پاکستان میں نجی بینکوں کی قرضہ پالیسی: سرکار کے لیے کھلیں تجوریاں لیکن عوام کے لیے شرائط کے انبار


پاکستانی کرنسی
محمد فاروق لاجسٹکس اور امپورٹ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انھیں کاروبار میں توسیع کے لیے اضافی سرمائے کی ضرورت ہوئی تو انھوں نے بینک سے قرض لینے کے لیے رجوع کیا، تاہم وہ بینک کی جانب سے طلب کی جانے والی دستاویزات اور ضمانت کے طور کوئی قیمتی اثاثہ گروی رکھنے کی شرط کو پورا نہیں کر سکتے تھے اس لیے انھوں نے بینک سے قرض لینے کے خیال کو ترک کر دیا۔

کراچی میں مقیم کاروباری فرد اور چیئرمین یونین آف سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ذوالفقار تھاور نے بتایا کہ اگر بینک نجی کاروباری افراد کو زیادہ قرض نہیں دیتے تو اس میں بینک کی شرائط کے ساتھ کاروباری افراد کی جانب سے بھی کچھ مسائل ہیں جن میں سے ایک ان کے پاس بزنس پلان کا نہ ہونا بھی ہے۔

ان کے مطابق ان سے جب بھی کہا گیا کہ وہ بینک لون حاصل کرنے میں ان کی مدد کریں تو میں ایسے افراد سے بزنس پلان کے بارے میں پوچھتا ہوں جو اکثر کیسز میں نہیں ہوتا۔

پاکستان میں بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کو کم قرضے ملنے کا رحجان ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آیا ہے جب پاکستان کے بینکوں کے پاس ڈیپازٹس (جمع ہونے والی رقم) میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اور گذشتہ برس کے اختتام تک یہ ڈیپازٹس سترہ ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گئے۔

تاہم بینکوں کے پاس اتنا خطیر سرمایہ ہونے کے باوجود وہ کاروبار اور عام افراد کو ادھار دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

’ہاٹ منی‘ کیا ہے اور شرح سود سے اس کا تعلق

پاکستان میں مہنگائی میں کمی کا فائدہ عام آدمی کو ہو گا؟

کیا چینی قرض ہی پاکستان کے اقتصادی بحران کا ذمہ دار ہے؟

پاکستان کی عوام پر بیمار معیشت کا کتنا بوجھ ہے؟

بینکوں کے نزدیک حکومت کو ادھار دینا سب سے محفوظ اور آسان ذریعہ ہے کہ جس سے انھیں معقول منافع کے ساتھ رقم ڈوبنے کا بھی خطرہ نہیں رہتا۔ بینکوں کی جانب سے آج بھی 90 فیصد ادھار حکومت کو دیا جاتا ہے جب کہ صرف دس فیصد نجی صارفین کو فراہم کیا جاتا ہے۔

اس صورت حال میں کوئی تبدیلی بھی نظر نہیں آ رہی جو گذشتہ پانچ سال کے اعداد و شمار سے ظاہر ہے۔

گذشتہ پانچ سالوں میں ڈیپازٹس کے بڑھنے کی اوسطاً شرح 14 فیصد سے زائد رہی تو دوسری جانب نجی شعبے کو قرضے دینے کی شرح میں اوسطاً دس فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

مالیاتی نظام کے ماہرین کے مطابق اگرچہ ماضی کے مقابلے میں نجی طور پر قرضے کی فراہمی میں تھوڑی سی بہتری آئی ہے تاہم یہ آج بھی حکومت کو دیے جانے والے قرضے کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔

ان کے نزدیک حکومت کو اس کے لیے سخت قوانین متعارف کرانے پڑیں گے تاکہ نجی شعبے کو قرضے کی فراہمی میں اضافہ ہو اور معاشی ترقی کو مدد مل سکے۔

بینکوں کے ڈیپازٹس کتنے بڑھے؟

پاکستان میں کام کرنے والے بینکوں کے ڈیپازٹس سال 2020 کے اختتام پر سترہ ہزار ارب سے تجاوز کر گئے۔

اگر زیر جائزہ برس کا مقابلہ 2019 سے کیا جائے تو ڈیپازٹس کی تعداد میں 22 فیصد یا تین ہزار ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ دیکھنے میں آیا جو پہلے ساڑھے چودہ ہزار ارب سے زائد تھے۔

ڈیپازٹس کی تعداد میں بڑھنے کا سلسلہ صرف گذشتہ برس تک محیط نہیں بلکہ ان میں کئی سالوں سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

2016 میں بینکوں کے پاس ڈیپازٹس کی مالیت گیارہ ہزار ارب سے کچھ زائد تھی جو 2017 میں بارہ ہزار ارب سے تجاوز کر گئی۔ یہ اضافہ دس فیصد تھا۔

اس سے اگلے سال یعنی 2018 میں ڈیپازٹس تیرہ ہزار ارب سے تجاوز کر گئے جو 2019 میں بڑھ کر ساڑھے چودہ ہزار ارب سے تجاوز کر گئے اور 2020 میں ساڑھے سترہ ہزار سے اوپر چلے گئے۔

ڈالر

ڈالر کا ریٹ روپے کے مقابلے میں بڑی تیزی سے بڑھا ہے

بینکوں کے ڈیپازٹس میں نمایاں اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان کی معیشت مشکلات کا شکار ہے اور کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاون نے اسے شدید متاثر کیا۔

تاہم کورونا وائرس نے بینکوں کے ڈیپازٹس کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے لوگوں نے اپنے اخراجات کم کیے اور اپنی بچتوں کو بینکوں میں رکھا۔

اسی طرح حج اور عمرے پر بھی پیسہ خرچ نہیں کیا جا سکا اور یہ پیسہ بھی بینکوں میں جمع ہوا۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی مقامی طور پر بینکوں کے ڈیپازٹس کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے اس مالی سال میں ریکارڈ ترسیلات زر وصول ہو رہی ہیں۔

اوسطاً دو ارب ڈالر ماہانہ کی رقوم بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ملک بھیجی جا رہی ہیں۔ یہ خطیر سرمایہ بھی بینکوں میں ڈیپازٹس کو بڑھا رہا ہے۔.

حکومت اور نجی شعبے کی جانب سے لیا جانے والے قرض میں کتنا فرق ہے؟

بینکوں کے ڈیپازٹس جو سترہ ہزار ارب سے تجاوز کر چکے ہیں اگر اس کے مقابلے میں نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضے کو دیکھا جائے تو یہ بہت کم ہے اور یہ مجموعی طور پر ڈیپازٹس کا صرف دس فیصد بنتا ہے۔

گذشتہ برس نجی شعبے کو دیا جانے والا قرضہ صرف 332 ارب تھا۔ جب کہ دوسری جانب بینکوں کی جانب سے حکومت کو دیے جانے والے قرضے کی مالیت ساڑھے گیارہ ہزار ارب روپے سے زائد رہی جو بینکوں کی جانب سے حکومتی سکیورٹیز اور بانڈز میں لگائی گئی۔ گذشتہ برس حکومت کی سکیورٹیز اور بانڈز میں بینکوں کی سرمایہ کاری 38فیصد زائد رہی۔

ڈارسن سیکورٹیز میں مالیاتی امور کے تجزیہ کار یوسف سعید نے کہا نجی شعبے کو دیا جانے والا ادھار زیادہ تر ورکنگ کیپٹل اور کاروبار میں توسیع کے مقاصد کے لیے دیا جاتا ہے اور کورونا وائرس کی وجہ سے جب سٹیٹ بینک نے ٹی ای آر ایف سکیم شروع کی تو اس میں زیادہ سہولت دی گئی۔

حکومت و نجی شعبے کو دیے جانے والے ادھار میں نمایاں فرق کیوں ہے؟

بینکوں کی جانب سے حکومت کو کیوں قرضہ دیا جاتا ہے اور نجی شعبے میں اس کی فراہمی کیوں کم ہے اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے یوسف سعید نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ تو رسک فیکٹر ہے۔

بینکوں کے نزدیک حکومت کی سکیورٹیز میں سرمایہ کاری پر جہاں منافع اچھا ملتا ہے تو دوسری جانب ان کی رقم ڈوبنے کا خطرہ نہیں ہے جب کہ نجی شعبے کو دیے جانے والے قرض میں ڈیفالٹ کا خطرہ رہتا ہے۔

بینکر منیر کمال نے اس سلسلے میں کہا بینک خاص کر بڑے بینک گورنمنٹ کو ادھار دینے میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں کہ جہاں محفوظ سرمایہ کاری کے ساتھ اچھا ریٹرن بھی حاصل ہو رہا ہوتا۔

انھوں نے کہا حکومت کی جانب سے بھی کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جاتا کہ نجی شعبے کو قرضے بڑھایا جائے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ حکومت کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ رقم بینکوں مل سکے تاکہ وہ اپنے اخراجات اور خسارے پورے کر سکے۔

انھوں نے کہا پاکستان میں ٹارگٹڈ فنانسنگ نہیں ہوتی یعنی ایک خاص شعبے کو کتنا کریڈٹ دیا جائے جب کہ اس کے مقابلے میں انڈیا میں یہ کی جاتی ہے اور اگر بینک ایسا نہ کریں تو انھیں جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

مارگیج فنانسنگ کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انڈیا میں یہ 12 سے 13 فیصد ہوتی ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس کی شرح 40 فیصد تک ہوتی ہے تاہم اگر پاکستان میں اس کو دیکھا جائے تو اس کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

کرنسی

معاشی تجزیہ کار فرید عالم خان نے بتایا کہ بینکوں کے پاس زیادہ پیسے ہونے کے باوجود وہ معیشت کی ترقی کے لیے استعمال نہیں ہو پا رہا کیونکہ زیادہ بڑا حصہ تو گورنمنٹ ادھار لیتی ہے جب کہ پرائیوٹ سیکٹر کو کم قرض جاتا ہے جو معیشت سے منسلک ہے۔

نجی شعبے کو قرض نہ دینے کا عام لوگوں اور معیشت پر کیا فرق پڑتا ہے؟

یوسف سعید نے کہا کہ نجی شعبے کو بینکوں کی جانب سے کم قرض دینے کی شرح معیشت کے لیے ایک منفی رجحان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کو دیا جانے والا قرض معاشی سرگرمی سے منسلک ہوتا ہے۔

’اگر ان زیادہ قرض جا رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کاروبار میں توسیع یا نیا کاروبار شروع کیا جارہا ہے جو معاشی سرگرمیوں کو فروغ دے اور اس کا براہ راست اثر ملکی معشیت پر پڑتا ہے۔ جب نئی کاروباری سرگرمی شروع ہو رہی یا یا اس میں توسیع ہو تو یہ نئی ملازمتوں کو بھی پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے جو ملکی آبادی کے لیے ایک مثبت رجحان ہوتا ہے۔‘

یوسف نے کہا کہ نجی شعبے میں زیادہ قرض ملکی معیشت اور عام افراد دونوں کے لیے مثبت ہوتا ہے اور کم قرض اس کے مقابلے میں معاشی سرگرمی کو گھٹائے گا جو نئی ملازمتوں کو پیدا کرنے کی بجائے پہلے سے موجود ملازمتوں کو بھی ختم کر سکتا ہے۔

فرید عالم کے مطابق بینکوں کی جانب سے فراہم کیا جانے والا قرضہ کاروباری اداروں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور ان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔

انھوں نے کہا کہ نجی شعبے کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ایک عام آدمی کے لیے اس سے مفید ہوتا ہے کہ یہ زیادہ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرتا ہے۔

کیا نجی شعبے کو زیادہ ادھار دینے کا امکان ہے؟

ذوالفقار تھاور نے اس پر کہا بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کو زیادہ قرض دینے کے لیے ہم نے تجاویز دی ہیں کہ بینک ’رسک مینجمنٹ سسٹم‘ وضع کریں ۔

اس کے تحت قرض کے بدلے کوئی قیمتی اثاثہ گروی رکھنے کی بجائے جو مشینری یا زمین کاروبار کے لیے لی جا رہی ہے اسے بطور ضمانت رکھ لیا جائے۔

نجی شعبے کو بینکوں کی جانب سے دیا جانے والا ادھار اگرچہ اس وقت حکومت کی جانب سے لیے جانے والے ادھار سے بہت زیادہ کم ہے تاہم اس میں اضافے کا امکان بھی موجود ہے۔

عارف حبیب سیکورٹیز کے ڈائریکٹر احسن محنتی نے بتایا کہ پہلے ڈیماند کم تھی اور اس کے ساتھ شرح سود بھی زیادہ تھی لیکن اب کارپوریٹ ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے تو نجی شعبے میں زیادہ رقم جانےکا امکان ہے۔

منیر کمال نے کہا کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے کچھ اقدامات کی وجہ سے نجی شعبے کو زیادہ ادھار ملنے کی توقع ہے ۔

انھوں نے کہا اس میں ایک بڑی وجہ تو شرح سود میں کمی ہے کہ جہاں سستے قرضے ملیں گے تو اس کو لوٹانے کی استعداد بھی ہو گی اور ڈیفالٹ ہونے کا چانس کم ہو گا تو دوسری جانب حکومت نے مارگیج فنانسگ کی بھی اجازت دی ہے جو نجی شعبے کو رقم فراہم کرنے میں مدد گار ثابت ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp