ڈاکٹر خالد سہیل اور گرین زون کا فلسفہ


گرین زون کا فلسفہ میرے لیے تین الفاظ کا نام ہے :
خود شناسی ’خود اعتمادی اور خود انحصاری۔
خود شناسی

جب آپ اپنی ذات سے پوری طرح آگاہ ہو جاتے ہیں تو بطور انسان اپنی اچھائیوں اور برائیوں دونوں کو قبول کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں بچپن سے سکھایا جاتا ہے کہ اچھے کام کریں۔ اگر کوئی غلط کام کرتا ہے تو چاہے بچہ ہی کیوں نہ ہو اس کا مار مار کر بھرگس نکال دیا جاتا ہے۔ سب پوچھتے ہیں یہ غلطی کیوں کی؟ بھلا ہو مغربی ممالک کی پولیس کا کہ ان کے خوف کے مارے یہاں بچوں کو مارنے پیٹنے سے گریز کیا جاتا ہے اور دیسی والدین دن دیہاڑے یہ خواب دیکھتے ہیں کہ جس دن وہ اپنے آبائی ملک کے ائرپورٹ پر قدم رکھیں گے پہلا کام یہ کریں گے کہ نہایت دیسی طریقے سے اپنے بچوں کی غلطیوں کی اصلاح کریں گے۔ ان غلطیوں سے سیدھا جہنم کا دروازہ بھی کھولا جاتا ہے۔ بچپن سے ہی غلطی ’غصہ‘ مار پیٹ اور جہنم کی آگ کا ایسا کمبینیشن بنایا جاتا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو کبھی بھی اون ownکرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہمیشہ دوسروں کے کھاتے میں ڈالتے ہیں اور کوئی نہ ملے تو خدا ہمیشہ موجود رہتا ہے۔

ہر اچھا کام ہم نے کیا ہے اور ہر برا کام خدا کی مرضی ہے۔ یہ سیلف پروجیکشن self projectionکے ایسے کمپلیکس complexکو جنم دیتا ہے کہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ اگر اچھی چائے بھی بنا لیں تو برج خلیفہ پر کم از کم تصویر آنی چاہیے۔

جب میں لوگوں کو اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر ان کو لمبے لمبے لیکچر اور اپنی عظمت کی مثالین دیتے دیکھتی ہون تو میرا دل چاہتا ہے کہ پوچھوں اگر ہم سب بڑے اتنے پرفیکٹ ہیں تو یہ دنیا اتنے برے حال میں کیوں ہے۔ علامہ پادری حضرات اور موٹی ویشنل سپیکرز اپنے لمبے لمبے لیکچرز میں ثقیل جملے بھاری بھرکم الفاظ عجیب و غریب مثالین دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں لیکن کوئی آپ کو یہ نہیں کہے گا کہ غلطیاں سیکھنے کے عمل کا حصہ ہیں۔ یہ غلطیاں کہکشاں کے ستاروں کی مانند ہیں ثابت قدم مسافر کو اس کی منزل کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔

چلتے جائیے۔ سیکھتے جائیے اور یہی گرین زون کے فلسفے کی پہلی بنیادی اکائی ہے۔
own yourself first bad or good
then start working on the areas you think pushing you to darkness
خود اعتمادی

جب آپ اپنے آپ کو ہر اچھائی برائی کے ساتھ قبول کرتے ہیں اپنے کیے گئے فیصلوں۔ اپنے ساتھ جڑے لوگوں کو اپنے ارد گرد کے معاشرے کو۔ اس کی اچھائیوں برائیون کے ساتھ قبول کر لیتے ہین تو یہ آپ کو جدوجہد کرنے کی خود اعتمادی بخشتا ہے۔

یہ قبولیت قنوطیت والی قبولیت نہیں کہ جو بس جیسا ہے آپ قبول کر لین اور ڈرامے کی ہیروئن کی طرح آنسو بہا کر صبر شکر کر کے گالیاں گھونسے کھاتے رہیں۔ بلکہ یہ آپ کو اپنے آپ اپنے سے جڑے رشتوں اپنے فیصلوں ’کاموں اور ارد گرد کے معاشرے اور سماج میں بہتری لانے کا اعتماد پیداکرتا ہے۔

یہ دوسری بنیادی اکائی ہے کہ آپ اپنے اوپر اعتماد کرین کہ نہ صرف آپ اپنے آپ کو بلکہ اپنے سے جڑی ہر چیز ہر انسان ہر رشتے اپنی ورک سپیس اور اپنے سماج کی بہتری کی کوشش کے اہل ہیں اور آپ یہ صلاحیت اور حوصلہ رکھتے ہین کہ نہ صرف آپ غلط اور صحیح کی پہچان کر سکین بلکہ غلطیوں پر پردہ ڈال کر ان کو چھپانے کی بجائے ان کو اون کر کے ان کی اصلاح کریں۔ یہ ایک جہد مسلسل ہے۔ جیسے آپ کو اپنے جسم کو فٹ رکھنے کے لیے مسلسل ورزش کی ضرورت ہے اس طرح دماغ کو مثبت رہنے کے لیے مسلسل اس تحریک کی ضرورت ہے کہ میرے اندر یہ غلط ہے اور میں اس کو سدھارنا چاہتا یا چاہتی ہوں۔

