حقوق نسواں: ’عورت کے ساتھ جنسی تعصب میں اُس وقت کمی آئے گی جب مرد اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے گا‘


Une femme et un homme discutent de quelque chose dans un bureau
یوجین ہنگ کو حقوقِ نسواں کا حامی ہونے پر بہت فخر ہے۔

وہ کیلیفورنیا میں ریاضی کے ٹیچر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چودہ برس پہلے جب اُن کی بیٹی پیدا ہوئی تو اُس وقت وہ یہ سوچ کر ذہنی کشمکش میں پڑ گئے کہ یہ دنیا لڑکیوں کے لیے کیسے ہو گی؟

اُس وقت اُن کے ذہن میں یہ بات آئی کہ یونیورسٹی میں اُن کے ساتھ پڑھنے والی لڑکیوں پر کیا گزرتی ہوگی جو تنہا لائبریری سے گھر واپس جاتے ہوئے اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔

ہنگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘اُنھیں اپنے عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ جینا پڑتا تھا مگر مجھے ایسے مسائل کا سامنا نہیں تھا۔ مجھے اُس وقت اس بات کا احساس ہوا کہ مجھے معاشرے میں کتنا امتیاز حاصل ہے اور میں اس سے بالکل بے خبر تھا۔’

‘ایک مرد کی حیثیت سے میں ان سب باتوں کو اپنے لیے معمول کی باتیں سمجھتا تھا۔’

حقوقِ نسواں کا حامی باپ

اُن کے اندر احساس کی بیداری نے اُنھیں عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والا ایک سرگرم کارکن بنا دیا۔ اُنھوں نے ‘فیمینسٹ ایشیئن ڈیڈ’ کے نام سے ایک بلاگ شروع کیا جس کا مقصد عورتوں کو معاشرے میں با اختیار بنانے کے بارے میں آواز اُٹھانا تھا۔

ہنگ اپنے بلاگ میں مختلف چیزوں پر بات کرتے ہیں جن میں ڈِزنی کی انیمیٹڈ فلم ’مُلان‘ جس میں ایک طاقتور عورت مرکزی کردار ادا کرتی ہے اور کملا ہیرِس امریکہ کی پہلی سیاہ فام خاتون نائب صدر کے انتخاب جیسے موضوعات شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

غیر ازدواجی جنسی تعلق، قصوروار مرد یا عورت؟

’دی گالی پروجیکٹ‘: غصہ مرد پر گالی عورت کو، یہ اب بند ہونا چاہیے؟

مغل ملکہ جو حقوق نسواں کی علمبردار کہلائيں

خواتین اب بھی شادی کے بعد اپنا نام کیوں بدلتی ہیں؟

اُن کے بہت سے مضمون میں باہمی رضا مندی کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کرنے، دفاتر میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے اور جنسی تشدد کے واقعات پر بات کی گئی۔ ہنگ کے خیال میں ایسے موضوعات پر مردوں کو بھی بات کرنی چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘کم از کم امریکہ میں جہاں عورتوں کے خلاف تشدد کے 90 فیصد واقعات میں حملے مرد کرتے ہیں، وہاں مردوں کو یہ احساس کرنا چاہیے۔’

‘ہم زیادہ تر اِسے عورتوں کا مسئلہ سمجھتے ہیں، لیکن یہ مسئلہ مردوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، تو پھر مسئلہ ہے کیا؟ دراصل تو یہ مسئلہ ہی ہماری وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ تو پھر ہم اس کے بارے میں بات کیوں نہیں کرتے ہیں؟’

Eugene Hung fléchissant ses muscles sous une bannière disant

Eugene Hung
یوجین ہنگ

نیت بمقابلہ عمل

ہنگ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ چند نسلوں میں مردوں کے رویوں میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ لیکن صنفی بنیادوں پر زندگی کے کئی شعبوں میں اب بھی بہت زیادہ عدم مساوات ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر عورتوں کو ابھی بھی مردوں کی نسبت 23 فیصد کم اجرت ملتی ہے۔

عورتیں گھریلو کاموں اور بغیر اجرت کے کاموں پر مردوں کی نسبت دو گنا سے زیادہ وقت صرف کرتی ہیں۔

100 سے زیادہ ممالک میں ابھی بھی بعض کام یا پیشے ایسے ہیں جو عورتوں کے لیے قانونی طور پر ممنوع ہیں۔ ہنگ کا کہنا ہے کہ ‘اگر یہ صرف عورتوں کے مسائل ہوتے تو شاید انھیں کافی پہلے حل کرلیا جاتا۔’

لیکن وہ کہتا ہیں کہ ان سے نمٹنے کے لیے مردوں کے تعاون کی ضرورت ہے لیکن مرد ‘ان مسائل کو حل کرنے کے عمل میں شامل نہیں ہیں۔’

ہنگ کہتے ہیں کہ ‘جب تک مرد اپنے گھر والوں، دوستوں، ہمسائیوں، کمیونٹی کے لوگوں اور پورے معاشرے کے ساتھ ان مسائل پر بات نہیں کرتے، ہم اُس وقت تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے۔’

تو مرد اس سے بارے میں کچھ کیوں نہیں کر رہے ہیں؟

خوف کا عنصر

لوڈو گیبریئل ایک بلاگر ہیں جن کی تحاریر مردانگی اور خاندان میں باپ کے کردار کے بارے میں ہوتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ‘مردوں کے ذہنوں میں معاشرہ یہ خیالات بہت ہی چھوٹی عمر سے ڈال دیتا ہے کہ ایک عورت یا ایک لڑکی کو کس طرح کا ہونا چاہیے۔’

گیبریئل نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘اس کے نتیجے میں جب ہم کسی ملازمت میں ایک طاقت کی پوزیشن پر پہنچتے ہیں تو ہمارے لاشعور میں یہ بات جگہ بنا چکی ہوتی ہے کہ اگر آپ نے ایک عورت کی حمایت کی تو آپ اپنوں (مردوں) سے غداری کر رہے ہوں گے۔’

گیبریئل ایک تحریک کی برینڈنگ کے سربراہ ہیں جس کا نام ایم اے آر سی (مین ایڈووکیٹنگ ریئل چینج) یعنی مرد جو حقیقی تبدیلی کا پرچار کرتے ہیں۔ یہ تحریک دفاتر میں صنفی بنیادوں پر امتیازی سلوک کو ختم کرنے کے لیے مردوں اور عورتوں سے رابطے کرتی ہے۔

Ludo Gabriele

Catalyst handout
سیلون لوڈو گیبریئل

‘کیٹیلِسٹ’ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے سنہ 2020 میں کینیڈا میں 1500 مردوں کی آراء کا جائزہ مرتب کیا جس میں دفاتر میں صنفی بنیادوں پر امتیازی رویوں کے بارے میں سوال کیے گئے۔ اس جائزے سے اس سوال کے بہت سے جواب سامنے آئے کہ مرد امتیازی سلوک کو روکنے کے لیے قدم کیوں نہیں اُٹھاتے؟

جائزے میں شریک 86 فیصد افراد نے کہا کہ وہ اس امتیازی سلوک کو روکنا چاہتے ہیں جب وہ اسے ہوتا دیکھتے ہیں لیکن ان میں سے صرف 31 فیصد نے کہا کہ وہ اسے روکنے کی جرات اور اعتماد رکھتے ہیں۔

ایم اے آر سی کے نائب صدر الیگزنڈرا پولاک نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہماری تحقیق نے تین کلیدی باتوں کی نشاندہی کی: لاعلمی، بے حسی اور خوف۔’

خوف کے بارے میں اُنھوں نے مزید کہا کہ ‘یہ خوف خاص کر دیگر مردوں کے بارے میں ایک رائے بنانے کے حوالے سے ہے، مردوں کو یہ خوف ہوتا ہے کہ ہم کہیں دوسرے مردوں میں اپنی حیثیت نہ کھو بیٹھیں، اور ایہ کہ اِس دفتر میں اپنی ساکھ نہ خراب کرڈالیں۔’

گیبریئل اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘اس خوف کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا ڈر ہو کہ آپ مردوں کے گروہ کا حصہ نہیں رہیں گے، خاص طور پر ایسی تنظیموں میں جہاں کا ماحول لڑاکا پن پر مبنی ہو۔’

‘لیکن اس بات کا خوف بھی ہوتا ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کا آغاز کہاں سے کرنا ہے کیونکہ بہت سارے ایسے اچھے دل والے اور اچھی نیتوں والے مرد ہوتے ہیں جو اس خوف میں مبتلا ہوتے ہیں کہ کہیں وہ کوئی غلطی نہ کردیں اور نتیجتاً انہیں کہیں پیچھے نہ دھکیل دیاجائے۔’

