ریگولیٹری اداروں پر حکومتی جھلّاہٹ کیوں؟


\"\"اس حد تک تو سنا تھا کہ ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا لیکن کسی کام میں جلدی کی بھی اس قدر وضاحتیں درکار ہوں گی، یہ کم ہی سنا اور دیکھا۔ ہمارے میڈیا میں معیشت کی خبریں کم ہی اس قدر در خورِ اعتنا سمجھی جاتی ہیں کہ شہ سرخی سے نوازی جائیں، سو جب ایک خالصتاً انتظامی نوعیت کی خبر کو اپنے اخبار کی ہیڈ لائن پایا تو ماتھا ٹھنکا۔ حکومت نے پانچ ریگولیٹری اداروں کو کیبنٹ ڈویژن کے انتظامی کنٹرول سے نکال کر متعلقہ وزارتوں کے انتظامی کنٹرول میں دے دیا ہے۔ اصل افسانہ تو نیپرا اور اوگرا کا تھا مگر باقی تین اداروں کو بھی زیب داستاں بننا پڑا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں جب اپوزیشن نے پانامہ سے ہٹ کر حکومت سے اس کا جواب مانگا تو وزیر پانی اور بجلی نے کمال شان استغنائی کے ساتھ وضاحت کی کہ ان اداروں کے معمول کے انتظامی معاملات کیبنٹ ڈویژن سے متعلقہ وزارتوں کو منتقل کیے گئے ہیں۔ اگلے روز سینیٹ میں رضا ربانی نے حکومت سے باقاعدہ وضاحت طلب کی تو وزیر قانون گویا ہوئے کہ معمول کے انتظامی معاملات کے لیے یہ کنٹرول ادھر سے ادھر کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں۔ یہ ادارے حسب معمول اپنے اپنے معمولات اسی طرح جاری رکھ سکیں گے۔ کچھ یہی وضاحت وزیر خزانہ اور وزیر پٹرولیم اور قدرتی وسائل نے بھی دی لیکن اس سوال کا جواب وضاحتوں کی گولائی میں کہیں اٹک گیا کہ اگر ان اداروں نے تمام امور اسی طرح ہی انجام دینا تھے تو اس سارے جنجھٹ کی ضرورت کیا تھی؟ مشترکہ مفادات کونسل میں اس امر کو ملتوی کرنے کے باوجود ایسی کون سی مجبوری آن پڑی کہ اس انتظامی نوٹیفیکیشن کے بغیر بات نہ بن سکی؟
ان وضاحتوں پر شاید ہی کسی کو اعتبار آیا، اس لیے کہ اس اقدام سے قبل گذشتہ ہفتے مشترکہ مفادات کونسل میں نیپرا ایکٹ میں بنیادی ترامیم کا آئیٹم ایجنڈے پر تھا جس پر خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے غور کے لیے مہلت مانگی اور اسے اس اجلاس کے ایجنڈے سے ہٹانے کا مشورہ دیا۔ ایجنڈے سے یہ آئیٹم ہٹا دیا گیا لیکن اجلاس کے دوران ایک پریزینٹیشن کی شکل میں اسے اجلاس کے سامنے دوبارہ رکھ دیا گیا۔ سندھ اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے اصرار کیا کہ یہ معاملہ ان کے صوبے کے لیے حساس نوعیت کا ہے، اس لیے انہیں اس پر غور کے لیے وقت چاہیے۔ لہٰذا اس معاملے کو مؤخر کر دیا گیا۔ ابھی یہ وزرائے اعلیٰ واپس ہی پہنچے تھے کہ کسی عاقل و بالغ نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ حضور کس جنجھٹ میں پڑ گئے ہیں کہ آئین انہیں یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ از خود ان اداروں کو متعلقہ وزارتوں کے تحت کر سکتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے آئین کی فلاں اور فلاں شق اور ذیلی دفعات۔ حضور نے بھی آج کا کام کل پر مؤخر کرنا مناسب نہ جانا اور یہ نوٹیفیکیشن چٹ منگنی اور پٹ بیاہ جیسی عجلت میں جاری ہو گیا۔

بجلی اور گیس کے کاروبار سے منسلک حلقوں میں یہ باتیں کافی عرصے سے چل رہی تھیں کہ وزارت پانی اور بجلی اور وزارت قدرتی وسائل اپنے اپنے ریگولیٹری ادارے سے نالاں ہیں۔ نیپرا سے حکومت کو شکایت تھی کہ 2018 سر پر آ پہنچا ہے لیکن بجلی اور ٹرانسمیشن لائنز کے کئی ایک پروجیکٹس کے ٹیرف مقرر کرنے کی رفتار حسب خواہش نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ کئی ایک صورتوں میں جو ٹیرف طے کیے گئے وہ سرمایہ کاروں کی توقع اور خواہش سے کہیں کم تھے۔ گذشتہ کئی ماہ سے دو ٹرانسمیشن لائنز کے ٹیرف کا ٹنٹا بھی حکومت کے لیے سبکی کا باعث بن رہا تھا۔ بجلی گھروں پر کام شروع ہو گیا لیکن ان کی بجلی کو لوڈ سنٹرز تک لانے کے لیے ٹرانشمیشن لائنز کے ٹیرف پر سرمایہ کمپنی مطمئن نہ تھی۔ حکومت نے نیپرا سے نظر ثانی کے لیے کہا جس کے بعد کچھ اشک شوئی کر دی گئی لیکن سرمایہ کار کی تسلی نہ ہوئی۔

نیپرا نے مزید نئے سولر، پن بجلی اور کوئلہ بجلی پروجیکٹس کے لیے اگلے ٹیرف میں بھی کمی کر دی کہ ایک تو کافی پیداواری گنجائش زیر تکمیل ہے اور دوسرے یہ کہ دنیا بھر میں انتہائی ترغیبی ٹیرف ابتدائی پروجیکٹس کی کشش کے لیے دئے جاتے ہیں۔ ایک بار شعبے میں سرمایہ کاری کا دروازہ کھل جاتا ہے تو صارفین کو مقابلے کی فضا کا فائدہ پہنچانے کے لیے بعد میں آنے والے پروجیکٹس کے لیے ٹیرف میں دھیرے دھیرے کمی کی جاتی ہے۔ یہاں معاملہ الٹا ہو رہا تھا، بعد میں آنے والا ہر پروجیکٹ مصر تھا کہ اسے بھی ان ہی ترغیبی ٹیرف سے نوازا جائے۔ مزید یہ کہ اس سارے عمل میں وقت بھی صرف ہوتا ہے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر معاملات میں نیپرا کے بارے میں وزارت پانی و بجلی شاکی تھی۔ کئی بار وزیراعظم کو شکایت کی گئی کہ 2018 میں بجلی کی فاضل پیداوار سرمایہ کاروں کے اشتیاق کے راستے میں نیپرا سد راہ بنا ہوا ہے۔ یہ راہ پر آ جائے تو باقی معاملات چٹکی بجاتے حل ہو سکتے ہیں۔

کچھ اسی طرح کے سخن گسترانہ معاملات وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل یعنی آئل اینڈ گیس کو بھی اپنے ریگولیٹری ادارے اوگرا سے بھی درپیش تھے۔ آر ایل این جی کی درآمد کا معاملہ گذشتہ حکومت کے دور میں الجھا رہا۔ کچھ عدالتی کارروائیوں کی وجہ سے اور کچھ اس کی درآمد کی سپلائی چین کے باہمی معاملات کی پیچیدگیوں کی وجہ سے۔ یہ حکومت آئی تو اسے اندازہ ہو گیا کہ ملکی گیس کے ذخائر میں مسلسل کمی کی وجہ سے گیس کی کمی کی فوری قلت دور کرنے کے لیے ایل این جی کی درآمد ہی فوری اور قابل عمل راستہ ہے۔ ایل این جی کے لیے اس کی خریداری سے لے کر تمام مراحل پاکستان کی گیس انڈسٹری کے لیے نئے تھے۔ درآمد کے لیے نئے ٹرمینل کی تعمیر، کون اتنی بڑی سرمایہ کاری سے ایل این جی کو درآمد کرے، گیس ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو کس نرخ پر بیچا جائے کہ مقامی گیس کی قیمت تو عالمی قیمت سے بہت کم ہے، لائن لاسز یعنی گیس کی ترسیل کے دوران لائن لاسز کی ذمہ داری کون اٹھائے، کتنے لائن لاسز صارفین پر منتقل کیے جائیں، آر ایل این جی کے ایندھن پر لگنے والے ان بجلی گھروں کو باقاعدہ سپلائی کی گارنٹی کون سا ادارہ دے، اس ادارے کو اگر سپلائی کرنے والا ادارہ سپلائی نہ کر سکے تو اس صورت میں کیا ہو؟ یہ اور اس طرح کے کئی سوالات اور معاملات حل طلب تھے۔ حکومت نے ایل این جی کی درآمد اور اس سے متعلقہ معاملات میں تیزی چاہی تو بیشتر جگہوں سے مزاحمت اور وضاحتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آئل اور گیس کے شعبے کے کئی اداروں کے کئی سینئیر افسران کو استعفیٰ دینا پڑا یا انہیں واپسی کا دروازہ دکھانا پڑا۔

ریگولیٹری ادارے کیوں بنانے پڑے؟ تجربے نے یہی سکھایا کہ بجلی، پانی، آئل اور گیس جیسی اہم وزارتوں اور ان سے منسلکہ اداروں میں دھیرے دھیرے کرپشن، بد انتظامی اور سیاسی مداخلت نے ان اداروں کی کارکردگی کو رو بہ زوال کر دیا۔ دنیا کے مقابلے میں ہماری کارکردگی بہت مایوس کن ہے، اس پر مستزاد اس تمام کرپشن اور بد انتظامی کا بوجھ صارفین پر منتقل کر دیا جاتا ہے، یہ سرچارج، وہ سرچارج۔ یہ تمام شعبے ایسے ہیں جن میں سرمایہ کاری کا حجم بہت زیادہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ان شعبوں کو دھیرے دھیرے پبلک سیکٹر سے نکال کر نجی شعبے کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس عمل کو شفاف بنانے، مسابقت کے فروغ، سرمائے کے تحفظ اور صارفین کے مفادات کی حفاظت کے لیے شفاف اور غیر جانبدار قانونی فریم ورک اور ایسے ریگولیٹری اداروں کی ضروت ہوتی ہے جو حکومتی کنٹرول سے آزاد ہوں اور انہیں اپنی عملداری کے لیے آئینی تحفظ بھی حاصل ہو۔ 1992 میں پاور سیکٹر میں اصلاحات لانے کا عمل شروع ہوا اور اسی کے نتیجے میں 1997 میں نیپرا وجود میں لایا گیا۔ 2002 میں اوگرا کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ان اداروں میں سیاسی مداخلت اور من پسند تقرریوں نے مسائل بھی پیدا کیے اور کچھ معاملات میں ان کی کارکردگی حسب توقع نہ رہی لیکن مجموعی طور پر ان اداروں کا قیام غنیمت ثابت ہوا۔ خدشہ یہ ہے کہ اب تک جو بری بھلی ڈی ریگولیشن ہوئی تھی، ایک ہی الٹی جست میں اس کی واپسی نوشتہ دیوار لگ رہی ہے۔

حکومت کی بے تابی اور جھلاہٹ قابل فہم ہے لیکن ریگولیٹری اداروں کا کام حکومتوں کو خوش کرنا نہیں بلکہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے صارفین کے مفادات کا تحفظ کرنا اور اپنے اپنے شعبے میں قانونی فریم ورک پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے۔ سیاسی مفادات اور توقعات کی دھن مگر ایسے دور رس ریاستی انتظامات کو رکاوٹ سمجھ بیٹھتی ہے۔ ایسے میں مشورہ دان عجلت کے دباؤ میں ایسے ایسے راستے ڈھونڈ نکالتے ہیں جو بعد ازاں یا تو بند گلی میں جا نکلتے ہیں یا پھر عزت سادات کے در پے ہوجاتے ہیں۔ شان الحق حقی یاد آئے۔

یہ نگاہوں کے اندھیرے نہیں چھٹنے پاتے
صبح کا ذکر نہیں صبح تو ہو جاتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments