نریندر مودی اور تاریخ کا سبق


ہزاروں کسان اور مزدور دعوت عام میں شرکت کے لئے ملک کے تمام کونوں سے سفر کر کے وہاں پہنچے تھے۔ آج وہاں آنے والے عوام کو حکومت کی طرف سے مفت کھانا اور تحائف دیے جانے تھے۔ میدان میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہ تھی۔ اچانک شور اٹھا اور بھگدڑ مچی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے میدان کو لپیٹ میں لے لیا۔ پولیس کے چند سو اہلکار لوگوں کا نظم و ضبط برقرار رکھنے میں مکمل ناکام رہے۔ سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے اور محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 1400 لوگ لقمۂ اجل بنے۔ یہ 30 مئی 1896 کا دن تھا۔ روسی تاریخ میں اسے خوڈنیکا ٹریجڈی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

26 مئی 1896 کے روز رومانوو خاندان کا آخری حکمران نکلس دوم زار روس یعنی بادشاہ کے منصب پر فائز ہوا۔ نئے بادشاہ کی تاج پوشی کی خوشی میں چار روز بعد خوڈینکا کے میدان میں دعوت عام کا اعلان کیا گیا۔ لوگوں کی تعداد توقع سے بہت زیادہ تھی۔ لگ بھگ پانچ لاکھ لوگ اپنے بادشاہ کی تاج پوشی کا جشن منانے ماسکو آئے تھے۔ شرکاء میں افواہ پھیلی کے کھانا اور تحائف کم پڑ گئے ہیں ، یہ سننا تھا کہ ایسی بھگدڑ مچی جو سینکڑوں لوگوں کی جانیں نگل گئی۔

سینکڑوں لوگوں کی ہلاکت کے باوجود شاہی جشن جاری رہا۔ نکلس دوم دنیا و مافیا سے بے خبر اقتدار اور ووڈکا کے نشے میں چور خوشیاں مناتا رہا۔

اس واقعے کی بنا پر وہ تاریخ میں خونی نکلس یا بلڈی نکلس کے نام سے مشہور ہوا۔ وہ 15 مارچ 1917 تک روس کا حکمران رہا۔ اس دوران غربت اور افلاس  نے روس میں کئی انقلابی تحریکوں نے جنم دیا جو بالشویک انقلاب کا موجب بنیں۔ جو خالصتاً مزدوروں اور کسانوں کی تحریکیں تھیں۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ مزدوروں اور کسانوں کی موت پر جشن منانے والے خونی نکلس اور اس کا خاندان اپنے ہی عوام کے ہاتھوں نشانہ عبرت بنے۔ انقلابی فوج نے آخری زار روس کو اس کے خاندان سمیت گرفتار کر لیا اور 17 جولائی 1918 کو انہیں سزائے موت دے دی گئی۔

26 جنوری کو بھارت میں یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے کیونکہ اس روز ملک کا آئین اپنایا گیا تھا۔ اسی روز پچھلے دو ماہ سے مودی گورنمنٹ کے کالے قوانین کے خلاف احتجاج کرتے ہزاروں کسانوں نے دہلی میں ٹریکٹر پریڈ کا اعلان کر رکھا تھا۔

ایک طرف دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت کی فاشسٹ مودی حکومت 72 واں یوم جمہوریہ منا رہی تھی اور دہلی کے راجپاتھ یا انڈیا گیٹ پر ترنگا لہرایا جا رہا تھا جبکہ دوسری طرف یہاں سے 6 کلومیٹر دور لال قلعے پر سکھوں کا مذہبی نشان کیسریا پرچم بلند کیا جا رہا تھا۔

بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ریاستی سرپرستی میں کیے جانے والے مظالم کوئی نئی بات نہیں۔ بلڈی مودی نے بطور وزیراعلیٰ 2002 میں ہزاروں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے ، جس وجہ سے ان کے امریکہ داخلے پر پابندی لگائی گئی۔ کشمیر کی خودمختار حیثیت کو ختم کر کے کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کی بات ہو یا لاکھوں مسلمانوں کو شہریت کے حق سے محروم کرنے کا بل ہو، مودی اور امت شاہ کا نام تاریخ میں فاشسٹ کے طور پر لکھا جائے گا۔

2020 میں سرمایہ داروں کو خوش کرنے کیلے مودی حکومت نے نام نہاد زرعی اصلاحات کے قوانین منظور کیے جن پر عمل درآمد کے بعد منڈیاں اور مِنی مم سپورٹ پرائس ختم کر دی جائے گی اور کسانوں کو نجی کارپوریٹ کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔

نہتے کسان شدید سرد موسم میں پچھلے دو ماہ سے ان قوانین کو ختم کروانے کیلے دہلی کے بارڈر پر دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ حکومت اور کسان اتحاد کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے مگر ہٹ دھرمی پر قائم مودی حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ کسانوں نے بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹریکٹر ریلی کے انعقاد اور لال قلعہ تک مارچ کا اعلان کر رکھا تھا مگر فاشسٹ مودی حکومت نے دہلی میں داخل ہونے اور اپنے جمہوری حق کے استعمال سے روکنے کے لئے پرامن اور نہتے کسانوں کے خلاف طاقت کا بھر پور استعمال کیا۔ بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو بلا تفریق تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس میں سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے اور ایک کسان کی موت بھی ہوئی۔ اس کے باوجود وہ دہلی میں داخل ہوئے اور لال قلعے پر کیسریا پرچم لہرایا۔ کسان اتحاد نے پریڈ تو ختم کر دی لیکن کسان دشمن قوانین ختم کرنے تک احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

تحریک کو انٹرنیشنل میڈیا نے کور کیا مگر فاشسٹ حکومت کے گودی میڈیا نے نہتے کسانوں کو آتنگ وادی قرار دیا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے عوام ظلم کے خلاف ڈٹے ہوئے ان تمام کسانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہیں اور انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔

لندن سے نیویارک تک دنیا کے تمام بڑے شہروں میں مودی حکومت کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے مگر انٹرنیشنل کمیونٹی کی مجرمانہ خاموشی تشویش ناک ہے۔ کسان بھائی اپنی جدوجہد جاری رکھیں، ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ظلم کا سورج غروب ہو گا۔

طاقت کے غرور میں اقلیت دشمن پالیسیوں پر عمل پیرا بلڈی مودی شاید یہ نہیں جانتے کہ عوامی لہو سے سینچا گیا تخت شاہی، تختہ دار میں بدلتے دیر نہیں لگتی، جب عوامی تحریکیں جنم لیتی ہیں تو وہ 300 سال سے حکمران رومانوو خاندان کے چشم و چراغ کو محل سے نکال کر پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).