کرکٹ کرپشن: ’نئی نسل کو یہ بتانا ضروری ہے کہ کھلاڑی پیسے سے نہیں بلکہ اچھی پرفارمنس سے عظیم بنتا ہے‘


مظہر مجید
’میں آپ کا پرستار ہوں۔ آپ بہت اچھے کھلاڑی ہیں کیا آپ میرے ساتھ ڈنر پر چل سکتے ہیں؟ میرے پاس بہت اچھا سپانسر موجود ہے۔‘

اس طرح کی گفتگو کرکٹرز کو عام طور پر کسی اجنبی کی جانب سے سننے کو ملتی ہے اور جب اجنبی کھلاڑیوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر بات بڑھ کر کچھ دوسرا انداز بھی اختیار کر لیتی ہے۔

ٹیم میں موڈ کیسا ہے؟ کل کونسی ٹیم کھیلے گی؟ بیٹنگ آرڈر کیا ہو گا؟ بولنگ میں پہلی تبدیلی کس بولر کی ہو گی؟

ظاہر ہے اس طرح کے سوالات کرنے والے کا ایک خاص مقصد ہوتا ہے اور یہیں سے گڑبڑ کی ابتدا ہوتی ہے کہ کھلاڑی چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے اس طرح کے شخص یا مافیا کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

پانچ فروری 2011 کو آئی سی سی کے اینٹی کرپشن ٹرائبونل نے جن تین پاکستانی کرکٹرز سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر پر کرکٹ کرپشن میں ملوث ہونے کی پاداش میں پابندیاں عائد کی تھیں اس کا پس منظر بھی یہی تھا کہ انھوں نے ایک ایسے شخص کی ہدایات پر عمل کیا جو بظاہر ان کا ایجنٹ تھا لیکن اس نے ایک خاص رقم کے عوض ان کرکٹرز سے وہ کام لیا جو کرکٹ قوانین اور اقدار، ہر لحاظ سے غیر قانونی تھا۔

ان تینوں پاکستانی کرکٹرز کو نہ صرف آئی سی سی کی طرف سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ لندن کی عدالت کے فیصلے کی رو سے انھیں جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

سپاٹ فکسنگ: ’ملوث کرکٹرز پر تاحیات پابندی لگائیں‘

پاکستانی کرکٹ کے ’کرپٹ‘ کھلاڑی

سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے 10 سال: دنیا کو دھوکہ دینے والی تین ’نو بالز‘

کاش عامر مظہر مجید سے نہ ملے ہوتے

پاکستانی کرکٹر

ان تینوں پاکستانی کرکٹرز سے پہلے اور بعد میں بھی کئی کرکٹرز پیسوں کی خاطر میچ فکسنگ، سپاٹ فکسنگ اور معلومات دوسروں تک پہنچانے کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔

ایسے واقعات میں ملوث کرکٹرز کو دی جانے والی سزاؤں کے باوجود یہ سلسلہ رک نہیں پایا ہے حالانکہ ان کھلاڑیوں کو مشکوک افراد سے بچنے کی تنبیہہ اور ہدایات واضح طور پر دی جاتی ہیں پھر یہ کرکٹرز ان واقعات سے سبق کیوں نہیں سیکھتے؟

جیل میں بھی ندامت نہیں تھی

دلاور چوہدری لندن کے ایک ریسٹورنٹ کے مالک ہیں اور پاکستانی کرکٹرز کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ پاکستانی کرکٹرز کا ان کے ریسٹورنٹ میں آنا معمول کی بات ہے۔ وہ 2010 کے سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں ملوث کرداروں کو بہت قریب سے دیکھ چکے ہیں۔

دلاور چوہدری اس سکینڈل میں کرکٹرز کے طرز عمل کے بارے میں دو اہم واقعات بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’میں سماجی خدمات کے سلسلے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھانا، پھل اور مٹھائیاں تقسیم کرنے لندن کی جیل میں گیا تو جیل کے امام صاحب نے مجھ سے کہا آپ یہاں آئے ہیں تو کیا اپنے دوستوں سے ملنا پسند کریں گے؟‘

انھوں نے کہا کہ میرے پوچھنے پر بتایا کہ پاکستانی کرکٹرز محمد آصف اور سلمان بٹ اس جیل میں عارضی طور پر لائے گئے ہیں بعد میں انھیں دوسری جیل میں منتقل کر دیا جائے گا۔

محمد آصف

وہ بتاتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں ملنا چاہوں گا لیکن پتہ چلا کہ سلمان بٹ نے ملنے سے انکار کر دیا البتہ محمد آصف مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔

’وہ قیدیوں کے مخصوص لباس میں تھے لیکن میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ان کے چہرے پر کوئی ندامت نہیں تھی بلکہ وہ بہت خوش نظر آرہے تھے اور انھوں نے مجھ سے بڑے دعوے کے ساتھ کہا کہ انھیں بے گناہ پکڑا گیا ہے۔‘

دلاور چوہدری کہتے ہیں کہ اسی دورے میں پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے پاکستانی ٹیم کی دعوت کی تھی جہاں انھیں بھی مدعو کیا گیا۔

دلاور چوہدری نے بتایا کہ اس موقع پر کپتان شاہد آفریدی نے ان سے کہا کہ میں نوجوان محمد عامر کو سمجھاؤں جیسا کہ بڑے چھوٹوں کو سمجھاتے ہیں ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔

یہ کہہ کر انھوں نے عامر کو بلایا اور میرا تعارف کرایا لیکن میں نے دیکھا کہ عامر نے سنجیدگی اختیار کرنے کے بجائے طنزیہ لہجے میں انکل جی انکل جی کہنا شروع کر دیا۔

’میں نے محسوس کیا کہ ابھی اس کا کریئر شروع ہوا ہے اور اس نے اس طرح کا انداز اختیار کر رکھا ہے۔ میں نے بعد میں شاہد آفریدی کو کہا کہ یہ لڑکا بہت آگے نکل گیا ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ لڑکا ابھی سے ہوا میں اڑ رہا ہے۔ اسے زمین پر آنے کے لیے ایک حادثہ چاہیے۔‘

مافیا کا ٹارگٹ انڈر 19 کرکٹرز

کرکٹ

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق وکٹ کیپر راشد لطیف کہتے ہیں کہ ʹکسی بھی کام کی ایک خاص عادت ہوتی ہے اسی طرح کرپشن یا فکسنگ بھی انسانی فطرت کو ظاہر کرتی ہے۔ 90 کی دہائی میں کرکٹ کرپشن دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ بار بار ہوئی ہے اور ایک ہی شخص نے اسے دوہرایا کیونکہ اس وقت پکڑ نہیں تھی لیکن جسٹس قیوم رپورٹ کے بعد اگر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ چہرہ ایک نہیں رہا بلکہ نئے چہرے آتے رہے۔ جو بھی واقعات ہوئے ہیں وہ ٹریپ کا نتیجہ ہیں۔ʹ

راشد لطیف کہتے ہیں کہ ʹاس میں اینٹی کرپشن یونٹ والوں کا بھی قصور ہے کہ انھوں نے کھلاڑیوں کو صرف یہ بتایا کہ فلاں فلاں شخص سے نہیں ملنا لیکن یہ نہیں بتایا کہ کس طرح کے لوگ آ کر آپ کو ٹریپ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ پس پردہ کوئی سٹنگ آپریشن بھی ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں میرے ذہن میں یہ شک وشبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ کہیں یہ سٹنگ آپریشن اینٹی کرپشن یونٹ خود تو نہیں کروا رہا ہے؟

کیونکہ انٹی کرپشن یونٹ والوں کے کروڑوں کے اخراجات ہیں اگر کوئی پکڑا ہی نہیں جائے گا تو ان سے پوچھا جائے گا کہ انھیں اتنی بھاری تنخواہیں کیوں دی جا رہی ہیں انھیں رکھنے کا کیا فائدہ ہے؟ʹ

راشد لطیف کا کہنا ہے کہ ’کھلاڑیوں کی اپنی غلطیاں بھی ہیں لیکن انھیں صحیح طریقے سے آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔ اگر انھیں صحیح طریقے سے بتایا جائے تو اس طرح کے واقعات میں کمی آسکتی ہے۔ʹ

راشد لطیف کا کہنا ہے ʹمیں کسی ایک کرکٹ بورڈ کی بات نہیں کر رہا ہوں بلکہ عام بات کر رہا ہوں۔ پہلے اخبارات میں سکینڈل آتے تھے، میڈیا میں یہ باتیں آتی تھیں۔ اب سٹنگ آپریشن کے ذریعے کھلاڑی پکڑے جاتے ہیں۔ سنہ 2010 کے بعد سے کوئی بھی کرکٹر ڈائریکٹ نہیں پکڑا گیا بلکہ کرکٹ بورڈ کی پریس ریلیز کے ذریعے ان کے بارے میں پتہ چلا۔‘

راشد لطیف

راشد لطیف کے مطابق ’بکیز مارکیٹ میں نو بال اور وائیڈ بال پر سٹہ نہیں لگتا۔ دنیا کی کسی بھی ویب سائٹ کو اٹھا کر دیکھ لیں کہیں بھی نوبال یا وائیڈ بال پر آن لائن بیٹ نہیں ہوتی تو میں اپنے کرکٹر کو یہ بات بتانا چاہوں گا کہ یہ ٹریپ ہے۔‘