میرے لیے یہ جملہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور ہر تقریر پر بھاری ہے۔

یہ ایک تحریک ہے دماغ کو کام کرنے کے لیے مثبت کی طرف لے جانے کے لیے اس یقین کے ساتھ کہ بہتری کے لیے اٹھائے جانے والے یہ چھوٹے چھوٹے قدم آپ کو مسلسل آگے بڑھا رہے ہیں۔

آج کی دنیا میں فلاح کا تصور خیرات کے تصور سے بدل دیا گیا ہے۔ ہم اس شخص کو جو لوگوں میں چیزیں بانٹتا پھرتا ہے اور تصویریں کھنچوا کر تشہیر کرتا ہے اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ لیکن میرے لیے یہ طبقاتی نظام کی نا انصافی سے زیادہ کچھ نہیں یہ نا انصافی جہاں بہت سارے معاشرتی اور معاشی مسائل کو جنم دیتی ہے وہاں نفسیاتی مسائل کا پنڈورا باکس pandora ’s boxبھی کھول دیتی ہے۔

ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر نفسیاتی مسئلہ پاگل پن ’معاشی مسائل‘ صبر کی کمی اور معاشرتی مسائل کردار کی اچھائی اور برائی کے ساتھ منسلک کر دیے جاتے ہیں وہاں ڈاکٹر خالد سہیل کا کالم ’فیمیلی آف دی ہارٹ‘ میری سوچ کا عکاس تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں پاکستان کے معاشرتی اور معاشی اور ورک سپیس کے نظام سے عملاٌ بغاوت شروع کر چکی تھی۔ مجھے ان کے مضامین سے احساس ہوا کہ آپ اپنے معاشرے مذہب اور تہذیب کے دباؤ کے بغیر اپنی زندگی کے قوانین خود وضع کر سکتے ہیں۔

اچھائی کامصنوعی لبادہ اوڑھ کر انسان دوسرے انسان کی طرف وہ بھیانک طرز عمل روارکھتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے مضامین سے احساس ہوا کہ آپ اس سب سے الگ اپنی دنیا اپنے اصولوں اور اپنے نظریات کے مطابق بسا سکتے ہیں اور ڈھال سکتے ہیں۔

بھاری بھرکم الفاظ ہیر ہھیر کر لکھی گئی باتیں ہمیشہ میرے آس پاس سے گزر جاتی ہیں۔ میں ان لوگوں کو جن کو اس قسم کی لکھی گئی کتابیں اور کی گئی تقریریں سننے اور وڈیوز دیکھنے کا شوق ہوتا ہے اور ان کے سمجھ بھی آتی ہیں بڑے رشک سے دیکھا کرتی تھی۔ اب اپنی جہالت پر شکر کرتی ہوں ورنہ مجھے بھی اب تک علمی بدہضمی ہو چکی ہوتی۔

ڈاکٹر صاحب کے کالموں نے اس وقت ایک پیرالل ورلڈ parallel worldکا دروازہ مضبوطی سے مجھ پر اس وقت کھولا جب میں کیپیلسٹ سوسائٹی capitalist societyکے سب مصنوعی رشتے اور ورک سپیس کے سب آرٹیفیشل ایتھکس artificial ethicsقریب سے دیکھ چکی تھی۔

یہ پیرالل ورلڈ میرے والدین اور ان کے دوستوں کے ماحول سے مطابقت رکھتی تھی۔ اور پاکستان کے عمومی معاشرے سے بالکل مختلف تھی۔

اس وقت جب میرے سامنے انا پرستی کے کئی قدآور بت اپنی انا کے ہاتھوں میں اپنے سامنے پاش پاش ہوتے دیکھ چکی تھی مجھے اچھی طرح سمجھ آئی کہ ان شخصیات کے لکھے اور بولے گئے الفاظ سے ان کا اپنا کوئی لینا دینا نہیں۔

جب میں نے کینیڈا آنے کا فیصلہ کیا تو ایسے ہی ذہن میں ایک خیال آیا کہ ٹورانٹو میں تو ڈاکٹر خالدسہیل بھی رہتے ہیں جیسے وہ میرے آنے کی خبر سن کر پیرسن ائرپورٹ پر کھڑے ہوں گے۔

