توہین مذہب کے الزامات کا سلسلہ کب تھمے گا؟



1980ء کی دہائی میں جب ایک عاقبت نااندیش فوجی آمر کے دور آمریت میں مذہب کا سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال حد سے زیادہ بڑھا ہوا تھا،  اسی دور میں انگریز کے بنائے گئے توہین مذہب کے قانون کو ایسی شکل دی گئی جس سے آنے والے وقت میں مذہبی انتہا پسندی کا طوفان برپا ہوا، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔

یہ قانون بظاہر تو مذہبی ہستیوں کی ناموس کی حفاظت کے لیے بنایا گیا ہے لیکن اس کا استعمال خالص سیاسی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ اگر کسی فرد کی کسی سے ذاتی رنجش ہو، کسی مکان دکان یا کاروبار پر قبضہ کرنا ہو تو مخالف فریق پر گستاخ ہونے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد زیادہ امکانات اس بات کے ہوتے ہیں کہ اسی الزام کی بنیاد پہ ملزم کو ماورائے عدالت قتل کر دیا جاتا ہے، اگر قتل ہونے سے بچ جائے تو پھر عدالتی قتل کو یقینی بنانے کی بھرپور کوششیں کی جاتی ہیں۔

دنیا بھر میں رائج طریقہ ہے کہ اگر کسی پر الزام لگایا جاتا ہے تو اس کے مجرم ہونے نہ ہونے کا تعین عدالت کرتی ہے، ملزم کو اپنی صفائی کا موقع دیا جاتا ہے۔ اگر جرم ثابت نہ ہو تو وہ بے گناہ قرار پاتا ہے، لیکن پاکستان میں گستاخی کے الزام کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جرم ثابت ہو چکا ہے۔ اب عدالت پر لازم ہے کہ وہ کیس کے میرٹ کی بجائے ملزم کو پھانسی کی سزا سنائے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ملزم کو تو کوئی دہشت گرد یا انتہا پسند گروہ قتل کر دے گا  اور اس کے ساتھ  جج اور ملزم کے وکیل کی زندگی کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہو گی۔

مثال کے طور 28 نومبر 2020 کو میرپور کی ایک ضلعی عدالت میں صحابہ کی گستاخی کے الزام میں قید ایک شخص کو ضمانت دینے پر وکلاء نے عدالت میں ہنگامہ آرائی کی۔ جج تک رسائی کے لیے دروازے توڑنے کی کوشش کی اور ملزم کو پھانسی اور جج کو نوکری سے برخاست کرنے کے مطالبات کیے۔ توہین مذہب کے جھوٹے مقدمے میں برسوں سے قید جنید حفیظ کے وکیل ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے عہدے دار راشد رحمان کو اس لیے قتل کیا گیا تھا کیونکہ وہ جنید حفیظ کا کیس لڑ رہے تھے۔

حال ہی میں کراچی میں ایک مسیحی خاتون پر جو کہ ایک ہسپتال میں نرس کے فرائض سرانجام دے رہی تھی، اس کے رفقائے کار نے توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا کر اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر پولیس کے حوالے کر دیا۔ جب پولیس نے اسے بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیا تو انتہاپسندوں کے ہجوم نے تھانے کا گھیراؤ کر لیا اور مذکورہ خاتون پر توہین رسالت کے قانون کے تحت مقدمہ درج کرا دیا۔

یہ کیس بالکل آسیہ مسیح کے کیس کی طرح ذاتی چپقلش کی بنیاد پر بنایا گیا، اس کے علاوہ سیالکوٹ کے ایک سرکاری اسکول کے استاد نوید اسلم کے خلاف کسی جاگیردار نے زمینی تنازعہ پر توہین رسالت کے جھوٹے الزام لگا کر مقدمہ درج کرا دیا، اسی طرح میرپور میں ایک شہری ہمایوں پاشا نے مذہبی تقاریب کے حوالے سے لگے اشتہارات صفائی مہم کے دوران اتارے جس پر اس کے خلاف مقدمہ درج کر کے جیل میں بھیجا گیا جہاں پر اسے وہاں قید مجرموں نے تشدد کا نشانہ بنایا، یہ سب کچھ ہونے کے باوجود وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی کہتے ہیں حکومتی کوششوں سے توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال نوے فیصد کم ہوا ہے، حالانکہ سال 2020 میں توہین مذہب کے 200 سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

جہاں قانون کے درست اور غلط استعمال کی بات ہے وہیں سوال یہ ہے کہ ایسے قوانین کی ضرورت کیا ہے۔ اگر کسی نظریے کے ماننے والوں کو اس نظریے کی حفاظت کے لیے ڈنڈے اٹھانے پڑیں، اس نظریے کی مخالفت کرنے والوں کو جیلوں میں ڈال کر ان کو قتل کر کے خاموش کرانا پڑے تو انہیں اپنے نظریے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ سچائی کو نہ تو بدنام کیا جا سکتا ہے نہ ہی سچائی کو کسی سے خطرہ ہوتا ہے۔ ڈنڈے کے زور پر قتل و غارت گری اور انسانیت دشمن قوانین کے ذریعے تو آپ اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).