یوم یکجہتی کشمیر اور فرضی پوسڑز کی کہانی


پاکستان، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں حسب روایت اس بار بھی 5 فروری کو آزادی پسند کشمیریوں کی حمایت کے حوالے سے یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا۔ یہ دن سرکاری، سیاسی اور سماجی سطح پر منایا گیا اور اس حوالے سے مختلف تقریبات منعقد کی گئیں۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے آزاد کشمیر کے شہر کوٹلی جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے مظفر آباد میں مشترکہ جلسہ کیا۔ پاکستان کے صدر نے یوم یکجہتی کے موقع پر مظفرآباد میں آزاد کشمیر اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کوٹلی جلسے میں اپنی تقریر میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں تھوڑے سے لوگ ہندوستان کے ساتھ تھے، 5 اگست 2019 کو ہندوستان کے اقدام کے بعد وہ بھی آزادی کے حق میں ہو گئے ہیں۔

پاکستان کے اردو روزنامہ ’جنگ‘ اور انگریزی روزنامہ ’دی نیوز‘ میں شائع خبر میں کہا گیا ہے کہ 5 فروری کو پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں ’جموں و کشمیر لبریشن الائنس ”کے نام سے پوسٹر آویزاں کیے گئے ہیں۔ خبر کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں لگائے گئے دو طرح کے پوسٹروں کی تصویر بھی دی گئی ہے۔

ایک پوسٹر پہ وزیراعظم عمران خان کی تصویر کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ ” جموں و کشمیر کا مقدمہ عالمی فورموں پر مؤثر انداز میں پیش کرنے پر اہل جموں کشمیر کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی مدد کرنے پر، شکریہ پاکستان شکریہ عمران خان، شکریہ جوان، اللہ تعالی سے امید ہے کہ اہل پاکستان اپنا فرض اور قرض تا حصول مقصد ادا کرتے رہیں گے، ان شاء اللہ، منجانب جموں کشمیر لبریشن الائنس“ ۔

دوسرے پوسٹر پہ لکھا ہے کہ ”5 فروری یوم یکجہتی جموں کشمیر ،  آج کا دن تجدید عہد کا دن ہے کہ تا حصول مقصد پر ہندوستانی ہتھکنڈوں، انسانیت کش مظالم کا اپنے آہنی عزم و استقلال پامردی سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے مقدس مشن کو جاری رکھیں گے ، چاہے ہمیں اس کے لئے کسی بھی حد تک جانا پڑے، اپنے عظیم مقصد سے وفادار تھے، ہیں اور ہمیشہ رہیں گے ان شاء اللہ، منجانب جموں کشمیر لبریشن الائنس“ ۔

وزیر اعظم کے ذمہ دار عہدے پہ فائز شخص کی طرف سے غلط بیانی قطعی طور پر غیر مناسب اور افسوسناک بات ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کی حامی جماعتوں نے ہندوستان کی طرف سے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرنے اور اسے ہندوستان میں ضم کرنے کے ایک سال بعد ، اپنی تقریباً ایک سال کی نظر بندی کے خاتمے پر ’گپکار ڈیکلریشن‘ کے نا م سے ایک اتحاد قائم کیا جس کا مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر کی 5 اگست 2019 سے پہلے کی پوزیشن کی بحالی بتایا گیا۔

ہندوستان نواز سات سیاسی جماعتوں کے اس اتحاد نے نئے متعارف کردہ ’ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کونسل‘ کے الیکشن میں بھی یہ کہتے ہوئے حصہ لیا کہ ’بی جے پی‘ کے لئے میدان خالی نہ رکھا جائے۔ اس الیکشن کے بعد اتحاد میں شامل پیپلز کانفرنس کے رہنما سجاد لون نے یہ کہتے ہوئے ’گپکار الائنس‘ سے علیحدگی اختیار کی کہ الیکشن میں الائنس میں شامل جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن میں حصہ لیا۔ سجاد لون نے مزید کہا کہ الائنس میں شامل جماعتیں ’بی جے پی‘ کے بجائے ایک دوسرے سے لڑتی آ رہی ہیں۔

ہندوستان کی حامی ان سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مقبوضہ ریاست کی حیثیت کی بحالی کے لئے تو کچھ کام نہیں کیا البتہ اپنے بیانات سے خود کو ہندوستان کا وفادار ثابت کرنے کی تکرار ضرور کرتے نظر آئے۔ چند ماہ قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور خود وزیراعظم عمران خان نے اپنے بیانات میں ’گپکار الائنس‘ کی تعریفیں کیں اور ان سے توقعات وابستہ کیں۔ یوں پاکستان حکومت، اس کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ اب تک اس بات سے بے خبر ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں ’گپکار اتحاد‘ آزادی کے حق میں نہیں بلکہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی 5 اگست 2019 سے پہلے کی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے خود کو ہندوستان کا وفادار ثابت کرنے کی کوشش میں ہے۔

مقبوضہ کشمیر سے ایسی کوئی خبر نہیں ہے کہ وہاں 5 فروری کو پاکستان کے یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کو خراج تحسین پیش کرنے والے مذکورہ پوسٹر لگائے گئے ہوں۔ یہ اطلاع ہمیں پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ادارے کے اردو اور انگریزی اخبار میں شائع خبر سے ملتی ہے۔ کچھ عرصے پہلے مقبوضہ کشمیر میں وزیراعظم عمران خان کی تصویر والے پوسٹر لگائے گئے تھے لیکن اب مقبوضہ کشمیر میں مذکورہ پوسٹر لگائے جانے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔

یہ دونوں پوسٹر ”جموں کشمیر لبریشن الائنس“ کے نام سے لگائے گئے ہیں، جبکہ کشمیری ایسے کسی لبریشن الائنس کی موجودگی سے قطعی بے خبر ہیں، با الفاظ دیگر جموں کشمیر لبریشن الائنس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں میں پہلے حریت کانفرنس کے دو دھڑے قائم تھے۔ بعد ازاں دونوں دھڑوں کے سربراہان اور یاسین ملک پر مشتمل الائنس تشکیل دیا گیا۔ تقریباً تمام حریت رہنما 5 اگست 2019 کے اقدام سے پہلے سے ہی ہندوستانی قید میں ہیں اور اب مقبوضہ کشمیر کے اخبارات میں بھی حریت رہنماؤں کے بیانات بھی دیکھنے میں نہیں آتے۔ ہندوستانی حکومت نے کشمیریوں کے خلاف بھر پور فوجی دباؤ کے ساتھ ظلم و جبر کے سخت ترین حربے استعمال کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں موت کی طرح کا سکوت طاری کر رکھا ہے۔

پاکستان حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے متعلق عالمی اداروں میں تین اجلاسوں کو ایک کارنامے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان کے ایک سینئر سفارت کار عبدالباسط کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کے ان غیر رسمی اجلاسوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ جن کی کارروائی نہ تو منظر عام پر آئی اور نہ ہی دستاویزات میں ان کا کوئی تذکرہ موجود ہے۔ پاکستانی عوام اور کشمیریوں میں اب وسیع طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ پاکستان حکومت نے ہندوستان کے مقبوضہ کشمیرسے متعلق انتہائی اقدامات پر کوئی عملی ردعمل نہ دکھاتے ہوئے ”سہولت کاری“ کا ماحول فراہم کیا ہے۔

پاکستان حکومت کی کشمیر کاز کے حوالے سے پالیسی یہی بیان کی جاتی ہے کہ مسئلہ کشمیر اتنا اجاگر کیا جائے کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کا نوٹس لینے پر مجبور ہو جائے۔ دوسری طرف پاکستان حکومت کی ناقص اور ناکافی سفارتی کوششیں بھی قطعی طور پر غیر مؤثر ثابت ہو چکی ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہندوستان کے جارحانہ اقدام کے جواب میں پاکستان کی طرف سے سخت ردعمل کا اظہار کیا جاتا، الٹا وزیراعظم عمران خان نے کچھ نہ کرنے کی حکمت عملی اپناتے ہوئے سب کو پابند کیا کہ ایسا کچھ بھی نہیں کرنا ہے کہ جس سے ہندوستان کو آزاد کشمیر یا گلگت بلتستان پر حملہ کرنے کا موقع مل جائے۔

مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کا شکریہ ادا کرنے کے پوسٹر لگنے کی اس خبر پر میں نے مقبوضہ کشمیر کے تحریکی حلقوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے لاعلمی اور صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ جو پیسے لیتے ہیں، وہ اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے ایسے کام کرتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ پاکستان میں عمومی طور پہ مسئلہ کشمیر کو مظلوم کشمیریوں کے مسئلے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دینے کی تکرار تو کی جاتی ہے لیکن ایسا کچھ نہیں کیا جاتا جس سے کشمیر کی ہندوستان سے آزادی کو ممکن کرنے کی کوئی کوشش نظر آ سکے۔

یوں پاکستان حکومت کی طرف سے کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت عملی طور پر ایک تلخ اور بھیانک مذاق بن کر رہ چکی ہے۔ پاکستان حکومت کی طرف سے آزادی پسند کشمیریوں کی حمایت محض ایسے مذمتی بیانات میں محدود نظر آتی ہے جو کھوکھلے اور عمل سے عاری ہیں۔ ہندوستان کے بھرپور دباؤ کی صورتحال میں کشمیروں کی سیاسی اور عسکری مزاحمتی تحریک اب محض علامتی طور پر ہی باقی گئی ہے جبکہ سفارتی سطح پہ کشمیریوں کی کوئی آواز نہیں ہے۔

ایک طرف پاکستان حکومت کشمیریوں کی رائے کو اہمیت دیے جانے کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف اس بات کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے کہ کشمیریوں کی رائے کو حکومت کا پابند اور تابعدار رکھا جائے۔ کشمیریوں سے برتاؤ کی یہ صورتحال افسوسناک بلکہ المناک ہے، جس کے مہلک ترین نتائج پاکستان کے لئے بھی زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ کھلواڑ کشمیریوں ہی نہیں بلکہ خود پاکستان کی تقدیر سے بھی کیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).