کسان تحریک پر فواد چوہدری کا بیان: انڈیا، پاکستان ایک دوسرے پر تنقید کا کوئی موقع جانے کیوں نہیں دیتے؟


انڈیا

انڈیا اور پاکستان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مقابلے کی فضا قائم رہتی ہے اور سوشل میڈیا صارفین کے درمیان آئے روز کسی نہ کسی بات پر بحث چلتی ہی رہتی ہے لیکن اب یہ لفظی جنگ صرف کھیل، کشمیر اور سرحدوں تک ہی محدود نہیں رہی۔

انڈیا میں جاری کسان تحریک پر جہاں دنیا بھر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں وہیں پاکستانی صارفین اور حکومتی وزرا بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے دکھائی نہیں دے رہے۔

انڈیا میں ہونے والے کسانوں کے طویل احتجاج پر امریکی پاپ سٹار ریحانہ کا ٹویٹ تو جیسے پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے دل کو بھا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

ریحانہ کی ٹویٹ کے خلاف بالی ووڈ متحد: ’انڈیا اپنے خلاف تبصرے برداشت نہیں کرے گا‘

ریحانہ پر پاکستانی ایجنٹ ہونے کے الزامات میں ان کی زلفی بخاری کے ساتھ تصویر کا بھی ذکر

انڈین کسانوں کے حق میں کملا ہیرس نے ٹویٹ کی یا کسی اور ہیرس نے؟

فواد چوہدری کی ریحانہ کو مبارکباد

دنیا بھر میں کہیں کچھ بھی ہو تو پاکستان سے کہیں نہ کہیں سے کوئی ایسی آواز اٹھتی ہے کہ جس سے ایک نئی بحث بھی چھڑ جاتی ہے۔ چاہے وہ انڈیا کے چاند پر جانے والے مشن چندریا 2 کے تجربے میں ناکامی ہو یا پھر فرانس کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کرنے کا معاملہ ہو۔

پاکستان کے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری ماضی میں بھی اپنے ایسے بیانات کے لیے شہرت رکھتے ہیں اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔

انھوں نے کسانوں کے حق میں امریکی گلوکارہ ریحانہ کو آواز بلند کرنے پر مبارکباد دے ڈالی اور کہا کہ ’اس معاملے پر بات کر کے آپ نے بہت عزت کمائی ہے اور آپ نے یہ ظاہر کیا ہے کہ آپ کا دل ٹھیک جگہ پر (دھڑک رہا) ہے۔‘

https://twitter.com/fawadchaudhry/status/1356832222779695110?s=20

’پنجابی بھی ہوں اور کسان بھی‘

جب فواد چوہدری سے بی بی سی نے اس متعلق سوال کیا کہ کیا بطور پاکستانی حکومت کے وفاقی وزیر آپ کا انڈیا کے خلاف ریحانہ کو مبارکباد دینا محض انڈیا کو ہدف تنقید بنانا نہیں تو انھوں نے اس تاثر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک پنجابی اور ایک کسان بھی ہیں۔

فواد چوہدری کے مطابق کسانوں کا یہ ایشو ان کے دل کے بہت قریب ہے۔

واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان میں کسانوں نے بھی اپنے حقوق کے لیے احتجاج کیا تو ان پر تشدد کیا گیا۔ مبینہ طور پر اس تشدد سے ہی ایک کسان رہنما کی ہلاکت بھی ہوئی۔

جب فواد چوہدری سے پاکستان میں کسانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر بات کی گئی تو ان کا جواب تھا کہ انھوں نے پاکستان کے اندر بھی کسانوں پر ہونے والی زیادتیوں پر آواز بلند کی ہے۔

ان کے مطابق جب اوکاڑہ کے کسانوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی تو ان کی وزیر ہوتے ہوئے بھی آواز ان کی آواز میں جا ملی۔

’کہیں بھی زیادتی ہر جگہ انصاف کے لیے خطرہ ہے‘

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے وہ انڈیا میں جاری کسانوں کے صدی کے طویل ترین احتجاج کو ایک انسانی مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ان کے مطابق کہیں بھی ہونے والی ناانصافی ہر جگہ انصاف کے لیے بڑا خطرہ بن جاتی ہے۔ ان کے مطابق انسانی نوعیت کے معاملات کو سیاسی اور قومیتی بنیادوں پر نہیں دیکھنا چاہیے اور نہ اس بیان کا مقصد نفرت پھیلانا ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ ’جب 1920 میں سر چھوٹو رام نے کسانوں کے لیے مہم شروع کی تو میرے دادا جان ایک کسان رہنما کے طور اس مہم کا حصہ تھے۔‘

فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ انھیں آج بھی کسانوں کے ساتھ جو ظلم ہوتا ہے اس پر دکھ ہوتا ہے۔

فواد چوہدری

واضح رہے کہ انڈیا کی حکومت نے بھی ریحانہ کا نام لیے بغیر اس پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے پہلے حقائق جانچنا ضروری ہے۔

انڈین حکومت کے علاوہ انڈین سیلیبریٹیز بھی ایسی تنقید کا جواب دیتے ہوئے یہ کہتے دکھائی دیے کہ یہ انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے اور کسی کو مداخلت کا حق نہیں تاہم فواد چوہدری اس دلیل سے متفق نہیں اور وہ اسے انسانی مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

امریکہ کی نامور گلوکارہ اور پاکستانی ایجنٹ، کیا ایسا ممکن ہے؟

شاید سوشل میڈیا پر ہونے والی الزامات کی جنگ میں ایسا کچھ بھی حیران کن نہیں۔ ایسا ہی کچھ اس وقت انڈیا اور پاکستان کے ٹوئٹر پر دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں گلوکارہ ریحانہ کی جانب سے کسانوں کے حق میں کی جانے والی ایک ٹویٹ انھیں آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دیے جانے کا باعث بن رہی ہے۔

یاد رہے کہ اپنی ٹویٹ میں ریحانہ نے دنیا کی توجہ انڈیا میں جاری اس احتجاج اور اس میں موجود مظاہرین کی انٹرنیٹ تک رسائی محدود کیے جانے کی طرف دلائی ہے۔ اسی طرح سابقہ پورن سٹار میا خلیفہ نے انڈیا میں ’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ کا ذکر کیا۔

اس کے ردعمل میں انڈیا نے ‘غیر ملکی افراد’ اور عالمی سطح پر معروف شخصیات پر الزام لگایا ہے کہ وہ ملک میں کسانوں کے احتجاج پر ‘سنسنی پھیلا رہے ہیں۔’

ریحانہ

انڈیا اور پاکستان ایک دوسرے پر تیر برسانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے کیوں نہیں دیتے؟

مصنف اور سماجی کارکن خارث خلیق انڈیا اور پاکستان کی ایک دوسرے سے جڑی نفسیات کو تقسیم ہندوستان سے جوڑتے ہیں۔ ان کے مطابق دونوں ممالک میں سنہ 1947 سے ہی مزید تقسیم اور دوریوں کا تسلسل جاری ہے۔

حارث خلیق کے مطابق یہ بات تو درست ہے کہ انڈیا میں اس وقت جو تحریک چل رہی ہے وہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد تحریک ہے۔ ان کے مطابق اس تحریک کو ساری دنیا سے جو حمایت مل رہی ہے اس کی سمجھ بھی آ رہی ہے۔

ان کے مطابق انڈیا میں جہاں مذہبی انتہا پسندی بڑھی ہے وہیں انڈیا میں متنازع معاشی پالیسیوں کا بھی نفاذ کر دیا گیا ہے، جس سے کسان بھی چیخ اٹھے ہیں۔

مگر حارث خلیق کے خیال میں پاکستان جس وجہ سے انڈیا پر تنقید کرتا ہے وہی پالیسیاں خود پاکستان کے حکمران بھی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق مذہبی انتہا پسندی کے علاوہ پاکستان میں بھی متنازع معاشی پالیسیوں کا راج ہے۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان بھی کسانوں پر اپنی مرضی کے قوانین نافذ کر رہا ہے اور اداروں کی نجکاری کی جا رہی ہے جس میں ریڈیو پاکستان، پی ٹی وی، پاکستان سٹیل ملز، پی آئی اے اور ریلوے جیسے محکمے شامل ہیں۔

حارث خلیق کے مطابق دونوں ممالک کی آزادی کا مقصد امن کا حصول تھا مگر ابھی اس مقصد سے دونوں ممالک دور نظر آتے ہیں۔

’انڈیا اور پاکستان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ نیو لبرل معاشی نظام کا جو راستہ ہے اس میں تیسری دنیا کے ممالک کی بقا نہیں ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp