سکوائر کلومیٹر آرے: کائنات کے رازوں کو سمجھنے کے لیے دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی سکوپ پر کام شروع


اکیسویں صدی کے سب سے بڑے سائنسی منصوبوں میں سے ایک پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔

’سکوائر کلومیٹر آرے آبزرویٹری‘ کی کونسل کے پہلے اجلاس میں اس منصوبے پر عملد درآمد کی منظوری دے دی گئی ہے جس کے تحت اگلے دس برس میں دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی سکوپ بنائی جائے گی۔

رکن ملکوں نے ایک ہزار صفحات پر مشتمل ایک دستاویز کی منظوری دی ہے جس میں صنعتی ٹھیکداروں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے بینک اکاؤنٹ کھولنے سمیت دیگر معاملات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔

سکوائر کلومیٹر آرے (ایس کے اے) نامی ٹیلی سکوپ میں بہت سے ریڈیو ریسیور لگائے جائیں گے۔ یہ ریڈیو ریسیور جنوبی افریقہ سے لے کر آسٹریلیا تک لگائے جائیں گے۔

انتہائی جدید کمپیوٹر سے منسلک یہ اعلیٰ ریزولیوشن والی ٹیلی سکوپ خلائی ماہرین کو ایسٹرو فزکس کے کچھ انتہائی بنیادی سوال حل کرنے میں مدد کرے گی۔

کائنات کے پہلے ستارے نے کیسے چمکنا شروع کیا؟ آخر یہ ’ڈارک اینرجی‘ کیا ہے؟ توانائی کی وہ پراسرار قسم جو کہکشاؤں کو تیزی سے بڑھتی ہوئی کشش سے ایک دوسرے سے دور کر رہی ہے۔ اور سب سے بنیادی سوال کہ کیا ہم کائنات میں تنہا ہیں؟ یہ ایس کے اے ٹیلی سکوپ غیر معمولی طور پر حساس ہوگی جو خلا میں ہونے والی کسی قسم کی بھی ٹرانسمیشن کو ریکارڈ کر سکے گی۔

یہ بھی پڑھیے

سپر ٹیلی سکوپ اور دیو ہیکل کیمرے سے گوبھی کے راز آشکار

’چی اوپس‘ دور دراز جہانوں کی کھوج میں لگ گئی

دوردراز کہکشاں سے موصول ہونے والے سگنل کس نے بھیجے؟

نیا بین الاقوامی معاہدہ جس کے تحت یہ آبزرویٹری بنائی جا رہی ہے وہ گزشتہ ماہ ہی طے پایا ہے۔ اس معاہدے کی وجہ سے کونسل کا پہلا اجلاس ہوا جو کووڈ 19 کی وبا کے باعث آن لائن ہی کرنا پڑا۔ اس منصوبے پر 30 سال سے کام کیا جا رہا تھا اور اس اجلاس کو اس کی حتمی منظوری دینے کے لیے بلایا گیا تھا۔

سکوائر کلومیٹر آرے آبزرویٹری کے پہلے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر بل ڈائمنڈ کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں کونسل کے اس اجلاس نے اصل میں اس آبزرویٹری کی پیدائش کی نوید سنائی ہے۔‘

پروفیسر بل ڈائمنڈ نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’15 جنوری کو برطانیہ کی طرف سے اس بین الاقوامی معاہدے کی توثیق کے بعد ہم ایک قانونی اداراہ بن گئے ہیں لیکن اس مرحلے تک بھی یہ ادارہ ایک خالی برتن کی طرح تھا۔ کونسل کے پہلے اجلاس کے بعد ہی کام کا آغاز ہوا ہے اور یہ برتن اب بھرنا شروع ہوا ہے۔‘

کونسل کے اجلاس میں پالیسی، قواعد اور ضوابط کی منظوری دی گئی جو آبزرویٹری کو ایک حقیقت بنائے گی۔

اب اگلا اہم قدم اس ٹیلی سکوپ کو بنانے کا ہے۔ توقع یہ ہے کہ اس سال جولائی میں ٹینڈر جاری کیے جائیں گے اور اس کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب اس سال کے آخر تک منعقد ہو گی۔

یہ آبزرویٹری جنوبی افریقہ کے شمالی حصے میں ایک دور اور غیر آباد علاقے کارو اور مغربی آسٹریلیا مرچیسن میں قائم کی جائے گی۔

اس ٹیلی سکوپ میں ’پیرابولک اینٹینا‘ اور ’ڈشز‘ کے علاوہ ڈائی پول اینٹینا بھی لگائے جائیں گے جو کہ روایتی اینٹینوں کی طرح ہی دکھائی دیتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ایک ایسا حساس حصار بنایا جائے جو سینکڑوں ہزار مربع میل پر محیط ہو۔

