محکمے کا نام روش کر سکے لیکن حقیقت یہ ہے کہ محکمہ انسداد رشوت ستانی میں سب سے زیادہ درخواستیں اس محکمے کے خلاف ہیں۔ اگر کوئی افسر ایمانداری اور میرٹ سے کسی بھی اہلکار کو سزا کے طور پر بر طرف کرتا ہے تو کچھ ہی دنوں بعد سروس ٹریبونل کے ذریعے، نوٹوں کی چمک سے یا سفارش کے زور پر کرپٹ اور راشی اہلکار پھر کسی نہ کسی اہم عہدے پر تعینات ہو جاتا ہے۔

سابقہ سیاسی ادوار میں پولیس کے میٹرک پاس نوجوانوں کی تنخواہیں کسی ایم فل استاد کے برابر کر کے اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی کہ زیادہ تنخواہوں کی بنا پر اب اس محکمے میں رشوت ستانی کا گراف نیچے آئے گا لیکن ایک 50 ہزا رتنخواہ لینے والا کانسٹیبل آج بھی 100 روپے رشوت لینے سے باز نہیں آتا جس کی بنیادی وجہ محکمے میں مناسب جزا و سزا کا نہ ہونا ہے۔ کسی بھی افسر کی سب سے بڑی سزا کلوز ٹو لائن ہے جہاں وہ بیٹھ کر عیش و آرام کرتا ہے اور پھر مقامی افسر کے کسی ہرکارے کو معقول منشیانہ دے کر کسی تھانے میں تعینات ہو جاتا ہے۔

٭٭٭٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).