پاکستان میں ہر بندہ سمجھتا ہے کہ کینیڈا میں سونے کی سڑکیں ’شہد کی نہریں‘ ڈولر کے درخت اور حوروں کی بہتات ہے۔ یہاں آ کر علم ہوتا ہے کہ حالات خاصے الٹ ہیں اور حوروں کو آپ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں۔

اگرچہ میری کوئی ایسی امید نہیں تھی میں صرف شخصی اور فکری آزادی کی خواہاں تھی جو یہاں پر میسر ہے۔ لیکن محبت کے رشتوں سے کوسوں کی دوری انسان کو بے پناہ اذیت میں مبتلا کردیتی ہے۔ ایسے ہی دنوں میں ڈاکٹر صاحب کا ایک کالم پڑھ کر میں نے ان کو مسنجر پر ایک چھوتٹا سا مسیج کیا اور بعد میں سوچا کہ یہ کیا کر دیا ہے۔

دل کو اطمینان تھا کہ جواب نہیں آئے گا کیونکہ میں سمجھتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب پاکستان کے بیشتر ماہرین نفسیات کی طرح سے انتہائی مغرور اور لکھاریوں کی طرح سے انتہائی فونی اور سوڈو انٹلکچول pseudo intellectualہوں گے۔ تھوڑی دیر بعد نہ صرف جواب آیا بلکہ فون نمبر دے کر کول کرنے کو کہاگیا۔

مجھے کیونکہ ایسے کاموں میں سینگ پھنسانے کی عادت ہے اس لیے فون بھی گھما ڈالا۔ س کے بعد سوچا کہ کیا بات کرنی ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے صرف فون سنا بلکہ ملاقات کے لیے بھی خود آئے۔ اس ملاقات میں انہوں نے اپنے شاعر چچا عارف عبدالمتین کا تزکرہ بہت محبت سے کیا کہ انہوں نے کس طرح چاہت اور احترام سے ڈاکٹر صاحب کی ادبی پرورش کی۔

اس ملاقات نے میری گرین زون جرنی کی عملاً ابتدا کی۔ کیونکہ لفطوں پر میرا یقین کم او عمل پرزیادہ ہے۔ وہسے بھی ڈاکٹروں کو وہ بات زیادہ اچھے سے سمجھ آتی ہے جس کاپریکٹیکل کیا جا سکے

ڈاکٹر صاحب کی شخصیت گرین زون فلاسفی کاعملی ثبوت ہے۔

اس سفرمیں ڈاکٹر صاحب کے اندازبیاں میں اصطلاحات کے استعمال نے میری بہت مدد کی۔ کنول کے پھول کے مطابق کرونا کی وبا میں رہنے اور نیگیٹیویٹی کی تابڑ توڑ بارش سے اپنے دماغ کومحفوظ رکھنے کے لیے ایموشنل اوورکوٹ emotional raincoatبنانے کی اصطلاحات میرے لیے بہت ایکسائٹیگexciting تھیں۔ خاص طور پر انسانی جذبات کا ٹریفک سگنل سے تقابل بہت مزیدار ہے۔ گرین زون۔ ییلو زون اور ریڈ زون جب آپ غصے میں ہوتے ہیں اور اس اصطلاح سے آگاہ ہوتے ہیں تو آپ کو اپنا آپ ڈونلڈ ڈک کی طرح سے محسوس ہوتا ہے جس کادماغ سرخ ہو کر پریشر ککر کی مانند سیٹیاں مار رہا ہو۔

ان سب اصطلاحات نے میرا چیزوں کی طرف پرسپیکٹیو perspectiveبدل دیاہے۔

ایمپاورمنٹ empowermentکا احساس کہ نہ صرف آپ اپنے جذبات کا ریموٹ کنٹرول اپنے پاس رکھتے ہیں بالکہ آپ اپنے سماجی ’معاشرتی اور معاشی رشتوں کے اتار چڑھاؤ میں بھی جذباتی کنٹرول میں رہتے ہیں ایک ایمپاورنگ احساس ہے۔

یہ گرین زون فلاسفی کی تیسری اکائی ہے
خود انحصاری

میں امید کرتی ہوں کہ ایک ایسے وقت میں جہاں دنیا معاشی طور پر بٹی ہوئی ہے اور کرونا کی وبا نے ہرملک کی اکانومی اور افرادکے لیے نہ صرف صحت بلکہ بے تحاشا نفسیاتی مسائل کو جنم دیا ہے یہ فلسفی ڈاکٹر صاحب کے زیر اثر بہت سارے لوگوں کو نفسیاتی ایمپاورمنٹ کے نئے خیالات سے روشناس کرائے گی اور لوگ نفسیاتی خود انحصاری کے اس عمل سے اپنی زندگیوں کو اور اپنے ارد گردکے رشتوں کو بہتر انداز مین آگے بڑھا سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).