سینیٹ انتخاب عمران خان کا ڈراؤنا خواب بن چکا ہے


شاہ محمود قریشی کی بات مانیں تو حکومت دو وجہ سے اوپن ووٹنگ کے ذریعے سینیٹ انتخاب کروانے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔ ایک یہ کہ حکومت ملکی آئین کی حفاظت کرنا چاہتی ہے۔ سینیٹ کے ’شفاف‘ انتخابات کے ذریعے اس بات کویقینی بنایا جائے گا۔ دوسری وجہ بہت ہی دلچسپ ہے۔ وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ملتان کے مخدوم کا دعویٰ ہے کہ یہ کوشش مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں 2006 میں طےپانے والے میثاق جمہوریت کے مقاصد کی تکمیل کے لئے کی گئی ہے۔ اسی لئے ان دونوں پارٹیوں کو پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کے ذریعے سینیٹ انتخاب اوپن بیلیٹ کے ذریعےکروانے کی آئینی ترمیم میں تعاون کرنا چاہئے۔

تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ حکومت نے سینیٹ انتخابات سے چند ہفتے قبل جس بدحواسی کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ عمران خان کا اپنی پارٹی اور حلیف جماعتوں کے ارکان اسمبلی پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ اگر سینیٹ انتخاب موجودہ آئینی طریقہ کے مطابق ہوگئے تو ان کے اپنے حامی ہی دراصل ’خفیہ ووٹنگ‘ میں پارٹی ہی کے امید واروں کے خلاف ووٹ دے آئیں گے۔ اس طرح عوامی مقبولیت اور اپنی صفوں میں سیاسی اتحاد کے دعوؤں کا پول کھل جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں جو کام پاکستان جمہوری اتحاد بعینہ ان ہی وجوہات یعنی داخلی انتشار و اختلاف کی وجہ سے نہیں کرسکا ، وہی کام سرکاری جماعتیں خود اپنے ہاتھوں سے سرانجام دے لیں گی۔ یہی وجہ ہے موجودہ اسمبلیوں میں واضح اکثریت کے باوجود موجودہ طریقہ کے مطابق سینیٹ انتخاب عمران خان کے لئے ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔

عمران خان اور تحریک انصاف کی تشویش یوں بھی ’حقیقی یا حقیقت پسندانہ‘ ہے کہ وہ یہ ہتھکنڈا خود 2019 میں سینیٹ کے موجودہ چئیرمین صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے میں استعمال کر چکی ہے۔ مشترکہ اپوزیشن جسے سینیٹ میں تقریباً دو تہائی ارکان کی حمایت حاصل ہے، صادق سنجرانی کو چئیرمین کے عہدہ سے ہٹا کر ان کی جگہ مرحوم سینیٹر میر حاصل خان بزنجو کو ایوان بالا کا چئیرمین بنوانا چاہتی تھی۔ موجودہ ایوان میں اگرچہ حکومت اور اس کی حلیف پارٹیوں کو صرف 36 سینیٹرز کی حمایت حاصل ہے لیکن یکم اگست 2019 کو صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد تحریک پر ووٹنگ سے محض ایک روز پہلے عمران خان نے پر اعتماد لہجے میں حکومتی کامیابی کا اعلان کیا تھا۔ سینیٹ میں جب عدم اعتماد کی قرار داد پیش کی گئی تو 64 سینیٹرز نے کھڑے ہو کر اس کی حمایت کی لیکن جب آئینی طریقے کے مطابق خفیہ رائے دہی کے ذریعے سینیٹرز کی رائے لی گئی تو عمران خان کا ’اعتماد‘ درست ثابت ہؤا۔ قرار داد کی حمایت میں صرف پچاس ووٹ نکلے۔ صادق سنجرانی محض تین ووٹوں کی کمی کی وجہ سے ملکی تاریخ میں وہ پہلے چئیرمین سینیٹ نہ بن سکے جن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی آئی اور وہ کامیاب بھی ہوگئی۔

