ڈاکٹر جاوید حیات کی آزادکشمیر کی سیاست سے متعلق کتاب


ڈاکٹر جاوید حیات نے کچھ عرصہ قبل اپنی کتاب Azad Jammu & Kashmir: Polity, Politics and Power-Sharing
تحفتاً مجھے پڑھنے کے لیے دی جس کے لیے میں ان کا تہ دل سے شکرگزار ہوں۔
غالباً یہ اس نوع کی واحد کتاب ہے جس میں آزاد جموں و کشمیر میں بسنے والوں کے اندرونی اور بیرونی حق خوداختیاری کو 1947ء سے آج تک کے حالات و واقعات کے تناظر اور متعدد قانونی موشگافیوں کے بیچ تلاش کرنے کی عالمانہ کوشش کی گئی ہے۔
اندرونی حق خود اختیاری یا Internal right of self-determination کی اصطلاح بھی مجھے پہلی بار اسی کتاب میں پڑھنے کو ملی  جس کے تحت متنازعہ ریاست کے منقسم خطوں میں مقامی حکومتی ڈھانچوں کو بااختیار بنانے کا ایک مکمل ماڈل ڀیش کیا گیا ہے۔ جبکہ خارجی یا بیرونی external self determination جسے آج تک صرف ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے حق میں استعمال کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے، کے حوالے سے صراحت کے ساتھ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر جاوید کی متعدد تحاریر میں ان کی دلچسپی اور تحقیق کا مرکز و محور ریاست جموں و کشمیر اور اس خطے میں تیار کی گئی گھمبیر آئینی اور قانونی بھول بھلیوں میں گم کردہ راہ لوگ ہیں ، جو رعایا سے شہری بننے کی تگ و دو میں آج بھی مصروف ہیں۔
ماہ جنوری سال 2000ء کے ایک چمک دار دن ہرارے، زمبابوے میں رئیس المراسم فالو چوواوا (Fallot Chawawa) نیم سرکاری بنک، زمبابوے بینکنگ کارپوریشن (Zimbank) کی جانب سے قومی لاٹری ٹکٹ جیتنے والے کا نام مشتہر کرنے والے تھے۔ اس لاٹری میں شرکت کا حق دار ہر وہ شخص تھا جس کے بنک اکاؤنٹ میں دسمبر 1999ء تک 5,000 زمبابوی ڈالر موجود تھے۔ جب چوواوا نے قرعہ نکالا تو وہ لاٹری جیتنے والے کا نام پڑھ کر سکتے میں آ گیا۔
زمبینک کے جاری کردہ بیان کے مطابق:
“رئیس المراسم فالو چوواوا کو جب ایک لاکھ زمبابوی ڈالرز جیتنے والے کا نام تھمایا گیا تو انہیں اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہ آیا کیونکہ قرعہ پر زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے کا نام تحریر تھا”
دوستو! میں سمجھتا ہوں کہ 1947ء میں جو قرعہ جاگیردارانہ طرز حکمرانی سے چھٹکارے اور عوامی جمہوری انداز حکومت کی صورت ہمارے نام نکلنا تھا ، اس پر پہلے سے ہی کئی موگابوں کے نام تحریر تھے جو ہمارے حصے کی سابقہ خوشیاں بھی اچک کر لے گئے اور ہمارے نصیبوں میں دائروں کا سفر لکھ دیا۔
یہ موگابے کون ہیں، یہ کس طرح ہم پر مسلط ہوئے اور ان سے چھٹکارا کیونکر ممکن ہے؟ ان تمام سوالات کے جواب ہمیں ڈاکٹر جاوید حیات کی کتاب پڑھ کر بہ آسانی مل جاتے ہیں۔
ڈاکٹر جاوید حیات کا تعلق راولاکوٹ کی مردم خیز دھرتی سے ہے۔ ان کی جائے پیدائش پشاور ہے تاہم ان کی جوانی پنجاب میں گزری ، جہاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن اور سڀین سے  پیس کنفلکٹ اینڈ ڈویلپمنٹ سٹڈیز میں دو ماسٹرز کیے۔ مابعد وہ کینیڈا پدھار گئے اور آج بھی وہیں مقیم ہیں۔ جرمنی سے علم سیاسیات میں ڈاکٹریٹ کی اور مختلف بین الاقوامی اداروں سے وابستہ رہے۔
جس موضوع پر انہوں نے متذکرہ کتاب لکھی ہے، اس پر اس سے قبل سابق چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ اور ایسوسی ایشن فار دا رائٹس آف پیپل آف جموں و کشمیر (ARJK) کے سربراہ منظور حسین گیلانی اور ایک غیر سرکاری تنظیم سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ ریفارمز (CPDR)  بھی کام کر چکے ہیں جن کا ذکر ڈاکٹر جاوید حیات نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔
اس کتاب کو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا ہے جس کی ابتدائی ستائش سپین کی سب سے بڑی تعلیمی اور تحقیقی درس گاہ جاؤمی الاول کے پروفیسر ڈاکٹر رابرٹ جے میک انٹائر نے تحریر کی ہے جو لوکل گورنمنٹ ان ٹرانزیشن ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔
ستائش مزید میں فور ورلڈز سنٹر فار ڈیویلپمنٹ لرننگ کوکرین البرٹا کینیڈا کے ڈاکٹر جوڈی بوپ اور ڈاکٹر مائیکل بوپ، کشمیر ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن برطانیہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سردار آفتاب خان، سکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر راجہ قیصر احمد، نیشنل ڈیفنس کالج متحدہ عرب امارات کے پروفیسر فار سٹرٹیجک تھاٹ ڈاکٹر جول ہیورڈ، یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر برطانیہ کے پروفیسر دبیش آنند، سابق چیف ایڈیٹر ڈیلی رائزنگ کشمیر ڈاکٹر شجاعت بخاری شہید اور سابق سفیر عارف کمال بھی شامل ہیں۔ کتاب کا پیش لفظ بیاخہوف فاؤنڈیشن برلن جرمنی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ہنس ژواکھم جیسمین نے تحریر کیا ہے۔
ڈاکٹر جاوید کی کتاب چھ ابواب اور 327 صفحات پر مشتمل ہے جس میں سب سے پہلے قضیہ جموں و کشمیر اور اس سے برآمد ہوئے قضیہ آزاد جموں و کشمیر کا پس منظر بیان کیا گیا ہے۔ اس باب میں لفظ “کشمیری” پر بھی بحث کی گئی ہے اور پھر جمہوریت، سیاسی استحکام اور  سماجی تفرقوں پر مختلف علماء کی آراء ضبط قلم میں لائی گئی ہیں۔
کتاب کا دوسرا باب آزاد جموں و کشمیر کی آئینی اور قانونی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس علاقے کی سیاسی تشریح کرنے کی شدت بھری کوشش ہے۔  یہاں ریاست جموں و کشمیر سے متعلق بھارتی آئین، پاکستانی آئین، بھارتی جموں و کشمیر کا آئین اور آزاد جموں و کشمیر کا آئین زیر بحث ہیں جن کی روشنی میں باشندگان ریاست کا انسانی جمہوری حق تلاشا گیا ہے۔
کتاب کے تیسرے باب میں 15 اگست 1947ء سے آج تک آزاد جموں و کشمیر میں آئینی و قانونی ارتقاء کو اقوام متحدہ کی قراردادوں، مقامی سیاسی اور سماجی حالات و واقعات اور ان کے نتیجے میں وزارت امور کشمیر کی بے لگام مداخلت کے تحت زیر بحث لایا گیا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں رہنے والوں کی شہریت اور شناخت سے جڑے مسائل، پاکستانی قومی اداروں میں نمائندگی کے فقدان کے ساتھ ساتھ ایما نکلسن رپورٹ بھی اس باب کا حصہ ہیں۔ اس باب کا سب سے دلچسپ حصہ خطے میں سول سوسائٹی کی نمو اور اس کی مضبوطی پر اصرار ہے۔ یہاں کے متنوع مسائل پر چیتھم ہاؤس کی جانب سے منعقد کیا گیا سروے بھی اس باب میں شامل کیا گیا ہے۔
کتاب کا چوتھا باب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ساری دنیا میں گڈ گورننس سے کیا مراد لی جاتی ہے اور اس میں ریاست اور سماج کا کردار کیا ہوتا ہے۔ اس باب میں ہمارا سماج اور اس کی ساخت بھی زیر بحث لائے گئے ہیں۔ یہ پورا باب اور اس کے عنوانات عالمانہ گفتگو سے لبریز ہیں جو دماغ میں در آئے مختلف سوالات کے تفصیلی جوابات دیتے نظر آتے ہیں۔
یہ کتاب پانچویں باب میں اپنا ضمیر وا کرتی ہے اور یہی وہ باب ہے جہاں نہ صرف صاحب کتاب اپنی رائے کا مفصل اظہار کر رہے ہیں بلکہ آزاد جموں و کشمیر کی آئینی ہئیت سازی دنیا میں رائج انسانی آزادیوں کے تصورات، گورننس کے درست مفاہیم اور حق خودارادیت کے حقیقی معانی کے مطابق کرتے نظر آرہے ہیں۔
یہاں ARJK اور CPDR کی جانب سے دی گئیں مختلف سفارشات بھی تفصیلاً درج ہیں۔ ان سفارشات پر ڈاکٹر نذیر گیلانی، نذیر نازش، تنویر احمد، سردار صغیر اور سردار آفتاب کے اعتراضات بھی بلا کم و کاست تحریر کیے گئے ہیں۔ اسی باب میں آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین میں کی گئی تیرھویں ترمیم درج ہے اور ساتھ ہی اندرونی خوداختیاری سے مزین ایک آئینی خاکہ بھی تیار کیا گیا ہے۔
کتاب کے آخری باب میں پچھلے پانچ ابواب کا نچوڑ تحریر ہے جسے غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں ڈاکٹر جاوید حیات باشندگان آزاد جموں و کشمیر سے مخاطب ہوتے ہوئے انہیں اپنے جائز جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد کا مشورہ دے رہے ہیں جس کے لیے مساعی کا مربوط اور منضبط ہونے کے ساتھ ساتھ عالمانہ ہونا بھی اشد ضروری ہے۔جاوید حیات لکھتے ہیں؛
“They (people of AJK) need to learn from the histories of conflict, which revealed that powers and
rights are never given; they are always taken.”
کتاب کے آخر میں جہاں تمام حوالہ جات درج ہیں ، وہیں معاہدۂ امرتسر 1846ء، قانون باشندہ ریاست 1927ء، اعلامیہ آزادی 24 اکتوبر 1947ء، اقوام متحدہ کمیشن برائے پاک و ہند کی قراردادیں، معاہدۂ کراچی 1949ء ، معاہدۂ جنگ بندی 1949ء اور دستاویز الحاق 26 اکتوبر 1947ء بھی منسلک کر دیے گئے ہیں۔
ڈاکٹر جاوید حیات کی کتاب آزاد جموں و کشمیر کی مکمل کیس سٹڈی ہے جسے پاکستان میں بیٹھے ارباب اختیار کے علاوہ آزاد جموں و کشمیر کے ہر اس فرد کو پڑھنا چاہیے جو اس خطے میں اپنی نسلوں کی پرداخت میں دلچسپی رکھتا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے لوگوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ان کی جدوجہد 15 اگست 1947ء کا سورج غروب ہونے کے بعد ختم نہیں ہوئی بلکہ اپنے جائز حقوق کے حصول کا ایک طویل سفر آج بھی انہیں درڀیش ھے۔
اس کتاب کو ڀڑھ کر اس پر ہوئی محنت کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔ ایسا تحقیقی کام جسے آکسفورڈ جیسا ادارہ شائع کرے اور جس کی ستائش اڀنے شعبوں کے معروف ماھرین کریں، کئی برس کی ریاضت کا متقاضی ہے۔
تحریر کے اختتام پر میں ایک اور بات کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں۔ اس کتاب نے آزاد جموں و کشمیر، اس کے اندر حکومتی ڈھانچے ، اسلام آباد اور مظفرآباد کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور گورننس کے حوالہ سے جو علمی اور تحقیقی معیار قائم کیا ھے، ان موضوعات پر لکھنے والے تمام استقبالی محققین اس کتاب سے اکتساب کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).