راشد لطیف کا کہنا ہے کہ ʹسٹنگ آپریشن ہر کرکٹر کے ساتھ نہیں ہوتا۔ ایسے کرکٹرز بکی مافیا کی نظروں میں اس وقت سے ہوتے ہیں جب وہ انڈر 19 کھیل رہے ہوتے ہیں۔ ٹیم کے بیس میں سے دو تین کرکٹرز کو وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ ان کے لیے آسان ہدف ہیں۔ کئی کرکٹرز تو ایسے بھی ہیں جو پکڑے ہی نہیں گئے اور لیجنڈ بن گئے۔ یہ میں پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر کی بات کررہا ہوں۔‘

راشد لطیف کہتے ہیں کہ ʹ فرنچائز کرکٹ میں کرپشن کے مواقع آسان ہیں اسے بزنس کا نام دے دیا گیا ہے۔ میں خود فرنچائز کرکٹ میں شامل تھا لیکن میں نے اسے چھوڑ دیا۔ میں بہت ساری باتیں جانتا ہوں۔ کسی بھی کھیل میں جہاں ڈبل لیگ ہو گی وہاں شک و شبہات ضرور پیدا ہوں گے۔‘

راشد لطیف کا کہنا ہے کہ ’ابھی کھلاڑی پکڑے جا رہے ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں جو پیسہ دے رہا ہے اسے پکڑا جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسے پکڑ نہیں سکتے کیونکہ وہ لوگ طاقتور ہیں ان کے ہاتھ لمبے ہیں۔‘

اس ناسور پر سو فیصد قابو پانا ممکن نہیں ہے

کیا یہ پیسے کی کشش ہے یا ان کرکٹرز کے ذہنوں سے خوف ختم ہو چکا ہے کہ چند ماہ و سال کی سزا کے بعد وہ دوبارہ کرکٹ میں واپس آ جائیں گے؟

سابق ٹیسٹ کرکٹر رمیز راجہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ʹبدعنوانی معاشرے کی عکاسی کرتی ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ ایسے معاملات میں معاشرے کا طرز عمل کیا ہوتا ہے۔ʹ

رمیز راجا

رمیز راجہ کا کہنا ہے ʹکرکٹ میں کرپشن کافی عرصے سے عام ہے اور شہ سرخیوں میں آتی رہی ہے۔ یہ انفرادی طور پر بھی منحصر ہے کہ وہ شخص فطرتاً کیسا ہے۔ اسے پیسے کی کتنی چاہ ہے کہ وہ ہر قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ʹ

رمیز راجہ کہتے ہیں ʹاگر نئی نسل میں آپ کو ایسی روش نظر آتی ہے تو یہ خطرناک بات ہے کیونکہ آج کل کرکٹ میں پیسہ بہت ہے اور یہ سوچ اس وقت خطرناک ہو جاتی ہے جب کوئی کرکٹر یہ سوچ لے کہ وہ سٹار بن گیا ہے اور وہ کوئی بھی حد پار کرسکتا ہے۔ اس وقت اسے کنٹرول کرنا ضروری ہے اور اگر اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تو پھر اسے مدد لینے کی ضرورت ہے۔ʹ

رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ ʹاس بات پر بھی منحصر ہے کہ آپ کی پرورش کس ماحول میں ہوئی ہے۔ آپ کے لیے پیسہ کتنا اہم ہے۔ آپ کے یار دوست کیسے ہیں۔ وہ آپ کو سمجھانے والے ہیں یا شہہ دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں مادہ پرستی بھی بہت ہے۔ عمارت کے ذریعے، بڑی گاڑی کے ذریعے، پیسے کے ذریعے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اپنی کمزوریاں چھپا سکتے ہیں اور یہ ہمارے معاشرے کا رجحان بھی ہو گیا ہے۔ چونکہ کرکٹرز بھی معاشرے کا حصہ ہیں انھیں بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔‘

رمیز راجہ کہتے ہیں ʹیہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پیسہ اہم ہوتا ہے لیکن پیسہ بنانے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ اگر صحیح طریقہ کار اختیار کیا جائے تو آپ کو ٹھیس نہیں پہنچے گی۔ چوٹ نہیں لگے گی۔ آپ گریں گے نہیں لیکن اگر ہر قیمت پر پیسہ بنانا ہے تو پھر آپ نہ صرف اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں بلکہ اس خوبصورت کھیل کے ساتھ بھی۔ʹ

رمیز راجہ کے خیال میں حکام کے لیے اس ناسور پر سو فیصد قابو پانا ممکن نہیں ہے۔

ʹاگر کسی نے ٹھان لی ہے کہ اس نے کرپشن کرنی ہے تو پھر کوئی بھی اسے بچا نہیں سکتا۔ نئی نسل کو بار بار یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ کھلاڑی پیسے سے نہیں بلکہ اچھی پرفارمنس سے عظیم بنتا ہے۔ʹ

کرپشن کی روک تھام کے لیے قانون سازی ضروری

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سکیورٹی اینڈ اینٹی کرپشن یونٹ کے ڈائریکٹر لیفٹننٹ کرنل (ریٹائرڈ) آصف محمود بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کرکٹ میں کرپشن کی روک تھام کے لیے قانون قومی اسمبلی میں منظور ہو چکا ہے اور اب اسے سینٹ میں پیش کیا جانا ہے جب یہ قانون نافذ ہو جائے گا تو اس سے کرکٹ میں بدعنوانی ختم کرنے میں بہت مدد ملے گی کیونکہ بدعنوانی کے مرتکب افراد کو پتہ ہو گا کہ وہ جیل بھی جا سکتے ہیں اور ان کی جائیدادیں بھی ضبط ہو جائیں گی۔‘

لیفٹننٹ کرنل (ریٹائرڈ ) آصف محمود کا کہنا ہے کہ ’کرکٹرز کو سوشل میڈیا، موبائل اور لیپ ٹاپ کے بارے میں بھی آگاہ کیا جاتا ہے اور انھیں بتایا جاتا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی نگرانی نہیں کی جا رہی ہے۔‘

آصف محمود کہتے ہیں ’یا تو کوئی نیا کھلاڑی کرکٹ کرپشن میں ملوث ہوتا ہے جسے ان باتوں کا پتہ نہیں ہوتا یا پھر وہ کرکٹر جس کا کریئر ختم ہو رہا ہوتا ہے۔ جس کرکٹر کو اپنے کریئر کا خیال ہوتا ہے وہ کسی بھی مشکوک رابطے کی فورا اطلاع کر دیتا ہے۔‘

آصف محمود کا کہنا ہے کہ ’ہم کھلاڑیوں کو لیکچرز کے ذریعے آگاہ کرتے ہیں کہ انھیں کن کن طریقوں سے ٹریپ کیا جا سکتا ہے۔ انھیں ہنی ٹریپ سٹنگ آپریشن اور ان تمام ان باتوں سے آگاہ کیا جاتا ہے جو مشکوک افراد اور بکیز استعمال کرتے ہیں۔‘

آصف محمود کا کہنا ہے ’لوگ اکثر یہ بات کرتے ہیں کہ اگر کسی کھلاڑی کے بارے میں شک ہے تو اسے پہلے کیوں پکڑا نہیں جاتا جب وہ جرم کر لیتے ہیں تب کیوں گرفت میں لیے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس مانیٹرنگ کے لیے کیا وسائل دستیاب ہیں؟ کیا آپ کا قانون کسی کا فون مانیٹر کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ اس کے لیے آپ کو جج کی اجازت درکار ہو گی۔ جب یہ قانون نافذ ہو جائے گا تو اس سلسلے میں ایف آئی اے سے بھی مدد لی جائے گی۔ میری کوشش ہے کہ سینٹرل کنٹریکٹ کے حامل کرکٹرز کے اثاثوں کے بارے میں بھی تفصیلات ہمیں معلوم ہونی چاہیے تاکہ ان کے ذرائع آمدن کے بارے میں مکمل پتہ ہو۔‘

کرکٹ

آصف محمود کہتے ہیں کہ ʹکھلاڑیوں اور اینٹی کرپشن یونٹ کے درمیان اعتماد کی فضا قائم ہے اور کھلاڑی مشکوک ذرائع سے ہونے والے رابطوں سے یونٹ کو مطلع کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتے۔ پہلے وہ اس لیے گھبراتے تھے کہ ان کی دی گئی معلومات لیک ہو جایا کرتی تھیں لیکن اب وہ کسی ڈر خوف کے بغیر ہم پر اعتماد کرتے ہیں۔ کھلاڑیوں کو بھی یہ احساس دلایا گیا ہے کہ ہم لوگ آپ کی مدد کے لیے موجود ہیں آپ کو پکڑنے اور ڈرانے کے لیے نہیں ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’کھلاڑی جب کسی مشکوک رابطے کے بارے میں ہمیں بر وقت مطلع کر دیتا ہے تو پھر اس کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے اور ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ وہ اپنے کھیل پر توجہ دے اور اس کے بعد کے معاملات ہم سنبھال لیتے ہیں۔ کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ملنے والی اطلاع پر فوری ایکشن نہیں لیا جاتا بلکہ معاملے کو پختہ ہونے دیا جاتا ہے تاکہ اس کی تہہ تک پہنچا جاسکے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32542 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp