عربی سیکھنے سے ہم سب نیک ہو جائیں گے


بھلا ہو ہمارے سینٹرز کا جنہیں اچانک یہ احساس ہو گیا ہے کہ وہ نیک لوگ نہیں ہیں۔ ہر روز ان سے بڑی بڑی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں اور وہ اس کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر پیدل چلتے ہوئے بہت ساری دکانوں اور مارکیٹوں کے سامنے سے گزرتے ہیں اور ان مارکیٹوں میں کاروبار کرنے والوں کے کردار کے بارے میں یقین سے کچھ بھی کہا نہیں جا سکتا۔ اگر خدانخواستہ ان شاپس میں چوری چھپے شراب بیچتے ہوں تو نہ جانے سامنے سے گزرنے والوں کو کتنا گناہ ملتا ہو گا۔ اس بات کا اندازہ ہمیں اس وقت ہی ہو گا جب ہمیں عربی زبان اچھی طرح سے آتی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ دکاندار جھوٹ بولتے ہوں، کم تولتے ہوں، ملاوٹ کرتے ہوں، ناقص کوالٹی کی اشیاء بیچتے ہوں یا ذخیرہ اندوزی کرتے ہوں تو یہ کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔ اور ویسے بھی ان مسائل کا تو ہمیں اردو یا انگریزی سیکھنے سے بھی پتا چل سکتا ہے۔ لیکن ان کے شراب بیچنے سے ہماری آخرت کیسے خراب ہو سکتی ہے یہ تو صرف عربی سیکھنے سے ہی پتا چل سکتا ہے۔ اس لیے عربی سیکھنا بہت اہم ہے اور ہم عربی سیکھ کر ہی نیک انسان بن سکتے ہیں۔

یقین کریں یہی مسئلہ گورنر پنجاب چوہدری غلام سرور کو بھی پیش آ رہا تھا۔ انہیں چونکہ عربی نہیں آتی تھی تو یہ غافل تھے اور برطانیہ میں بہت سے شراب خانوں، جنہیں نئی زبان میں بار یا کلب کہتے ہیں، کے سامنے یا سائیڈ سے گزرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ لیکن بعد میں انہیں اس گناہ کا احساس ہو گیا تھا اس لیے اب وہ پاکستان آ گئے ہیں اور عربی سیکھنے پر زور دے رہے ہیں۔ تاکہ باقی لوگوں کو اس گناہ سے بچایا جا سکے۔

بھلا ہو مولانا طارق جمیل صاحب اور کچھ دوسرے علما کرام کا کہ عربی سیکھے بغیر ہی ہمیں حوروں کے خدوخال، جنت میں ملنے والی شراب کی خصوصیات اور کیلے جیسے پھلوں کو لٹکانے کے طریقے تو آتے ہیں اور کچھ گناہوں سے تو بچ گئے۔ لیکن سینیٹرز صاحبان نے یہ بتایا ہے کہ جنت میں حوروں کے ساتھ گفتگو صرف عربی میں ہی ہو سکے گی۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ زبان نہ آتی ہو تو زندگی کا مزا ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس بات کا علم ان شریف لوگوں کو بخوبی ہے جو مشرق کی جانب چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں۔ وہ شریف لوگ بتاتے ہیں کہ ہر چیز یورپ کی نسبت بہت سستی ہے لیکن گفتگو نہ ہو سکنے کی وجہ سے شاپنگ کا مزا آدھا رہ جاتا ہے۔

عربی سیکھنے سے ہمارے لوگ بہت نیک ہو جائیں گے۔ اس بات کی گواہی ہمیں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے بھی ملتی ہے۔ وہاں پر تمام طالب علموں کو عربی کا مضمون پڑھنا پڑتا ہے۔ یہ بات ہم سب کے علم میں ہے کہ جو طلبہ و طالبات اس یونیورسٹی سے پڑھ کر آتے ہیں وہ دوسروں سے کافی زیادہ نیک ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ دو نوجوان سڑک پر آپس میں لڑ رہے تھے۔ ایک پنجابی میں گالیاں بک رہا تھا جبکہ دوسرا عربی میں کچھ کہہ رہا تھا۔ اور لڑائی دیکھنے والا گول دائرہ بنائے کھڑا پاکستانی ہجوم عربی زبان کا استعمال کرنے والے نوجوان سے زیادہ متاثر لگ رہا تھا۔ لڑائی کے بعد تعارف سے پتا چلا کہ عربی بولنے والا اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کا فارغ التحصیل ہے۔ عربی پڑھنے کے فوائد واضح نظر آ رہے تھے۔

ہماری سینٹ اور گورنر صاحب پکے یقین والے لوگ ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ لوگ جن کی مادری زبان عربی ہے ان میں کوئی کمزوری نہیں ہوتی۔ مثلا سعودی عرب والے پاکستانیوں کو اگر اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں تو گوروں کو اپنے بہتر بھی تو سمجھتے ہیں۔ اس طرح سے انسانوں میں تفریق کرنے کا حساب برابر ہو جاتا ہے۔

اب لگتا ہے کہ سعودیہ والوں کی عربی کچھ کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کچھ ایسے اقدامات کر دیے ہیں کہ عربی کی بجائے انگریزی کا اثر زیادہ نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر عورتیں بھی عام انسانوں کی طرح گھروں سے اکیلے باہر نکل سکتی ہیں اور گاڑی چلانے کی بھی اجازت ہے۔ اس تبدیلی سے لگتا ہے کہ سعودی عرب کی عربی کچھ کمزور ہو گئی ہے اور ان کا دھیان انگریزی کی جانب زیادہ چلا گیا ہے۔ لیکن کوئی بات نہیں ہو سکتا ہے کہ پاکستانیوں کو نیک ہوتا اور ترقی کرتا دیکھ وہ بھی دوبارہ عربی سیکھنے کی جانب راغب ہو جائیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik