خوابوں سے جنگ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے


کچھ برس پہلے انڈیا جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ امرتسر سے گزریں اور ’ہرمندر صاحب‘ نہ جائیں؟ ’ہرمندر صاحب‘ پہنچے، عام طور پہ عبادت گاہیں بلندی پہ واقع ہوتی ہیں لیکن ’ہرمندر صاحب‘ جانے کے لیے سیڑھیاں، بلندی سے ڈھلان کی طرف ہیں۔ جیسے اپنی ذات میں سفر کے مدارج ہوں۔

پانی کے تالاب کے بیچوں بیچ ’ہرمندر صاحب‘ کی پرشکوہ عمارت تھی۔ وہاں کھڑے کھڑے مجھے ایک عجیب احساس ہوا۔ میں نے وہاں خالصتان کے بھوت کو دیکھا۔ مجھے آپریشن بلیو سٹار یاد آیا اور ساتھ ہی جلیانوالہ باغ کا قتل عام۔ یوں لگا جیسے میرے چاروں طرف ان ہزاروں لوگوں کی روحیں موجود ہیں جو ان واقعات میں مار دیے گئے تھے۔

ظاہر ہے کہ وہم ہی تھا۔ عبادت گاہوں کی فضا میں پاکیزگی کی ساتھ ایک دہشت بھی ہوتی ہے۔ انسانوں کو ادب، محبت سکھانے اور ایک لڑی میں پرو دینے والی طاقت، مذہب سے بڑھ کر شاید کوئی بھی نہیں۔

لیکن جو کیفیت میں نے ہر مندر صاحب میں محسوس کی وہ کچھ اور ہی تھی۔ طوفان سے پہلے کے سکوت کی کیفیت۔ کچھ بھی درست نہیں تھا۔ قالین کے نیچے جانے کیا کیا چھپا یا گیا تھا؟

پچھلے ماہ جب انڈیا میں کسانوں کی تحریک چلی اور چلتے چلتے بات یہاں تک پہنچی کہ لال قلعے پہ مبینہ طور پہ ترنگے کے ساتھ خالصتان کا پرچم لہرا دیا گیا۔

اب خواہ وہ سکھ پنتھ کا پرچم ہو لیکن ’خالصتان فوبیا‘ نے اسے خالصتان کا پرچم بنا کے دکھایا۔ انڈین میڈیا ایک دلچسپ جگہ ہے۔ یہاں جس شے کی ،جتنے زور و شور سے مذمت کی جاتی ہے، اسی قدر وہ شے اہم ہوتی چلی جاتی ہے۔

کسانوں کی تحریک، بہرحال خالصتان کی تحریک نہیں تھی، اس میں بہت سے علاقوں کے مختلف مذاہب کو ماننے والے کسان نظر آ رہے تھے لیکن کیا کیا جائے خالصتان کے بھوت کا۔ ہمیں نظر آیا تو ہم چپ سادھ کے بیٹھے رہے لیکن ریحانہ کی ٹویٹ نے بھس میں چنگاری پھینک دی۔

ایسی چنگاریاں، ایندھن نہ ملنے پر بجھ جاتی ہیں لیکن یہاں اس آگ کو پھونکیں مارنے والے بھی ہیں اور وافر ایندھن بھی میسر ہے۔ مودی کا انڈیا دائیں بازو کے شکنجے میں ہے اور ایسے میں جو نہ ہو جائے کم ہے۔

خالصتان ایک خواب ہے اور خواب کی حکمرانی میں بڑا تسلسل ہوتا ہے۔ یہ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خواب جینیاتی یادداشت کا حصہ ہوتے ہیں۔

تو صاحبو! خوابوں اور بھوتوں سے جنگ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں ناانصافی کی جائے، بےجا خون بہایا جائے اور خوابوں کو کچلا جائے، وہاں یہ بھوت منڈلاتے رہتے ہیں۔ خواب دیکھنے والے یہ خواب، اگلی نسلوں کو دے جاتے ہیں اور وہ اگلی نسلوں کو۔

خالصتان کا باب، جسے انڈیا نے بڑی مشکل سے بند کیا تھا اگر دوبارہ کھلتا ہے تو خطے کی ساری سیاسی صورت حال تبدیل ہو جائے گی۔ آج نہ 80 کی دہائی کے حالات پاکستان میں ہیں اور نہ ہی انڈیا میں۔ سکھ کمیونٹی، کینیڈا، امریکہ اور یورپ میں بھی موجود ہے اور اگر یہ آگ پھیلی تو بہت کچھ خاکستر کر دے گی۔

آج سکھ ماضی کی نسبت بہت مضبوط ہیں اور ماضی کی طرح آج بھی بہت متحد ہیں۔ یہ اتحاد اور مضبوطی، خالصتان جیسی تحریک کے زور پکڑنے کے لیے گویا خام مال ہے۔

کسانوں کے مطالبات مان کر اگر یہ محاذ یہیں بند کر دیا جائے تو بہتر ہے۔ اسے خالصتان تحریک سے جوڑنے سے بات بگڑ جائے گی۔ کسانوں میں تو پھوٹ پڑ جائے گی لیکن ایک دبی ہوئی چنگاری کو بھڑکانے کا مقصد مجھے سمجھ نہیں آ رہا۔

ہمارا ملک ہوتا تو آرام سے سب کچھ ’ان‘ کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا۔ انڈیا میں تو ’وہ‘ بھی نہیں ہوتے پھر وہاں یہ ’چولیں‘ کون مارتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).