وہ لمحہ جب چیزیں واضح ہوجائیں

ان معاملات کے حل کے لیے ایم اے آر سی نے شیورون اور پراکٹر اینڈ گیمبل جیسی نامی گرامی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کیا تاکہ وہ ان کے ملازمین کو تربیت دینے کے لیے انھیں ایک مختصر عرصے یا ایک برس کے لیے ورکشاپس کروائیں۔

اس کورس میں شریک ہونے والے ایک شخص جن کی نسل پرستانہ زبان استعمال کرنے پر سرزنش کی گئی اُن کے بقول اس تربیت کے دوران ایسے لوگوں کے لیے کچھ ذہنی تکلیف بھی ہو سکتی ہے جو اپنے آپ کو ابتدا میں ‘تھوڑا لاعلم’ سمجھتے ہیں۔

اس شخص نے مزید یہ بھی کہا کہ ‘لیکن پھر آپ اِس عارضی سُبکی کے لمحے سے آگے بڑھ جاتے ہیں اور یہ سیکھنے کا ایک زبردست تجربہ ہوتا ہے۔’

A training session in the workplace

ایم اے آر سی کی تربیتی ورکشاپ

اس تربیتی کورس میں شامل ایک خاتون نے ایک ایسے لمحے کا ذکر کیا جس کی وجہ سے سب دنگ رہ گئے۔

پروگرام میں شریک خواتین سے کہا گیا کہ اگر انھوں کسی موقع پر جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہو یا مردوں کی جانب سے اُنھیں غیر مناسب رویے کا سامنا کرنا پڑا ہو تو وہ کمرے کی دوسری طرف چل کر جائیں۔

اِن خاتون کا کہنا تھا کہ ‘دو مواقعوں پر دو خواتین جب کمرے کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف گئیں تو سب دنگ رہ گئے اور مجھے نہیں لگتا کہ اس کورس میں شامل کوئی بھی مرد وہ لمحہ بھول سکے گا۔’

اِن خاتون نے مزید یہ بھی کہا کہ ‘میرے خیال میں یہ ہر ایک کے لیے دھچکے کی بات تھی کہ کمرے میں موجود ہر عورت کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔ میرا نہیں خیال کہ ان میں سے کوئی بھی اس بات کو سمجھ سکا ہو گا لیکن یہ ایک حقیقت تھی۔’

بہت واضح مسئلہ، لیکن ایسا مسئلہ جو لگتا ہے نظروں سے اوجھل ہے

ہنگ اور گیبریئل جیسے مرد چاہتے ہیں کہ دیگر مرد حضرات ‘یہ تسلیم کریں کہ ہم اِس مسئلے کا حصہ ہیں اور ہمیں اسے حل کرنے کا بھی حصہ بننا چاہیے’ جیسا کہ گیبریئل نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا تھا۔

اس بلاگ کا عنوان تھا ‘میں ظاہر کرتا ہوں کہ میں عورتوں کے حقوق کا حامی ہوں اور کیوں آپ کو بھی ایسا کرنا چاہیے۔’

گیبریئل نے سنہ 2017 میں اپنی بیٹی صوفیہ کی پیدائش کے دو ماہ بعد ‘ووک ڈیڈی’ یعنی باشعور باپ کے نام سے لکھنا شروع کیا تھا۔

تین برس قبل اُنھوں نے ایک بڑی کمپنی میں بطور ڈائریکٹر کے اعلی عہدے کو چھوڑ دیا تھا۔ اُس وقت ان کی عمر 31 برس تھی اور اُن کا ایک گھر بھی تھا، ایک بیوی تھی، ایک بیٹا تھا اور جن کے لیے اُن کے پاس بہت کم وقت تھا جس کی وجہ اُن کے دل میں ادھورے پن کا گہرا احساس تھا جس نے اُنھیں دکھی کردیا تھا۔

بعد میں گیبریئل نے محسوس کیا کہ اُن کے اندر کے دکھ کی وجہ اُن کے اپنے بقول اُن کا اپنے آپ کو مردوں کی صحبت میں رکھنا تھا۔

اُنہوں نے اس کو اس طرح بیان کیا کہ وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ وہ مردانگی کی ایک تنگ نظر تعریف میں جکڑے ہوئے تھے جس میں اُنہیں عجیب قسم کے احساسات رکھنے ہوتے تھے، جن میں اُنھیں اپنی حقیقی خواہشات کے بجائے اپنے کریئر کو اہمیت دینی ہوتی تھی اور جنسِ مخالف کے بارے میں ایک حقارت آمیز مخاصمت والا رویہ رکھنا ہوتا تھا۔

یہ ایک ایسا رویہ ہے جس سے اب کئی مرد ناخوش ہیں۔

ایک غیر سرکاری تنظیم کیئر اینڈ پرومنڈو اور بننے سنورنے کی مصنوعات بنانے والی کمپنی ‘ڈوو مین’ جو صحت مند مردانہ اقدار کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اُن کے ایک جائزے کے مطابق سات ملکوں (برازیل، ارجینٹینا، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، ہالینڈ، اور جاپان) میں85 فیصد مرد جو ایک والد بھی ہیں کہتے ہیں کہ وہ عملی طور اپنے بچے کی دیکھ بھال کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہیں۔

لیکن ان میں زیادہ تر نے اپنے بچے کی پیدائش کے یا اُسے گود لینے کے بعد اپنی ملازمتوں سے کبھی چھٹی نہیں لی۔

انھوں اپنے ساتھیوں اور افسران کو اس کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جو ان کے خیال ایک ایسا ماحول پیدا کر دیتے ہیں جس سے انہیں ایسا لگتا ہے وہ چھٹیوں کے لیے درخواست نہیں دے سکتے۔

‘خاندانوں کو مزید مواقعے دیں’

Josh Levs takes part in a debate during the Los Angeles premiere of The Mask You Live In, a documentary about masculinity, April 2015

جوش لیوز

جوش لیوز جو عالمی سطح پر کاروبار اور صنفی برابری کے موضوع پر ایک اہم آواز سمجھے جاتے ہیں کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ تمام شواہد اس کے برعکس ہیں، افسران اب بھی مردوں کے بارے میں یہی ایک ‘بے بنیاد دقیانوسی سوچ رکھتے ہیں کہ وہ سست ہوتے ہیں اور اس میں پڑنا نہیں چاہتے ہیں۔’

لیوز کی تصانیف کا شمار اُن کُتب میں ہوتا ہے جو بہت زیادہ فروخت ہوئی ہیں اور اقوام متحدہ نے انھیں صنفی برابری کے لیے اقوام متحدہ کا سفیر مقرر کیا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ افسران اب بھی یہی محسوس کرتے ہیں کہ ایک مرد جو بچے کی پیدائش کے موقع پر چھٹیاں مانگتا ہے یا کام کے لیے ایک لچکدار ماحول کی درخواست کرتا ہے وہ چھٹیاں لے کر گھر میں ٹیلی ویژن پر سپورٹس میچ دیکھتا رہے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘ہم ایک ایسے نظام میں رہتے ہیں جو عورت کے گھر پر ٹھہرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔’

لیوز کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ اس نظام کو بدلنے کے لیے معاشرے کو نئی قانون سازی اور پالیسیوں کے بارے میں غور کرنا چاہیے، خاص طور پر ایسے ضوابط کے بارے میں جو مرد اور عورت دونوں کے لیے برابری کے مواقعوں پر اثرانداز ہوتے ہیں – اور ساتھ ہی جو روایتی صنفی کردار کو بدلنے کو معیوب سمجھتے ہیں۔

‘جب تک ہم اس معاملے کو طے نہیں کرتے ہیں ہم دفاتر میں برابری کا ماحول پیدا نہیں کر سکیں گے۔’

A woman and a man discuss plans in the office

اُن کا مزید کہنا ہے کہ یہ نظام نہ صرف لوگوں کے لیے خراب ہے بلکہ یہ کاروبار کے لیے بھی خراب ہے۔'

‘وہ کاروبار اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جن میں بہتر قابلیت والے افراد کو اُن کی قابلیت کی وجہ سے کام دیا جاتا ہے۔ ملازمین کی نصف تعداد عورتوں پر مشتمل ہوتی ہے لہٰذا امکان ہے کہ نصف مواقع ایسے ہونگے جن میں ایک عورت کسی کام کے لیے زیادہ موزوں امیدوار ہوگی۔’

لیوز مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ جن ممالک نے عورتوں کو بااختیار بنایا ہے وہ برابری کے مواقع دینے اور عدم مساوات کے مسئلے کو حل کرنے میں ‘بہتر کارکردگی پیش کر رہے ہیں۔’

‘جب ہم ایک خاندان کو یہ آزادی دیتے ہیں کہ وہ از خود یہ طے کریں کہ ان میں سے کون بچے کی دیکھ بھال کر رہا ہو گا اور کون کام کر رہا ہوگا، تب ہی کاروبار بہتر چلائے جا سکیں گے، معیشتیں بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کریں گی۔ ایسی قوموں میں کام بہتر ہوتے ہیں اور ان کے خاندان بھی زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp