ایران، امریکہ جوہری معاہدہ: امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی خاطر تجارتی پابندیوں کو ختم نہیں کیا جائے گا


بائیڈن، امریکہ، ایران
امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ ایران پر عائد تجارتی پابندیوں کو اس وقت تک نہیں ہٹایا جائے گا جب تک وہ سنہ 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کی شرائط کو پورا نہیں کرتے۔

انھوں نے یہ بات اتوار کو سی بی ایس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی ہے۔

ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ تہران صرف اس شرط پر سنہ 2015 کے جوہری معاہدے کی تعمیل کرے گا اگر امریکہ اس پر عائد تجارتی پابندیوں کو ختم کرے۔

یہ بھی پڑھیے

ایران نئے امریکی صدر جو بائیڈن سے کیا چاہتا ہے؟

کیا امریکہ کا ’بدلتا رویہ‘ سعودی عرب کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے؟

جو بائیڈن کی نئی انتظامیہ کو مشرق وسطیٰ میں کن مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے؟

سنہ 2015 میں صدر اوباما کے دور میں امریکہ اور ایران کے درمیان ایرانی جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے بعد ایران پر عائد تجارتی پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ

مگر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2018 میں اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کر کے ایران پر دوبارہ جوہری پابندیاں عائد کر گئی تھیں۔ اس طرح ایران نے بھی معاہدے کی تعمیل کو روک کر یورینیم کی افزودگی شروع کر دی تھی۔

ایران کے مطابق اس کا جوہری منصوبہ پُرامن ہے۔ تاہم اطلاعات کے مطابق اس نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اجازت سے کہیں زیادہ یورینیئم کی افزودگی شروع کر دی تھی۔ یورینیئم کی افزودگی کو جہاں ایک ری ایکٹر کے ایندھن کے طور پر استعمال کر کے اس سے توانائی پیدا کی جا سکتی ہے وہیں اس سے نیوکلیئر بم بھی بنایا جا سکتا ہے۔

ایران، امریکہ جوہری معاہدہ ختم کیوں ہوا؟

سنہ 2015 کے جوہری معاہدے میں ایران، امریکہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ شریک تھے۔ تہران نے یورینیئم کی افزودگی کو محدود کرنے کی حامی بھری تھی اور بین الاقوامی نگراں اداروں کو اجازت دی تھی کہ وہ ایرانی تنصیبات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

اس کی بدولت ایران پر عائد تجارتی پابندیاں ختم کر دی گئی تھیں۔

لیکن ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ نے یہ معاہدہ ختم کر دیا تھا۔ ایران پر نئی معاشی پابندیاں عائد کی گئی تھیں تاکہ ایران کے ساتھ ایک نیا معاہدہ طے کیا جا سکے۔ اسے جوائنٹ پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کہا گیا تھا۔

ٹرمپ تہران کے جوہری منصوبے کو مزید محدود کرنا چاہتے تھے اور اس کی جانب سے بیلسٹک میزائل کے منصوبے کو بھی روکنا چاہتے تھے۔

ایران نے اس سے انکار کر دیا تھا۔ جولائی 2019 میں ایران نے یورینیئم کی افزودگی کی 3.67 فیصد کی حد سے تجاوز کیا تھا اور رواں سال جنوری میں یورینیئم کی 20 فیصد تک افزودگی جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ ہتھیاروں کے لیے یورینیئم کا 90 فیصد خالص ہونا ضروری ہوتا ہے۔

اتوار کو اس انٹرویو کے ایک چھوٹے کلپ میں بائیڈن سے پوچھا جاتا ہے کہ آیا امریکہ ایران سے مذاکرات کے لیے پہلے معاشی پابندیاں ختم کریں گے۔ انھوں نے ’نہیں‘ کا جواب دیا تھا۔

ایران سے متعلق بائیڈن کی پالیسی کیا ہو گی؟

اتوار کو ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والے اپنے بیان کے مطابق علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایران صرف اس صورت میں معاہدے پر واپس آئے گا کہ اگر امریکہ تمام پابندیوں کو ختم کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اس کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ آیا نیک نیتی کے ساتھ اس پر عمل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہم اپنے عہد پر واپس آ جائیں گے۔‘

’یہ ناقابل واپسی اور آخری فیصلہ ہے اور تمام ایرانی اہلکاروں نے اس پر اتفاق کیا ہے۔‘

بائیڈن نے اور کیا کہا؟

صدر بائیڈن نے امریکہ اور چین کے تعلقات پر بھی بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ واشنگٹن بیجنگ کے ساتھ براہ راست کسی جھگڑے میں دھکیلا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین عالمی معاشی سطح پر ’سخت مقابلہ‘ کریں گے۔

بائیڈن نے کہا کہ انھوں نے گذشتہ ماہ صدر بننے کے بعد سے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے تاحال بات نہیں کی۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے بیجنگ کے حوالے سے اپنا مؤقف تبدیل نہیں کیا۔

بائیڈن نے شی جن پنگ سے متعلق کہا کہ ’وہ بہت عقل مند ہیں۔۔۔ ان کے جسم میں کوئی جمہوری ہڈی نہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp