نکلے سامراج کی تلاش میں
جناب مدیر ’ہم سب‘
السلام علیکم۔ آپ کے ادارے کی وساطت سے میں، رضیہ سلطانہ ساکن ٹکسالی گیٹ لاہور، اعلان برائے تلاش گمشدگی تمام لوگوں تک پہنچانا چاہتی ہوں۔ میں ذاتی طور پر تمام کوششوں کے بعد ہمت ہار چکی ہوں اور آپ کے جریدے کو آخری حربے کے طور پر استعمال کر رہی ہوں۔
مجھے ’سامراج‘ کی تلاش ہے۔ اگر آپ یا آپ کے کسی قاری کو اس کا پتہ مل جائے تو خط وکتابت کے لئے میں اپنا ایڈریس بھیج رہی ہوں۔
اللہ بخشے خالد کی دادی کہا کرتی تھیں: دنیا میں تین چیزیں ایسی ہیں جو نصیب والوں کو ہی مل سکتی ہیں، اسم اعظم، نسخہ کیمیا اور اچھی بہو (اشارہ میری طرف تھا)۔ اگر وہ شوگر اور بلڈ کی زیادتی کے باعث چل نہ بسی ہوتیں تو اس فہرست میں سامراج کو بھی شامل کر لیتیں۔ کبھی تو میرا دل چاہتا ہے کہ مل جائے تو جوتی اتاروں اور مار مار کے کھوپڑی پلپلی کر دوں اس موئے کمبخت سامراج کی، چولہے میں جھونک دوں اس کو۔ کبھی یہ خیال ستاتا ہے کہ اگر سامراج مر گیا تو خالد کے ابا کسے کوسا کریں گے۔ اتنی فکر تو مجھے کسی سوتن کی نہیں رہتی جتنی سامراج کی ہے۔ چوبیس گھنٹے یہی فکر خالد کے ابا کو کھائی جاتی ہے، ہائے سامراج، وائے سامراج۔ ان کے سکوٹر میں تیل کم ہو جائے تو سامراج کو گالم گلوچ پہلے ہوتی ہے اور پٹرول پمپ بعد میں جاتے ہیں۔
شادی کے فوراً بعد جب پہلی دفعہ میں نے اس غیر مرئی مخلوق کا نام سنا تو بہت ڈر گئی تھی، ہر وقت دھڑکا لگا رہتا کہ خالد کے ابا کو کچھ ہو گیا تو میں کیا کروں گی۔ یہی خوف مجھے داتا دربار لے گیا اور میں نے خالد کے ابا کی زندگی کے لئے منت مانی۔ کچھ عرصے بعد نئے محلے میں جان پہچان بنی تو معلوم ہوا کہ پیلی کوٹھی والی عقیلہ کا چچیرا بھائی پولیس میں ہے۔ عقیلہ کو دعوت کے بہانے گھر بلایا اور اس کے آگے گڑگڑا کے استدعا کی کہ اپنے چچیرے بھائی کے ذریعے تھانے میں اس سامراج نامی نحوست کے خلاف پرچہ کٹوا دے۔ اس بھلی مانس نے وعدہ کر لیا لیکن اس کے بعد انہوں نے گھر تبدیل کر لیا تو یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔ خالد کے ابا سے گلہ کرتی تو وہ سرمایہ داری نظام، استحصال، قدر زائد، مادے کے جدلیات اور اس نوع کی اشیاء پر لیکچر بازی شروع کر دیتے۔ خالد سے سوال کروں تو وہ مجھے بورژوا کہنے لگتا ہے۔ محلے میں میری سب سے اچھی دوست بانو ایک دن تنک کر کہنے لگی: رضیہ، سچ پوچھو تو یہ سامراج وامراج کوئی شے نہیں، صرف واہمہ ہے۔ ’ تمہارے منہ میں گھی شکر بانو، لیکن خالد کے ابا اور ان کے چاروں دوست بیک وقت غلط تو نہیں ہو سکتے‘، میں نے اسے ٹوکا تھا۔ اس بات کو اب کئی سال بیت چکے، اب تو سامراج نہ چاہتے ہوئے بھی میری زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ ہر شام سامراج کے کرتوت پر ماتم کے لئے ہمارے ہی گول کمرے میں نشست جمتی ہے اور چائے بناتے بناتے میری کمر دہری ہو جاتی ہے۔ سب لوگ چائے پیتے ہیں سوائے اس طوطے جیسی ناک والے کامریڈ امجد کے جو کافی کے علاوہ کسی مشروب کو ہاتھ نہیں لگاتا۔
میرا چھوٹا بھائی جاوید دبئی میں رہتا ہے، اس سے کئی دفعہ کہا کہ اپنے تعلقات استعمال کر کے اس عفریت کی سن گن حاصل کرے۔ محلے کی مسجد کے امام سے پوچھا، اماں کے ہاں گئی تو کرامات والے پیر صاحب سے پوچھا، عامل باوا بنگالی تک کے ڈیرے پر حاضری دی لیکن ان میں سے کوئی بھی میری مدد نہیں کر سکا۔ میرا بھانجا امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ وہ ضرور اس تلاش میں میری مدد کرے گا۔ اس نے اپنے اساتذہ سے پوچھا، کمپیوٹر وغیرہ پر دیکھا، کتابیں چھان ماریں لیکن اس کے آخری خط کے مطابق اسے کہیں بھی سامراج کا کھرا نہیں ملا۔ بڑوں سے سنا تھا کہ خدا کے ہاں دیر تو ہے، اندھیر نہیں۔ میں تھک چکی ہوں لیکن مایوس نہیں ہوئی۔ مجھے بھرپور امید ہے آپ کے جریدے کی وساطت سے میں سامراج کو تلاش کرنے میں کامیاب رہوں گی۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ آخر یہ سامراج کون ہے، کہاں رہتا /رہتی ہے، دکھنے میں کیسا /کیسی ہے، کیا اچھے کپڑے پہنتا ہے یا کامریڈ امجد کی طرح ہر وقت سفاری سوٹ پہن کر گھومتا ہے، زمینیں وغیرہ ہیں یا کاروبار کرتا ہے، بچے وغیرہ بھی ہیں یا بے اولاد ہے۔ اگر آپ کا کوئی قاری اس جدوجہد میں میری مدد کر سکتا ہے تو میرا پتہ ادارے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ساڑھے پانچ ہزار الفاظ کے جواب مضمون لکھنے کے متمنی باز رہیں۔
آپ کی مدد کی طلب گار
رضیہ سلطانہ
نوٹ: اس سلسلہ مضامین کے بقیہ حصے، ’سامراج کی واپسی‘، ’سامراج کا قبول اسلام‘ اور ’سامراج کی فتوحات‘ پڑھنے کے لئے سالانہ چندہ ’ہم سب‘ کے لئے بھیجیں۔
- سکھوں کی ٹرین ٹو پاکستان چھوٹ گئی: چند حقائق - 01/03/2021
- کرنل نادر علی، کچھ یادیں - 04/01/2021
- کارل مارکس کون تھا؟ - 05/05/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).