بکریاں ووٹ نہیں ڈالتی


اہل زہد و تقوی ایک مدت سے انسانوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جمہوریت نظام باطل ہے جس میں ”بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے“ ۔ ہم آپ کو اس کی پریکٹیکل مثال دے سکتے ہیں۔ دنیا میں جمہوریت کا سب سے بڑا چیمپئین، امریکہ، ایک ہلکے سے شخص کو صدر منتخب کر کے پھولا نہیں سما رہا حالانکہ جو بائیڈن کا وزن ٹرمپ کے مقابلے میں کتنا بے معنی ہے۔ بلکہ یار لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں ٹرمپ کا ایک ادنی سا بیان بھی جو بائیڈن سے بھاری ہوتا ہے۔

کیا فائدہ ہوا ”امریکنوں“ کو جمہوریت کا۔ ان کا نیا صدر نہ تو کسی کو دھمکی لگائے گا اور نہ ہی امریکہ گریٹ بنے گا۔ کتنے کارآمد منصوبے تھے جو ٹرمپ نے شروع کیے تھے اب ٹھپ ہو جائیں گے جیسا کہ میکسیکو والی دیوار اب دیوار گریہ بن کر رہ جائے گی۔ یہی تو مسئلہ ہے جمہوریت کا کہ ہر چار پانچ سال بعد حکومت تبدیل ہو جاتی ہے اور سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، اسی لیے موجودہ حالات میں کوئی بھی منصوبہ شروع کرنا سراسر وقت کا زیاں ہے کہ اگلی حکومت یا تو آ کر اس کو سرے سے ٹھپ کر دیتی ہے یا پھر اپنی تختی لگا لیتی ہے، تختی کی اہمیت ہے مسلم ہے۔ معاف کیجئے گا، بات کہاں سے کہاں چلی گئی لیکن اس ساری تمہید کا مقصد صرف یہ سمجھانا ہے کہ جمہوریت کوئی ایسی بھی کارآمد چیز نہیں ہے جس کا کریڈٹ مغرب لیتا رہتا ہے اور ہمارے ہاں کے لبرلز اس کی تعریفوں کے پل باندھتے رہتے ہیں۔

جمہوریت کا دوسرا مسئلہ ووٹ ڈالنا ہے، پہلے تو اسمبلی میں پہنچنے کے لیے ووٹنگ، پھر وزیر اعظم بننے کے لیے ووٹنگ، کوئی قانون بنانا ہو تو ووٹنگ، یعنی ووٹنگ در ووٹنگ۔ ٹھیک ہے ایک بار جب وزیر اعظم بن گیا ہے انسان تو اس کے بعد تو اس کو فری ہینڈ ملنا چاہیے کہ جس طرح کے چاہے قانون بنائے، جس کو چاہے سینیٹر منتخب کرے لیکن نہیں جی ہر بار ووٹنگ کرنی پڑتی ہے۔ سینیٹ کے انتخاب ہونے ہیں اور ساتھ ہی ووٹنگ کے طریقے کار کا مسئلہ بن گیا ہے کہ جی خفیہ ووٹنگ ہونی چاہیے حالانکہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں نہیں پتہ ہوتا کہ ووٹ کس کو ڈالنا ہے اور وہ غلطی سے کسی غلط بندے کو ووٹ ڈال دیتے ہیں۔

حکومت چاہتی ہے کہ ان لوگوں کو سہولت دی جائے اور ہاتھ کھڑے کر کے ووٹنگ کرا لی جائے تاکہ جن لوگوں کو نہیں پتہ کہ ووٹ کس کو ڈالنا ہے وہ اپنے ساتھ والے شخص کو دیکھ کے کاپی کر لے، اس طرح دھاندلی بھی نہیں ہو سکے گی اور سارا کام خوش اسلوبی سے طے پا جائے گا لیکن برا ہو ووٹنگ کا، اس قانون کو بنانے کے لیے بھی ووٹنگ کی ضرورت ہے۔

جتنے بھی عقل مند جانور ہیں وہ بالکل ووٹنگ پر یقین نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر بکریاں، کتنی عقلمند ہیں، ہمیشہ میں میں کرتی ہیں، دودھ دیتی تو ہیں لیکن اس میں مینگنیں ڈالنا نہیں بھولتیں۔ سائنسی طور پر تجربے سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے بکریاں ووٹ نہیں ڈالتیں بلکہ اپنے ساتھ والی بکری کو دیکھ کر ہی فیصلہ کر لیتی ہیں، اس طرح ووٹنگ کے کت خانے سے بھی جان چھوٹی رہتی ہے اور غلطی کی ذمہ داری بھی ساتھ والی بکری پر ڈالی جا سکتی ہے۔ آپ کو اگر ہماری بات پر یقین نہیں آتا تو لنک میں دی گئی سٹڈی کو پڑھ لیں، جمہوریت کی ماں یعنی انگلینڈ کا ایک معتبر جریدہ یہ بات کر رہا ہے کہ بکریاں ووٹ نہیں ڈالتیں۔

https://royalsocietypublishing.org/doi/10.1098/rsos.201128


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).