اقبال سے محبت کرنے والے مالی اور گفتار کے غازی


سننے میں آیا ہے کہ اقبال کے شاہین جو پچھلے کچھ عرصے سے فکری سکوت اور ذہنی جمود کا شکار تھے آج کل محو پرواز ہیں لیکن افسوس کہ ان کی پرواز آسماں کی بجائے سماجی رابطے کے ذرائع فیس بک اور ٹویٹر تک محدود ہے۔ ہم ان کی خودداری، وسعت نظر اور غیرت مندی سے آشنا تو نہیں لیکن یہ تنقیدنگاری میں اپنی مثال آپ ہیں کردار کا تو معلوم نہیں گفتار کے غازی ضرور ہیں اس لیے آئے روز لہو گرم رکھنے کے بہانے ایک دوسرے پر جھپٹتے پلٹتے رہتے ہیں

اور کچھ نہیں تو آپ گلشن اقبال پارک میں ایک سال پہلے نصب کیے گئے اقبال کے مجسمے پہ تنقید کی مثال ہی لے لیجیے کہیں سے آواز آ رہی ہے کہ اقبال کی آنکھیں صحیح نہیں بنیں کسی کو مونچھیں صحیح نہیں لگیں کچھ اس غم میں نڈھال ہیں کہ بازو چھاتی سے نکل رہا ہے کچھ لوگ بت شکن محمود غزنوی کی مثال لے آئے ہیں بس ہر طرف میرا اقبال، میرا اقبال کا شور بھرپا ہے چلیں مان بھی لیں کہ مالیوں نے اقبال کو خراج عقیدت پیش کرتے کرتے ان کی شان میں گستاخی کر ڈالی۔ لیکن اس گستاخی کا کیا کیا جائے جو عوام مجسمے کی تصاویر کے ساتھ اقبال کے غلط اشعار لکھ کے کر چکے۔

مجسمے پہ جائز تنقید اچھی لگتی اگر اسے کسی ماہر مجسمہ ساز نے بنایا ہوتا، حکومتی سرمایہ خرچ ہوتا اور مجسمہ بنانے کے لئے مناسب سہولیات فراہم کی جاتیں۔ ان سب باتوں سے ہٹ کے ایک اصطلاح ہے مقامی آرٹ۔ جس سے ہمارے عوام قطعاً ناواقف ہے۔ ہوتی بھی کیسے کیونکہ ہمارے عوامی تعلیمی اداروں سے آرٹ جیسے مضامین کا دور دور تک کوئی تعلق و واسطہ ہی نہیں۔ طالبعلم چھٹی جماعت تک بڑی مشکل سے چھ انگوروں پہ مشتمل انگور کا گچھا بنانا ہی سیکھ پاتے۔ اسی لیے تو ہمارے مقامی آرٹ ناپید ہو رہے ہیں اور مقامی آرٹسٹ بھوکے مر رہے ہیں۔

آج سے پہلے فیس بک اور ٹویٹر پر بیسیوں احتجاج ہوئے ہیں لیکن پنجاب حکومت کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی ذمہ داران کو نا اہل قرار دینا تو دور کی بات تھی پوچھ گچھ بھی نہیں کی گئی اور چند شہریوں کی ایک معصومانہ سی کاوش کے خلاف فوراً عملدرآمد کر لیا گیا ہے فکر تو اس بات کی ہے کہ کیا آج کے بعد کوئی بھی عام شہری کوئی عوامی آرٹ بنانے کی جرات کرے گا یا پھر آرٹ صرف ایک خاص طبقے اور آرٹ کالجز تک محدود رہے گا اور ہماری نگاہیں عوامی جگہوں پہ آرٹ تلاش کرتی ہی رہ جائیں گی۔ ہمارے شہروں کی دیواریں محبوب آپ کے قدموں میں، مردانہ کمزوری اور بواسیر کا شرطیہ علاج، کالے علم کا توڑ جیسے اشتہارات سے بھری رہیں گی اور چوراہے ناجائز تجاوزات کا گڑھ اور پارک ڈیٹنگ پوانٹس ہی بنے رہیں گے۔ اور اقبال کے شاہین فکر و عمل سے دور بس گفتار کے غازی ہی بنے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).