یہ نظام 50 میگا ہرٹز سے لے کر 25 گیگا ہرٹز کی فریکوئنسی پر کام کرے گا۔ یہ ’ویو لینتھ‘ یا طول موج میں یہ کچھ سینٹی میٹر سے لے کر کئی میٹرز تک کی ہوگی۔

یہ ٹیلی سکوپ جو غیر معمولی طور پر حساس بنائی جائے گی، بہت ہلکی طاقت والے سگنل بھی پکڑ سکے گی جو زمین سے اربوں نوری سال پر واقع کہکشاؤں سے آ رہے ہوں گے جن میں وہ سگنل بھی شامل ہیں جو ’بگ بینگ‘ یا نظام شمسی کے وجود میں آنے کے چند سو کروڑ سال بعد پیدا ہوئے۔

ایس کے اے او کونسل کی سربراہ ڈاکٹر کیتھرین سیزرسکی نے کہا ہے کہ ’ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں ایک دیوہیکل ٹیلی سکوپ اس کائنات کے اسرار کو سمجھنے کی کوشش کرے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ اس سب کے پیچھے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بہت سے لوگوں کی برسوں کی محنت ہے۔

برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی کی پروفیسر اور برطانوی ایس کے اے کی سائنس کمیٹی کی رکن ڈاکٹر لیہ مورابیٹو نے کہا کہ ’یہ ایک تاریخی قدم ہے اور اس ٹیلی سکوپ کو بنانے اور چلانے کی طرف اور خاص طور پر عالمی سطح پر غیر یقینی کے ایک سال کے بعد یہ بہت حوصلہ افزا بات ہے کہ ہم اپنی توجہ ایس کے اے کے شاندار مستقبل کی طرف مبذول کر سکیں گے۔‘

کونسل کا بدھ اور جمعرات کو ہونے والا اجلاس ان ملکوں کی سرکردگی میں ہوا جو ایس کے اے معاہدے کی توثیق کر چکے ہیں ان میں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔

کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، انڈیا، جاپان، جنوبی کوریا، سپین، سویڈن اور سوئٹزرلینڈ بھی اس اجلاس میں موجود تھے۔ ان تمام ملکوں نے مبصرین کی حثییت میں اس اجلاس میں شرکت کی کیونکہ ان ملکوں کے پارلیمانی اداروں نے ابھی تک بین الاقوامی معاہدے کی توثیق کا عمل مکمل نہیں کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ تمام ملک بہت جلد اس معاہدے کی توثیق کریں گے۔

اس ٹیلی سکوپ کو بنانے اور چلانے پر اگلے دس برس میں دو اعشاریہ چار ارب ڈالر خرچ ہونے کا اندازہ ہے۔

پروفیسر ڈائمنڈ نے بتایا کہ ’ان کا اندازہ ہے کہ اس کی تعمیر میں سات سے آٹھ سال لگیں گے اور اس عرصے میں ممکنہ تاخیر کے لیے 18 ماہ کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ جس میں یہ تمام منصوبہ مکمل کر لیا جائے گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’کیونکہ انٹرفیرومیٹر میں بہت سی ڈش لگی ہوں گی، اور ایک مرتبہ ان میں سے کچھ ڈشیں لگا لی جائیں تو امید ہے کہ کچھ سائنسی کام شروع ہو جائے گا کیونکہ سائنسدان اس کو استعمال کرنے کے لیے بے قرار ہیں۔’

خلائی مشاہدوں کے بہت سے دوسرے مراکز کی طرح ایس کے اے نے بڑی تعداد میں مواصلاتی سیاروں کو فضا میں بھیجنے کے منصوبوں پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔

خلا کے مشاہدے کے لیے بنائی گئی ٹیلی سکوپ میں مواصلاتی سیارے حائل ہوتے ہیں اور اس کی فیلڈ میں روشنی کی ایک لکیر چھوڑ دیتے ہیں۔

ایس کے اے کی ریڈیو ٹیلی سکوپ کے لیے مواصللاتی سیاروں سے زمین پر بھیجے جانے والے سنگل خلل کا باعث بن سکتے ہیں۔

پروفیسر ڈائمنڈ کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کی خوشی ہے کہ سیٹلائٹ کمپنیاں اس کام میں دلچسپی لے رہی ہیں۔

ان کمپنیوں میں سپیس ایکس بھی شامل ہے جس کے مدار میں ایک ہزار کے قریب خلائی جہاز ہیں اور ’ون ویب‘ جس کے تقریباً پانچ سو خلائی جہاز ایک سے ڈیڑھ سال میں فضا میں ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32550 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp