زبردستی کی مختلف شکلیں


ہمارے ہاں پچھلے کچھ عرصے سے زبردستی کا لفظ اس قدر زبان زد عام ہے کہ اب اجنبیت نہیں رہی۔ جہاں کہیں بھی اس کا ذکر ہو تو یہ مانوس مانوس سا لگتا ہے، چاہے وہ ذرائع ابلاغ ہوں یا روزمرہ کی گفتگو۔ ایسا محسوس ہوتا جیسے ہمارا اور اس لفظ کا جنم جنم کا ساتھ ہے۔

لیکن رکیے! آپ زبردستی کو صرف ایک لفظ مت گردانیے ، یہ ایک رویہ ہے جو صدیوں سے ہمارے ہاں پنپ رہا ہے اور اب تو خیرایک قد آور درخت بن گیا ہے جس کی جڑیں زمین میں مضبوط ہو گئی ہیں اور شاخیں کسی عفریت کی مانند پھن پھیلائے کھڑی ہیں۔

کبھی عورتوں سے زبردستی ، کبھی خواجہ سراؤں سے اور اگر یہ سب نہ ہو سکے تو معصوم بچے ہی سہی۔ اب ان سے پوچھے کون؟ عورتیں! یہی تو ہیں جو دعوت نظارہ دیتی ہیں اورخواجہ سرا سارے زمانے کے دھتکارے ہوئے لوگ اور بچے دو چار مر بھی گئے تو کیا فرق پڑے گا۔ پہلے ہی یتیم خانے بھرے پڑے ہیں۔

ارے یہ کیا! آپ ہماری چند حقیقت پہ مبنی باتوں کو نازیبا کہہ کر ہی چل دیے۔ ہمارا قومی مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہمیں الفاظ کی گراوٹ کا خیال تو رہتا ہے لیکن رویوں کی گراوٹ کی ہم پردہ پوشی کر جاتے ہیں۔

کہیں زبردستی کی شادیاں ہیں تو کہیں مذہب کی جبری تبدیلیاں۔ کہیں سرکاری وغیر سرکاری املاک پر زبردستی قبضے ہیں تو کہیں زبردستی مسلط کیے گئے نا اہل حکمران۔

قانون! وہ بیچارا کرے بھی تو کیا کرے،  کیوں کہ اسے نافذ کرنے والے ہی تو اس رویے کو فروغ دے رہے ہیں۔

آپ زبردستی کی کس بھی قسم پہ غور کر لیں۔ اس کی ہر صورت طاقت اور اکثریت کا مجموعہ ہے اور ہمارے ہاں کا قانون صرف طاقتور کے لئے ہے۔

تو اب آپ ہی بتائیے اپنے بچے کی لاش پہ بین ڈالتی ماں کے درد کا درماں کون کرے گا؟ اپنی شادی کی پہلی رات مر جانے والی گیارہ سالہ بچی کو انصاف کیسے ملے گا؟ رات گئے سڑک کنارے روتے ہوئے خواجہ سرا کے لیے مسیحا کہاں سے آئے گا؟ اپنی کل جمع پونجی سے خریدے گئے پلاٹ سے قبضہ چھڑوانے کے لیے عدالتوں کے شب و روز چکر لگاتے بوڑھے کے سوالات کے جواب کون دے گا؟

آئیے اور ان موضوعات پر آواز اٹھائیے جن سے متعلق سوال ہمارے معاشرے میں ممنوع قرار دے دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).