چھاتی کا کینسر: دیسی ٹوٹکوں سے شاہین کی چھاتی میں سوراخ ہو گیا


خود تشخیصی
Science Photo Library
لگ بھگ ایک سال قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والی شاہین کو چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوئی مگر گاؤں کی بڑی بوڑھیوں نے شاہین کے گھر والوں کو مشورہ دیا کہ اس مرض سے نجات پانے کے لیے آپریشن ہرگز نہ کروایا جائے بلکہ آزمودہ دیسی ٹوٹکے استعمال کیے جائیں۔

ٹوٹکے کیے گئے اور گڑ اور چیڑ کے درخت کا گودا آگ پر دہکا کر شاہین کی چھاتی کے اس مقام پر لگایا گیا جہاں گلٹی بن چکی تھی۔ اس ٹوٹکے کے استعمال سے چھاتی میں اس جگہ سوراخ بن گیا جہاں گلٹی موجود تھی اور وہاں سے خون اور پیپ رسنے لگی۔

دیسی ٹوٹکوں کے زیر اثر 38 سالہ شاہین کئی ہفتے تک اس تکلیف میں رہنے کے بعد تقریباً چار ماہ قبل جان کی بازی ہار گئیں۔

شاہین کی وفات سے قبل ان کی ایک دوست شہناز نے ان سے ملاقات کی تھی۔ شہناز نے بی بی سی کو بتایا کہ جب معاملہ زیادہ بگڑا تو ہسپتال کا رُخ کیا گیا اور چند بار اسلام آباد کے نوری ہسپتال میں شاہین کی کیمو تھراپی بھی ہوئی۔

’لیکن وہ ہزاروں روپے دینے کی سکت نہیں رکھتی تھی، اس لیے علاج چھوڑ دیا۔۔۔‘

اسلام آباد کے شفا ہسپتال کے ویٹنگ روم میں کیمو تھیراپی کے لیے آنے والی سلمیٰ کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔

سلمیٰ کی عمر 43 برس ہے اور وہ ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ چھاتی کا آپریشن کروا چکی ہیں۔

کئی گھنٹے کے سفر کے بعد وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے اسلام آباد علاج کے لیے آئی ہیں۔ لیکن اس بار انھیں ان کی کیمو تھراپی نہیں ہو سکی کیونکہ ان کے بلڈ ٹیسٹ کی رپورٹس کے مطابق ان کے نتائج اس علاج کے لیے فی الحال موزوں نہیں ہیں۔

سلمیٰ نے بتایا ’مجھے لگتا ہے کہ میری چھاتی میں گلٹی کچھ ماہ پہلے سے ہی موجود تھی، نہاتے وقت مجھے پہلی مرتبہ اس کی موجودگی کا پتہ تو چل گیا تھا لیکن میں اسے نظر انداز کرتی رہی۔ جب تکلیف کافی بڑھی تو میں نے قریبی ہسپتال میں ڈاکٹر کو دکھایا۔ میں بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ آپریشن سے گلٹی تو نکل گئی لیکن پھر جب میں نے ٹیسٹ کروائے تو پتہ چلا کہ مجھے چھاتی کا کینسر ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ایک رات ہسپتال میں گزرا اور 30 ہزار خرچ ہوئے۔ ڈاکٹر نے بائیوپسی کروائی اور پھر بتایا کہ اس میں کینسر ہے۔ ’ڈاکٹروں نے مجھے کہا کہ آپ میرپور کے ہسپتال چلی جائیں وہاں گئی تو ڈاکٹروں نے کہا کہ پوری چھاتی کاٹنی پڑے گی تب میں سیدھی اسلام آباد آ گئی۔ یہاں پرائیویٹ ہسپتال میں آپریشن ہوا لیکن خدا کا شکر ہے میری چھاتی نہیں کاٹی گئی۔‘

مزید پڑھیے

’میری چھاتی میں محسوس کرنے کی صلاحیت واپس آ گئی‘

بریسٹ کینسر: علامات، تشخیص اور طریقہ علاج

بریسٹ کینسر کے بارے میں آپ کتنا جانتے ہیں؟

‘ڈاکٹرز نے بتایا کہ چھاتی میں ایک اور گلٹی بھی ہے اور کینسر بغل تک پہنچ چکا ہے۔ اب میری کیمو تھراپی ہو رہی ہے۔‘

آج دنیا بھر میں کینسر سے آگاہی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ نجی تنظیموں کے اشتراک سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سنہ 2020 کے دوران کینسر کے سترہ لاکھ نئے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں 14.5 فیصد یعنی لگ بھگ 26 ہزار کیسز چھاتی کے کینسر کے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سنہ 2018 میں رپورٹ ہونے والے کینسر کے مجموعی کیسز کی تعداد ایک لاکھ 17 ہزار سے زیادہ تھی جن میں چھاتی کے کیسنر کا تناسب 19 فیصد سے زیادہ تھا۔ اور اگر صرف خواتین کو ہونے والے مخصوص اقسام کے کینسر کے کیسز کی تعداد دیکھی جائے تو اس میں چھاتی کے کیسنر کی شرح 36.4 فیصد تھی، یعنی کینسر کی شکار ہر سو پاکستانی خواتین میں سے لگ بھگ 36 خواتین کو چھاتی کا کیسنر تھا۔

ڈاکٹر کاشف ایک سرجیکل آنکالوجسٹ ہیں جو پرائیویٹ اور پبلک دونوں سیکٹرز میں کینسر کے مریضوں کا علاج اور سرجری کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں سال بھر صرف دارالحکومت کے پولی کیلنک ہسپتال میں کم ازکم 15 ایسے کیسز دیکھتا ہوں جن میں مریضہ کو دوسری بار سرجری کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔‘

لیکن اس کی وجوہات کیا ہیں؟

ڈاکٹر کاشف کہتے ہیں کہ جب مریضہ کی پہلی سرجری ٹھیک طریقے سے نہیں کی جاتی تو پھر دوسری سرجری کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس مرض کا علاج گائیڈ لائنز کے مطابق ہونا چاہیے۔

‘ایک پریشان مریض اور سرجن بعض اوقات جلد بازی میں علاج کرتے اور کرواتے ہیں جس کے باعث تشخیص صحیح طرح نہیں ہو پاتی۔ پہلے تسلی سے تشخیص کرنی چاہیے تاکہ درست علاج ممکن ہو سکے۔ پاکستان میں بہت سے آپریشن ایک مشکوک گلٹی کی نوعیت جانے بغیر کر دیے جاتے ہیں اور پھر ہمیں اکثر دوسری سرجری کرنی پڑتی ہے۔‘

ڈاکٹر کاشف کہتے ہیں کہ اس وقت 20 فیصد مریض خواتین ایسی ہیں جو بیماری کی پہلے سٹیج پر ہسپتال پہنچ جاتی ہیں جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ناصرف ان کی چھاتی کو مکمل کاٹا نہیں جاتا بلکہ ان کی زندگی بچنے کے چانس بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

کیمو تھیراپی سے بالوں کا گرنا، بخار اور متلی ہونا عام سی علامات ہیں لیکن سرجری کے بعد کچھ خواتین میں بازو میں سوجن، سختی اور شدید درد کی شکایت بھی ہو جاتی ہے۔

کینسر

‘ابنارمل نشونما کی وجہ سے اگر آپ کو بریسٹ پر گلٹی یا لمپ محسوس ہو تو یہ ممکنہ طور پر کینسر کی علامت ہو سکتا ہے’

اگرچہ ڈاکٹر خواتین کو آپریشن والی سائیڈ سے وزن اٹھانے اور بلڈ پریشر چیک کرنے سے منع کرتے ہیں اور انھیں مخصوص مساج اور ورزش بھی بتائی جاتی ہے لیکن ماہر سرجن سے آپریشن نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کے متاثرہ بازو کا وزن نارمل بازو کی نسبت بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔

شفا ہسپتال کی ڈاکٹر حرا کہتی ہیں کہ پاکستان میں ڈاکٹروں کے لیے ایک بڑا چیلنج مریض کا علاج کے لیے دیر سے آنا اور اس بیماری کا مہنگا علاج ہونا ہے۔ لیکن پاکستان کی آبادی اور مریضوں کی زیادہ تعداد میں سرجنز اور کینسر کے علاج کے ڈاکٹرز کی تعداد نہایت کم دکھائی دیتی ہے۔

ڈاکٹر عارف ملک کہتے ہیں کہ چھاتی کے سرطان کے علاج میں سرجری ایک اہم حصہ ہوتا ہے اور یہ ایک سپیشلائزڈ فیلڈ ہے پاکستان میں اس شعبے کے ماہر سرجن بہت کم ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ رواں برس پاکستان نے سرجنز کے لیے ایک فیلو شپ شروع کی ہے اور امید ہے کہ شعبے میں سرجری سے جڑے مسائل بھی کم ہوں گے۔

س

میموگرافی چھاتی کے کینسر کی تشخیص کے لیے مخصوص ایک ایسا ایکسرے ہوتا ہے جو کہ سینے میں پیدا ہونے والی گلٹیوں کی تشخیص کر لیتا ہے اور یوں اس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے

ڈاکٹر حرا کہتی ہیں ملک میں 250 سے 300 کے لگ بھگ آنکالوجسٹ ہیں جو نہایت کم تعداد ہے، اسی طرح ہسپتال اور ایک ہی ہسپتال کی چھت تلے تمام سہولیات کی فراہمی بہت کم ہے جو علاج پر بہت اثر انداز ہوتی ہے۔

کیا اوپر بیان کیے جانے والے اعدا دو شمار کسی انکالوجسٹ کے کلینک یا سرکاری ہسپتالوں میں متعلقہ شعبوں کے باہر لگی بھیڑ سے مطابقت رکھتے ہیں؟

ڈاکٹر عارف کا کہنا ہے کہ نہیں اور پاکستان میں کینسر کے ہسپتال اپنے تئیں تو اعداد و شمار مرتب کرتے ہیں تاہم ملک میں کوئی کینسر رجسٹری نہیں اور اس کی اشد ضرورت ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ کینسر کا خدشہ 40 برس کے بعد زیادہ ہوتا ہے اور اس لیے خواتین کو تجویز دی جاتی ہے کہ وہ اپنا معائنہ خود کرنے کی عادت اپنائیں۔ تاہم ڈاکٹرز کے مطابق پاکستان میں 40 سال سے کم عمر خواتین میں بھی کینسر کے کیسز بڑھے ہیں۔

ڈاکٹر حرا کہتی ہیں کہ لڑکیوں کو 20 برس کے بعد سے ہی اپنا ماہانہ معائنہ کرنے کی عادت اپنانی چاہیے تاکہ وہ اپنی نارمل جسامت سے آگاہ ہو جائیں اور کسی بھی تبدیل کو فوراً جان سکیں۔

وہ کہتی ہیں 40 برس سے زیادہ عمر کی خواتین کو سالانہ میموگرافی کروانی چاہیے اور جن خواتین کے خاندان میں کسی کو بھی کینسر ہو تو وہ چالیس برس سے بھی پہلے ڈاکٹر سے معائنہ کروائیں، سکریننگ سے وہ کسی بھی کینسر سے جلد آگاہ ہو سکیں گی۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp