ٹرانسپیرنسی انٹرنیشل کی رپورٹ اور ڈینیئل پرل کیس


حکومت کے پاس کرپشن کے خلاف جہاد کی بات اور چوروں کو پکڑیں گے،  این آر او نہیں دیں گے کی تکرار کے سوا کارکردگی کے میدان میں تھا کیا؟ حکمراں جماعت کو برسر اقتدار آئے اڑھائی برس کا عرصہ گزر چکا، یعنی وہ اپنی آئینی مدت کا نصف حصہ گزار چکی، الیکشن سے قبل عوام سے جو بڑے بڑے وعدے اور دعوے کیے گئے تھے، ان میں سے کوئی ایک بھی پوری نہیں ہوا۔ ہر بات کے جواب میں یہی عذر پیش کیا جاتا رہا کہ پچھلے لوٹ کر لے گئے۔ ہمیں ملک جس تباہ حالت میں ملا تھا اس سے نکلنے میں وقت لگے گا۔ حالانکہ اقتدار میں آنے سے قبل تمام صورتحال عمران خان صاحب اور ان کے رفقا کے علم میں تھی اس وقت مگر کہا جا رہا تھا کہ وہ ابتدائی سو دن میں ملک کی تقدیر بدلنے کی بنیاد رکھ دیں گے۔

چلیں مان لیتے ہیں اعداد و شمار کا باہر بیٹھ کر درست اندازہ نہیں ہو سکا اور معاشی حالت جانے والے اندازوں اور توقعات سے زیادہ گھمبیر چھوڑ کر گئے مگر کرپشن کے خاتمے میں اب تو پچھلے حکمراں رکاوٹ نہیں۔ عمران خان صاحب کا فلسفہ تھا، اوپر بندہ ایماندار ہو گا تو نیچے خودبخود کرپشن ختم ہو جائے گی، جس کسی نے سمجھانے کی کوشش کی، اسے لفافہ پکڑ کر چوروں کی وکالت کے طعنے ملے۔ ہم پچھلے اڑھائی سال سے چیخ رہے تھے کہ کرپشن کا خاتمہ بھی محض دعویٰ ہی تھا، زمینی حقائق یہ ہیں کہ نیا پاکستان بننے کے بعد دیگر اشیا کی گرانی کے ساتھ رشوت اور کرپشن بھی بڑھ چکی ہے اور کوئی بڑا اسکینڈل اگر نظر نہیں آ رہا تو اس کی وجہ ترقیاتی کام بند ہونا تھا وگرنہ آٹا، چینی، ادویات اور ایل این جی جیسی وارداتوں کے ذریعے غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی نہ لٹتی۔

اب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، جو ہر سال دنیا کے مختلف ممالک میں پبلک سیکٹر میں کرپشن کا جائزہ لے کر رپورٹ شائع کرتا ہے، نے پاکستان کے بارے میں جو درجہ بندی پیش کی وہ ثابت کرتی ہے کہ حکومت کرپشن کے خلاف ”جدوجہد“ میں کتنی کامیاب رہی۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن میں 4 درجے اضافہ ہوا ہے یعنی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے جاری کردہ کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) برائے سال 2020 میں شامل 180 ممالک میں سے پاکستان 124 ویں درجے پر آ گیا ہے جبکہ گزشتہ برس اسی رینکنگ میں پاکستان 120 ویں نمبر پر تھا۔

اس کے ساتھ ملک کا سکور بھی 100 میں سے گزشتہ برس کے 32 کے مقابلے میں کم ہو کر 31 ہو گیا ہے۔ ذہن میں رہے کہ 2018 میں کرپشن سے متعلق اس فہرست میں پاکستان کی رینکنگ 117 اور سکور 33 تھا۔ دوسری طرف وزیراعظم سمیت حکومتی ترجمان حسب روایت یہ الزام بھی ماضی کی حکومتوں پر ڈال رہے ہیں کہ اس رپورٹ کی تیاری میں جو اعداد و شمار استعمال ہوئے وہ پرانے ہیں۔ ایک حکومتی ترجمان نے اپنے جھوٹ کو سچ ثابت اور قوم کو گمراہ کرنے کے لیے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک پرانی رپورٹ کی دستاویزات سوشل میڈیا پر شیئر کر دیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرما دیا کہ رپورٹ چونکہ انگریزی میں ہے اس لیے سیاسی مخالفین کے لیے اسے سمجھنا مشکل ہے، جب اردو ترجمہ ہو گا تو علم ہو جائے گا یہ پرانے ڈیٹا پر مشتمل ہے۔

اس طرز عمل کو محتاط سے محتاط الفاظ میں بھی شرمناک کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہی زبانیں جو ریاست مدینہ کی بات کرتی ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے ”لعنۃ اللہ علی الکاذبین“ انہیں اس قدر ڈھٹائی سے جھوٹ بولنا زیب دیتا ہے؟ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی وضاحت سامنے آ چکی ہے، رپورٹ کی تیاری میں صرف ایک ادارے کا ڈیٹا 2018 کا ہے، وہ بھی اس وقت کا جب عمران خان صاحب وزیراعظم بن چکے تھے، باقی تمام ڈیٹا 2019 اور 2020 کا تھا یعنی یہ اسی حکومت کا اعمال نامہ ہے۔

ہمارے سینئر اور ایماندار صحافی جناب انصار عباسی اس کی تفصیل بھی بیان کر چکے اس پر بھی مگر کسی کو اعتبار نہیں تو بی بی سی کی ہی خبر دیکھ لی جائے جس میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سے رابطہ کرنے کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کے ترجمان نے جو کچھ کہا وہ درست نہیں اور رپورٹ میں شامل ڈیٹا اسی دور حکومت سے متعلق ہے۔ شرمناک بات یہ ہے کہ مذکورہ ترجمان کا نام لے کر عالمی میڈیا میں کہا گیا کہ وہ غلط بیانی کے مرتکب ہوئے اس کے باوجود پارسائی کے دعویداروں میں سے کسی کی جبیں پر عرق ندامت کا قطرہ نظر نہیں آیا۔

کرپشن کک بیکس اور منی لانڈرنگ جیسے جرائم کے مضمرات سے کون انکار کر سکتا ہے؟ مسئلہ مگر یہ ہے ملک میں کرپشن پکڑنے کے لیے نیب، ایف بی آر، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن جیسے ادارے موجود ہیں۔ ان اداروں کے سربراہان کی شخصی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر من مرضی سے چلانے کی کوشش کی بجائے انہیں آزادی کے ساتھ کماحقہ کام کرنے دیا جاتا تو واقعتاً کرپشن میں قابل ذکر کمی لائی جا سکتی تھی۔ اس کے بجائے حکومت نے احتساب کے نام پر تمام عرصہ سیاسی انتقام میں ضائع کر دیا جس کی وجہ سے کرپشن کم کیا ہونی تھی، اس میں اضافہ ہو گیا۔

الٹا ملکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا۔ حکومت اگر باقی مدت میں کچھ کرنا چاہتی ہے تو احتساب کے محاذ پر ناکامی کے بعد اپنے انتقامی ایجنڈے کو لگام دے کر فی الفور معیشت اور اس سے پیوستہ خارجہ محاذ پر درپیش چیلنجز پر اپنی توانائیاں مرکوز کرے۔ سب سے اہم اور فوری نوعیت کا مسئلہ امریکی صحافی ڈینیئل پرل قتل کیس کے مبینہ ملزم عمر شیخ کی رہائی کے عدالتی حکم کی بدولت امریکا اور پاکستان کے درمیان اٹھتے قضیے کا ہے۔ امریکا میں انتقال اقتدار کے بعد لوگ ہمارے اور امریکا کے تعلقات میں بہتری کی امید لگائے بیٹھے تھے اور سمجھا جا رہا تھا کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن، جو اس خطے اور پاکستان کے کردار کو سمجھتے ہیں، افغان امن عمل میں ہماری خدمات کو سراہیں گے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے مگر اپنے ہم منصب پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے پہلی ٹیلی فونک گفتگو میں ہی ڈینیئل پرل کے قتل میں ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کر دیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم عمر شیخ پر امریکہ میں مقدمہ چلانا چاہتے ہیں اور ڈینیئل پرل کے خاندان کو انصاف دلانے کے لیے پرعزم ہیں۔ حالانکہ اس سے قبل بھارتی ہم منصب سے بات میں امریکی وزیر خارجہ باہمی تعاون کو مزید بڑھانے کی باتیں کر چکے تھے۔

گویا ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد اور ڈومور کے مطالبات پھر شروع ہونے والے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہونے اور ایسے وقت جب آئی ایم ایف کا پروگرام پینڈنگ پڑا ہے، اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ نئی امریکی انتظامیہ نے یہ کہہ کر کہ افغان طالبان معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں یہ عندیہ دیا ہے کہ قطر معاہدے پر نظرثانی ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے بار بھی ایک مرتبہ پھر ہمارے ہی کندھوں پر پڑے گا۔

ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین ایٹمی ڈیل کے احیا کا امکان بھی پیدا ہو رہا ہے، جس میں سعودی عرب اور یو اے ای بھی شمولیت کے خواہش مند تھے لیکن ایران نے انکار کر دیا۔ یہ ڈیل بحال ہو گئی تو لازم ہے کہ عرب ممالک ناخوش ہوں گے اور ایران عرب مخاصمت میں دوبارہ تیزی آئے گی۔ اس کے اثرات بھی براہ راست ہماری سکیورٹی اور معیشت پر پڑیں گے۔ یہ مسائل یکسوئی، بھرپور توجہ، اتفاق رائے اور سیاسی استحکام کے متقاضی ہیں، مگر یہ اس تک ممکن نہیں جب تک کرپشن کی لایعنی گردان ختم نہیں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).