بس، بہت ہو گیا!


چھے گھنٹوں تک بھرپور غوروفکر کے بعد دس جماعتی اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومٹ نے آخرکار اپنے ایجنڈے پر موجود دو اہم امور پر اتفاق کرلیا۔ پہلا یہ کہ پی ڈی ایم میں شریک جماعتیں اگلے مارچ میں ہونے والے سینٹ انتخابات کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنائیں گی تاکہ اپنی مجموعی طاقت بڑھاسکیں۔ دوسرے، وہ چھبیس مارچ کو ملک کے چاروں کونوں سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرتے ہوئے حکومت کا گھیراؤ کریں گے۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ عمران خان کو عہدے سے ہٹانے کے لیے سردست تحریک انصاف حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرار داد پیش نہ کی جائے، جیسا کہ پیپلزپارٹی کے قائد، آصف زرداری نے تجویز پیش کی تھی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد، نواز شریف نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں پر زور دیا تھا۔ قیاس ہے کہ اس پر لانگ مارچ کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ امید ہے کہ اس سے اتحاد کے اہم شرکا کے درمیان ان مسائل پر عدم اتفاق کی دھند چھٹ جائے گی۔

تحریک انصاف حکومت اپنی مایوسی چھپانے کی کوشش کرے گی کیوں کہ ایک اہم مسئلے پر داخلی اختلافات کے باوجود پی ڈی ایم ابھی تک منہدم نہیں ہوئی۔ وزیر داخلہ شیخ رشید کو یہ منصب پی ڈی ایم کو ناکام بنانے کے لیے دیا گیا تھا۔ اسی لیے وہ تحریک عدم اعتماد لانے کے زرداری صاحب کے آپشن کو ”جمہوری راستہ“ قرار دے کر سراہ رہے تھے۔ دوسری طرف حزب اختلاف کے پاس پارلیمان سے استعفے دے کر اس بندوبست کو غیر فعال بنانے کا آپشن بھی موجود ہے۔ پی ڈی ایم کو تتر بتر کرنے کے لیے اب وزیر داخلہ کو کوئی اور حربہ اختیار کرنا پڑے گا۔ درحقیقت پی ڈی ایم نے بہت ہوشیاری سے اپنے امکانات کھلے رکھے ہیں۔ اس نے کوئی انتہائی موقف اختیار کرنے سے گریز کیا ہے۔ اس کی سوچ کا دھارا اس طرح ہے۔

اس وقت سوچ اور عمل میں ہم آہنگی لانا سب سے ضروری ہے، خاص طور پر اُس وقت جب حکومت اور میڈیا یہ تاثر اجاگر کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسے اور جلوس مل کر کوئی فیصلہ کن تحریک پیدا نہیں کرسکے۔ نواز شریف کا اسٹبلشمنٹ مخالف ”سخت“ موقف بھی کام نہ دے سکا۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ان اختلافات کو کسی اور مناسب وقت کے لیے موخر کر دیا گیا ہے۔ چھبیس مارچ کے بعد جب تمام فریق اپنی طاقت اور کمزوری جان چکے ہوں گے۔اُس وقت تک دونوں امکانات کا دروازہ کھلا رکھا جا سکتا ہے۔ اگر لانگ مارچ اس نیم جمہوری بندوبست کے لیے سیاسی بحران پیدا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس کے بعد تحریک عدم اعتماد پیش کی جا سکتی ہے۔ پھر استعفوں کا آپشن استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے استعفے ایک مختلف قسم کا جمود پیدا کریں گے۔ اس حوالے سے آصف زرداری کے پاس اگلے دو ماہ کے لیے وقت ہوگا کہ وہ اسٹبلشمنٹ کو قائل کر لیں کہ وہ عمران خان کی حمایت سے ہاتھ کھینچتے ہوئے ایک وسط مدتی بندوبست کی طرف بڑھیں اور خود کو سیاسی معاملات سے الگ کر لیں۔ اگر وہ اس میں ناکام رہتے ہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ نواز شریف کے سخت موقف کی حمایت نہ کی جائے۔

حکومت کی ممکنہ تبدیلی کا ایک اور فارمولہ بھی ہے، لیکن وہ مسائل سے بھرپور ہے۔ بہتر ہے کہ اسے فی الحال رہنے دیا جائے۔ بعد میں اس پر سوچ بچار کی جا سکتی ہے۔ عمران خان حکومت کے خاتمے کی صورت میں زرداری صاحب کولیشن حکومت قائم کرنے میں اہم کردار چاہتے ہیں۔ اُن کی حکمت عملی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ”اس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے“ جیسے باہمی تعاون پر مبنی ہے۔ بطور ایک جہاں دیدہ سیاست دان، وہ جانتے ہیں کہ اس کے بغیر تحریک انصاف کا دیگر جماعتوں کے ساتھ الائنس نہیں ٹوٹے گااور نہ ہی اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی۔ اس لیے وہ ایک ایسی حکومت بنانا چاہیں گے جو ایک طرف عام انتخابات تک قائم رہے، اور اس کے ذریعے اُن کے ذاتی اور پارٹی مفادات کا تحفظ ہوسکے، تو دوسری طرف اسٹبلشمنٹ کے اُن قائدین کو محفوظ راستہ دیا جائے جو نواز شریف کی تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ لیکن نواز شریف یہ نہیں چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت کے خاتمے کے فوری بعد عام انتخابات کا انعقاد کیا جائے جن میں، اُن کی توقع کے مطابق، پاکستان مسلم لیگ ن بھاری کامیابی حاصل کرکے اگلے پانچ سال کے لیے اقتدار میں آسکتی ہے۔ اُنہیں ایک دو برسوں کے لیے ایسی مخلوط حکومت کا قیام منظور نہیں جو ن لیگ کی کامیابی کے امکانات کو دھندلا دے۔ ان مسائل کو اس وقت حل کرنے کی کوشش چھت ڈالنے کے بعد بنیادیں اُٹھانے کے مترادف ہے۔ جو ظاہر ہے کہ ناممکنا ت میں سے ہے۔

پی ڈی ایم باہمی اتحاد قائم رکھنے اور اپنا عزم ظاہر کرنے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن یہی بات تحریک انصاف کے لیے نہیں کہی جا سکتی۔ درحقیقت اس وقت حکمران جماعت زبردست طوفان میں گھر چکی ہے۔ عمران خان کو امید تھی معیشت کی بحالی اُنہیں مشکلات کے بھنور سے نکل کر آرام سے حکومت کرنے کے قابل بنا دے گی۔ لیکن اس کے امکانات دور دور تک ہویدا نہیں۔ اس کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور شراکت دار عمران خان کی وعدے پورے کرنے کی صلاحیت کے بارے میں پریشان ہیں۔ نیز اُنہیں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اپنی ”شراکت داری“ بھی خطرے میں پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومت کی بدعنوانی اور نالائقی کی نئی داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔ اس دوران اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے سخت سرزنش کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سوشل میڈیا کی جارحانہ مہم میں عوام کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کی جھلک ملتی ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ تحریک انصاف کی حکومت میں پاکستان کے غیر ملکی دوستوں کے ساتھ تعلقات میں خراب ہو چکے ہیں۔ دشمنوں کے ساتھ بھی تلخی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اپنے داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت پاکستان کے اندر پھیلی ہوئی افراتفری کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ سعودی قیادت میں او آئی سی خود کو پاکستان سے دورکر چکی ہے۔ تحریک انصاف کے سابق ن لیگ کی حکومت کے گیس کے معاہدوں پر بے سروپا الزامات عائد کرنے کی وجہ سے قطر بھی ناراض ہے۔ کابل میں ایسی کسی مستحکم حکومت کے قیام کے اشارے نہیں مل رہے جو مستقبل میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ چین بھی سی پیک میں سست روی سے پریشان ہے۔ گوادر کا کنٹرول اور اس کی حیثیت کا تعین ایک پریشان کن مسئلہ ہے۔ ان معاملات میں کسی میں بھی مزید خرابی کا مطلب ہوگا کہ تحریک انصاف حکومت کے دن گنے جا چکے۔

یہ بات بھی واضح ہے کہ نواز شریف اور ہم نوا آج پہلے سے کہیں زیادہ پر اعتماد ہیں۔ دوسری طرف عمران خان اور اُن کے ساتھی گزشتہ دوسال کی نسبت آج کہیں زیادہ گھبرائے ہوئے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ بھی یقینی طور پر اپنے سلیکٹڈ وزیر اعظم کی حمایت میں ”ایک صفحے“ پر ہونے کے دعووں سے پریشان ہے۔ درحقیقت ممکنہ تقرریوں اور تبادلوں پر ہونے والی سرگوشیاں بلند آہنگ ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ صورت ِحال مسائل میں گھرے وزیر اعظم کے لیے خاصی گھمبیر ہے۔

التوا میں ڈالے گئے ضمنی انتخابات اور سینٹ کے انتخابات حکومت اور حزب مخالف کے لیے زور بازو آزمانے کی پہلی جانچ ہوں گے۔ لانگ مارچ دونوں کی سکت اور ثابت قدمی کا امتحان لے گا۔ اس کے بعد لڑائی پارلیمنٹ سے باہر آجائے گی۔

اور پھر جو ڈر گیا، وہ مر گیا۔

(بشکریہ؛ دی فرائیڈے ٹائمز)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).