اپوزیشن کے جن 14 سینیٹرز نے پارٹی لائن اور زبانی اعلان کے برعکس خفیہ بیلیٹ میں صادق سنجرانی کی حمایت میں ووٹ دیا، ان کے بارے میں یا تو وہ خود جانتے ہیں یا ان لوگوں کو اس کی خبر ہوگی جو جادو کی چھڑی گھما کر نتائج تبدیل کروانے میں ید طولی رکھتے ہیں۔ اس طریقہ سے مستفید ہونے والے صادق سنجرانی نے تو اسی وقت بتا دیا تھا کہ وہ اپوزیشن کے ’ان دوستوں‘ کے مشکور ہیں جنہوں نے ان کے حق میں ووٹ دیا لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ کون شریف لوگ تھے جو فرشتے بن کر ان کی مدد کے لئے آئے تھے۔ عمران خان کو چونکہ صادق سنجرانی کے معاملہ میں اپنی حکومت کی کامیابی کا یقین تھا، اس لئے ہوسکتا ہے کہ وہ ان پر اسرار سینیٹرز کو جانتے ہوں لیکن انہوں نے کبھی یہ اعلان نہیں کیا کہ سینیٹرز بھی کسی اہم معاملہ میں ووٹ دینے کے لئے ’ووٹ فروشی‘ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ البتہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان پر مسلسل یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ان میں سے بہت سے کروڑوں روپے رشوت لے کر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیتے ہیں۔ اسی لئے وہ سینیٹ انتخاب کو شفاف بنانے کے لئے شدید بے چین ہیں۔

اسی بے چینی کو دور کرنے کے لئے گزشتہ روز صدر مملکت عارف علوی نے ایک آرڈی ننس جاری کیا ہے جس میں یہ الیکشن قواعد تبدیل کرتے ہوئے سینیٹ انتخاب میں اوپن بیلیٹ کا حکم دیا گیا ہے۔ فوری طور سے نافذ ہونے والے اس آرڈی ننس میں یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ انتخاب کے بعد الیکشن کمیشن کسی پارٹی کے لیڈر یا اس کے نمائیندے کی فرمائش پر ووٹوں کی تفصیلات فراہم کرنے کا پابند ہوگا۔ حکومت کو یقین ہے کہ سینیٹ انتخاب کا طریقہ ایک آرڈی ننس کے ذریعے انتخابی ضابطوں میں رد و بدل سے حل کیا جا سکتا ہے اور اس کےلئے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔

کابینہ کے اجلاس میں یہ آرڈی ننس جاری کرنے کا فیصلہ ہونے سے محض ایک روز پہلے ہی قومی اسمبلی کا اجلاس صدر مملکت کے حکم پر غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا گیا تھا۔ 3 فروری کو حکومت نے قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا تھا جس کا مقصد سینیٹ انتخاب کے طریقہ کار میں تبدیلی ہے۔ اس بل پر اپوزیشن نے حسب توقع بہت ہنگامہ کیا۔ یوں ایک روز بعد ہی اجلاس ملتوی کرکے ’آپشن نمبر 2‘ کی طرف پیش قدمی کی گئی۔ یعنی کابینہ نے آرڈی ننس کے ذریعے اپوزیشن کی ہٹ دھرمی کا جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ ابھی اس خبر کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ صدر مملکت نے یہ ’اطمینان‘ کرلینے کے بعد کہ اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے کی وجہ سے آرڈی ننس جاری کرنا ناگزیر ہو چکا ہے، صدارتی اختیار کے تحت سینیٹ انتخاب کو اوپن ووٹنگ سے کروانے کا آرڈی ننس جاری کردیا تاکہ وزیر اعظم اس سیاسی پریشانی سے نجات پا لیں کہ مارچ میں متوقع سینیٹ انتخابات میں کہیں حکمران پارٹی کو لینے کے دینے نہ پڑجائیں اور بنا بنایا سیاسی بھرم خاک میں مل جائے۔

اس کھینچا تانی میں البتہ ایک اڑچن آن پڑی۔ معاملہ طے کروانے کی عجلت میں حکومت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرچکی ہے جس میں عدالت عظمیٰ سے پوچھا گیا ہے کہ کیاحکومت کو انتخابی قانون میں تبدیلی کے ذریعے سینیٹ انتخاب کا طریقہ تبدیل کرنے کا اختیار حاصل ہے اور اس کے لئے آئینی ترمیم ضروری نہیں ہے۔ قباحت صرف یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملہ پر کارروائی کا آغاز کر دیا ہے لیکن ابھی کوئی رائے نہیں دی۔ یعنی ملک کی سپریم کورٹ نے حکومت کو یہ گرین سگنل نہیں دیا کہ وہ مرضی کے طریقہ سے سینیٹ انتخاب کروانے کے لئے قانون سازی یا آرڈی ننس کا استعمال کر لے۔ اور اس کے لئے آئینی ترمیم ضروری نہیں۔ اب یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ میں زیر غور ایک معاملہ پر آرڈی ننس جاری کرنا کیا ’توہین عدالت‘ کے زمرے میں تو نہیں آئے گا؟ اگرچہ صدر مملکت نے اس کا تدارک کرنے کے لئے اپنے جاری کردہ آرڈی ننس میں اس شق کا اضافہ کر دیا ہے کہ یہ آرڈی ننس سپریم کورٹ کی مثبت رائے آنے کی صورت میں ہی سینیٹ انتخاب کا طریقہ تبدیل کرسکے گا۔

اپوزیشن نے ابھی یہ نکتہ تو نہیں اٹھایا کہ سپریم کورٹ میں ریفرنس کے بعد عجلت میں آرڈی ننس جاری کرنا کس حد تک عدالت عظمی پر ’عدم اعتماد‘ کا اظہار ہے جسے دوسرے لفظوں میں توہین عدالت بھی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے اسے سپریم کورٹ پر’ دباؤ ڈالنے کا ہتھکنڈا‘ ضرور قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حکومت سپریم کورٹ پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ اس کے حق میں ہی رائے دے۔ پیپلز پارٹی ہی کے سینیٹر اور سینیٹ کے سابق چئیرمین رضا ربانی نے تو سینیٹ انتخاب کے لئے آرڈی ننس کے اجرا کو ’آئینی بحران‘ پیدا کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ یہ کابینہ نابینا ہے جو آئین بھی نہیں پڑھ سکتی‘۔ ان کے خیال میں ایک آئینی معاملہ میں صدارتی آرڈی ننس جاری کر کے حکومت نے اپنے ہاتھوں سے آئینی بحران پیدا کیا ہے۔

چند دنوں یا ہفتوں میں یہ واضح ہوجائے گا کہ سپریم کورٹ حکومت کی امیدوں پر پورا اترتی ہے یا اسمبلیوں کے ارکان کو اپنے ’ضمیر‘ کی آواز کے مطابق خفیہ ووٹنگ کے ذریعے سینیٹرز چننے کا طریقہ بحال رکھنے کا مشورہ دیتی ہے تاآنکہ پارلیمنٹ کی اکثریت اپنے حق و اختیار کے مطابق آئینی ترمیم کے ذریعے اس طریقہ کو تبدیل نہ کرلے اور معترضین کے علاوہ الیکشن کمیشن کو مطمئن کردے۔ ترمیم کی رادھا کو نچوانے کے لئے ابھی حکومت کے پاس نو من تیل کا انتظام نہیں ہے۔ اس کے لئے جس افہام تفہیم اور پارلیمانی تہذیب و تمدن کی ضرورت ہے، موجودہ حکومت اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔

شاہ محمود قریشی حکومت کی اس مجبوری کو اپوزیشن کے گلے کا پھندا بنانے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی لئے بڑی عرق ریزی سے انہوں نے میثاق جمہوریت سے ایسی شقات تلاش کی ہیں جن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اس اصول پر اتفاق کیا تھا جسے نافذ کرنے کے لئے عمران خان اور ان کی حکومت اب بے چین ہے۔ تاہم سیاست میں طویل تجربہ رکھنے کے باوجود شاہ محمود یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت پر عمل کیا ہوتا تو انہیں اب  پی ڈی ایم بنا کر عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنے کی منصوبہ بندی نہ کرنا پڑتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali