قاری صاحب اور ماسٹر صاحب مجھ سے کیوں خفا ہوئے؟


”ہر بڑا چھوٹے سے خراج لیتا ہے“ ۔ ”اوپر والا نیچے والے سے خراج لیتا ہے“ ۔ یہ میرا ماننا ہے۔ ایسے ہی کچھ لوگ اپنے عہدے کا خراج لیتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے۔ جیسے ہمارے بھائی صاحب کے ایک استاد ہیں۔ غالباً بھائی صاحب جب پہلی جماعتوں میں تھے تب وہ ماسٹر صاحب اس اسکول کے پرنسپل ہوا کرتے تھے۔ ان کی عادت ہے کہ جب بھی آئیں گے بھرپور اعتماد کے ساتھ بھائی کا پوچھیں گے پھر یاد دلائیں گے کہ ”میں تمہارے بھائی کا استاد ہوں“ ۔ پھر ذاتی نوعیت کا کوئی کام بتا دیں گے۔

جیسے بیٹا! اس کتاب کے اسٹیپلز کھولنے ہیں تاکہ میں ٹھیک سے جلد کرا دوں۔ یا کوئی کتاب لے گئے تھے اور کچھ دن کے بعد خیال گزرا دوسرے ادارے کی بہتر ہو سکتی ہے تو یہ کہہ کر واپس کرا دیں گے کہ ”میں تمہارے بھائی کا استاد ہوں“ ۔ نیز ابا حضور سمیت ان کے نام ضرور گنوائیں گے جنہیں کسی طور وہ جانتے ہیں اور قیمت میں من مانی رعایت خود ہی کر لیں گے۔

یونہی ایک اور ادھیڑ عمر شخص آتے ہیں، سر پر رومال لپیٹتا ہے۔ داڑھی پر خضاب، کالا چشمہ پہنے۔ آتے ہی ہندکو لہجے میں کہیں گے ”ہور اوئے سلطان کے پوتے“ ۔ میں دادا کا نام سنتے ہی مؤدب کھڑا ہو جاتا ہوں۔ حضور حضور۔ اب وہ قاری صاحب کہیں گے ”میں تیرے دادے کا استاد ہوں“ ۔ میں حیرت کا بت بن کر دیکھتا ہوں۔ جی حضرت! آئیے کچھ قہوہ، چائے، پانی۔ ساتھ ہی زیر لب بڑبڑاتا ہوں۔ عجب رنگ ہیں مولا تیرے۔ میرے سفید ریش دادا دس بارہ سال پہلے گزر گئے۔ وہ تب بھی عصا کے سہارے چلتے تھے اور ان کے استاد ماشاء اللہ اب بھی بغیر عصا کے چلتے ہیں بلکہ یہ اب ہم پر سوار ہیں۔ کچھ عنایت کیجیے انہیں بھی یاد کر لیجیے۔

خیر قدرت کے رنگ مان کر ان سے آنے کی وجہ پوچھتا ہوں۔ بولیں گے قہوہ چائے تو نہیں پیتا بس یہ بچوں کو اسٹیشنری کا کچھ سامان مطلوب ہے ، دے دو۔ پھر میرے دادا کی تعریف میں کچھ اقوال ارشاد فرماتے ہیں۔ قیمت سے خاصی کم رقم مجھے تھما کر، یہ باور کراتے سیڑھیاں اتر جائیں گے کہ ”سلطان کا استاد ہوں“ وہ کیا ہی اچھا اور نیک انسان تھا۔ میں بس دیکھتے رہ جاتا ہوں۔ ایک روز یونہی آئے ، معمول کے مطابق بات چیت ہوئی، سامان لیا، مرضی کی رقم کاؤنٹر پر رکھی اور جاتے سمے بتا گئے میں نے سلطان کی مسجد میں کچھ عرصہ امامت کی ہے۔ تب خبر ہوئی کہ ارے یہ تو اعزازی استاد ہیں۔ میں نے تب ہی ایصال ثواب کی نیت کر لی تھی۔

کبھی کبھی انسان کو بدھو بننا اچھا لگتا ہے کہ سامنے والا سمجھے بس میں ”میں“ ہوں باقی تو گویا گھاس چرتے ہیں۔ وہ چالاکی پر خوش ہو چلیں، لیکن کب تک؟ ماسٹر صاحب اور قاری صاحب کا ہر بار صرف اس لبادے کی وجہ سے لحاظ رکھا، احترام کیا۔ ورنہ میں سخت ردعمل سے گریز نہیں کرتا۔

اب کی بار جب ماسٹر صاحب آئے تو میں نے خوب خیال رکھا۔ جب جب وہ رشتے داروں کے نام گنواتے میں رعایت کی ہوئی رقم میں پانچ دس روپے مزید جمع کر لیتا تھا۔ حیرت سے بولے یہ اتنی رقم؟ ”رشتے داروں کو چاہیے کہ قیمت ڈبل نہیں تو پوری دے دیا کریں“۔ آپ کو پتا ہے آج کل کاروبار میں مندی ہے۔ اب ماسٹر صاحب دینے کے نہ چھوڑنے کے۔ سو رقم وصول کی تو ساتھ ہی بتا دیا آپ کے بقایاجات بھی ختم ہو گئے ہیں۔ اب ہمارے معاملات کلیئر ہیں۔ کون سے بقایاجات؟ وہی جو رقم سے آپ مارتے تھے، نیز اوپر کے چند روپے بھی نہیں دیتے تھے۔ ”وہ سب بھی تم لکھتے رہے؟“ جی سر، معاملات لکھ لینے چاہئیں۔ اسلام کا یہی حکم ہے۔ کل کو حساب دینا پڑے گا۔ ماسٹر صاحب ناک بھوں چڑھاتے سیڑھیاں اتر گئے۔ میں نے انہیں وہی سبق سکھایا جو ماسٹر صاحب اسکول میں بھائی لوگوں کو سکھاتے تھے۔

انہوں نے بعد میں بھائی صاحب سے شکایت بھی کی ، وہ ایک الگ قصہ ہے۔ خیر، اب ماسٹر صاحب ”خراج“ نہیں لیتے بلکہ پوری رقم دیتے ہیں حتیٰ کہ چند سکے بھی۔ یوں ہی قاری صاحب آئے اور کہا ”ہور اوئے سلطان کے پوتے“ ۔ عنایات ہیں جی رب کی، ہوتی رہتی ہیں۔ آپ بتائیے۔ اچھا ایک کتاب دینا۔ کتاب دی اور اس کی پوری رقم جو لکھی ہوئی تھی بتا دی۔ مول تول میں پوچھا۔ سنا ہے قیامت والے دن ذرے ذرے کا حساب ہو گا؟ ہاں بالکل، وہاں تو کچھ معافی نہیں۔ بس خدا حفاظت کرے۔ معاملات میں بندے کو خیال رکھنا چاہیے۔

پھر ٹھنڈی سی آہ بھر کر بولے: ”سلطان بہت کھرا انسان تھا۔“ جی بالکل، میں انہی کا پوتا ہوں۔ آپ کے ذمے کچھ بقایاجات ہیں۔ جو آپ چھوڑ جاتے تھے۔ ہکا بکا دیکھتے رہے۔ ”معاملات کلیئر ہوں تو آخرت میں آسانی ہو گی“ ۔ میں نے یہ کہا تو ہوائیاں اڑتے چہرے کے ساتھ غوں غاں کی اور خاموشی سے پیسے ادا کر دیے۔ بتیس روپے اور بھی لیے اور ایصال ثواب کی نیت سے باہر کھڑے بھکاری کو دے دیے۔ قاری صاحب اب بھی حیران تھے۔ ”وہ رات خواب میں دادا کو دیکھا تھا، وہ آپ کے بارے پوچھ رہے تھے۔ بیٹھیے ، آپ ان کے استاد ہیں کچھ چائے پانی۔“ میں نے یہ کہا تو بولے۔ نہیں بس اور سیڑھیاں اتر گئے۔

یقیناً ایسے ایصال ثواب سے دادا کی روح کو تسکین ملی ہو گی۔ ”خدا ان دونوں کو اکٹھا کر دے“ ۔ اب قاری صاحب جب بھی آتے ہیں کڑوا گھو نٹ بھر کر گزر جاتے ہیں۔ میں تعظیماً کھڑا رہ جاتا ہوں۔ معاملات کلیئر رکھنے چاہئیں۔ پھر چاہے دوست ہوں، رشتے دار ہوں یا ہوں آپ کے استاد، اپنے پیسے چھوڑیں نہ ان کے ماریں۔ اوپر کے پیسے ریزگاری میں ہیں تو پہلے وہ دیں بڑی رقم بعد میں دیں اور بقایا وصول کرتے وقت بھی یہی قاعدہ یاد رکھیں ورنہ یہ ریزگاری گلے کی ہڈی بن سکتی ہے۔ اور اگر اتفاق سے آپ ماسٹر صاحب ہیں تو شاگردوں کے لیے دعا کرتے ہوئے ان سے تعاون کریں نہیں تو کم از کم ”خراج“ مت لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).