آبادی اور انتہا پسندی کے مہیب سائے


\"\"

کیا آپ نے کبھی انسانی نفسیات کے اس پہلو پر غور کیا ہے کہ کچھ ممالک میں شہریوں کا جذباتی استحصال آسان کیوں ہوتا ہے؟ وہاں جو بھی لال بجھکڑ اپنی جہالت کاپرچم بلند کرتا ہے، اسے اپنے حصے کا بیکراں جانثار ریوڑ اتنی آسانی سے کیوں میسر آ جاتا ہے؟

پہلے بھی عرض کیا تھا اوربارِ دگر عرض ہے کہ دنیاکے جن معموروں میں آبادی ریاستی منصوبہ بندی کے تحت بڑھتی ہے، سوچ کی آزادی ہے، ہر کسی کے لیے علم و تحقیق کے در وَا ہیں، انصاف، بنیادی حقوق، روزگار اور تفریح کے مواقع یکساں طور پر ارزاں ہیں، ریاست کے انتظام وانصرام میں مذہب کا دخل نہیں، وہاں شہریوں کو اپنی اور دوسروں کی زندگیوں سے پیار ہوتا ہے۔ وہاں جہالت اور انتہا پسندی کوئی مقام حاصل کر سکتی ہے، نہ لاقانونیت اور قتال و جدال پنپ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس جن ممالک میں آبادی بے ہنگم طریقے سے بڑھتی ہے، سوچ اور علم و آگہی کے دریچے مقفل ہیں، صحت و تعلیم کی سہولتیں عنقا ہیں، انصاف، بنیادی حقوق، روزگار او ر تفریح کے مواقع خواب ہیں یاریاست کا کوئی خاص مذہب ہے، وہاں فرد کو دوسروں تو کیا، خود اپنی زندگی کی بھی کم ہی پرواہ ہوتی ہے۔ ایسی سر زمینوں میں لوگوں کی مذہبی وابستگی میں ہیجان اوراشتعال کے انگارے بھر کر انتہا پسندی، لاقانونیت اور قتل و غارت کو فروغ دینا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہتا۔

دور کیا جانا، خود اپنے گھر ہی کو دیکھ لیں۔ یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک بن گیا ہے۔ صحیح بم تو مردم شماری کے بعد ہی پھٹے گا، تاہم پاپولیشن کونسی کہتی ہے کہ اگر یہی 1.95 فیصد شرح پیدائش برقرار رہی تو 2050ء میں ہم چونتیس کروڑ ہو جائیں گے۔ پچھلے برس یونیسکو نے اپنی گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ میں کہا تھاکہ پاکستان 2000ء سے 2015ء تک پندرہ سالوں میں تعلیمی پروگرام کا کوئی بھی ہدف پورانہ کر سکا۔ بجا، لیکن گزشتہ پندرہ برس کے دوران شہری اور دیہی آبادیوں کے پھیلاؤ کے ’’ہدف‘‘ پر بھی تو ایک نظر ڈالیے۔ چاروں سمت آبادی وہاں تک پہنچ گئی ہے کہ زمین بھی تنگ ہونے لگی ہے۔ ہماری شرح خواندگی جنوبی ایشیاء میں سب سے کم یعنی 57 فیصد ہے۔ ملک عزیز کا شمار دنیا کے ان 9 ممالک میں ہوتا ہے جوتعلیم پر سب سے کم خرچ کرتے ہیں۔ دنیا کی 700بہترین یونیورسٹیوں کی لسٹ کو چھوڑئیے، ایشیاء کی 100اچھی جامعات میں سے ہماری ایک بھی نہیں۔ اقوام متحدہ کی گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ 2016ء کہتی ہے کہ وطن عزیز تعلیم کے میدان میں دیگر ممالک سے پچاس برس پیچھے رہ گیا ہے۔

اس ماہ کے آغاز میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ میں بتایا گیا کہ ہماری پچاس فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور بے روزگاری اور مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہاں تیس فیصد لوگ ذہنی مریض ہیں، جو 2020ء تک دو گنا ہوجائیں گے۔ جبکہ ایسے بیس لاکھ مریضوں کے لیے ایک ڈاکٹر ہے۔ انصاف کے لئے یہاں نسلیں رلتی ہیں اورکیا ستارہ چمکا ہے ہمارے بخت پر کہ یہاں سکول جانے کی عمر کے بچوں کی نصف تعداد یعنی اڑھائی کروڑ نونہال سکولوں سے باہر ہیں۔

یہ نونہال کیا کرتے ہیں، یہ ناخواندہ اور نیم خواندہ شہری کس کام آتے ہیں، ان بے روزگار اور مہنگائی کے ماروں کا شغل کیا ہے، ان خطِ غربت سے نیچے رینگنے اورانصاف کے لئے رلنے والوں کی مصروفیات کیا ہیں، یہ تیس فیصد ذہنی مریض کس مشن پر ہیں اور اس کراں تابہ کراں پھیلتی آبادی کا عفریب کیا گل کھلاتا ہے بھلا؟ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ سب معاشرے میں اپنامثبت کردار ادکرتے ہیں؟ نہیں، یہ سب تیز رفتاری سے بڑھتی انتہا پسندی کے ایندھن ہیں جو مخالف نقطہ نظر رکھنے والے اپنے ہی ہم وطنوں پر عرصہ حیات تنگ کرتے ہیں اور نادانستہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے جہنم نما معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں۔ ان محروم، نابلد اور دنیا سے بے خبر لوگوں کے غول بیابانی کے ناپختہ اذہان کو کوئی بھی شعبدہ باز اپنی کم علمی کی آتش بیانی سے مہمیز کر کے ان کا جذباتی استحصال کرتا ہے اور اپنے حصے کی بھیڑبکریاں اپنے پیچھے لگا لیتا ہے۔ وہ عدم برداشت اور دنگا فساد کا تنور گرم کر کے اپنی روٹیاں لگاتا ہے اور ہم سادہ لوح ان تنوروں میں لکڑیوں کی جل کر، خود کو رکھ کر کے اسے گرم کرتے ہیں۔ یہ زہر اس حد تک پھیل چکا ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے میں ایسے پڑھے لکھے اور برسرِ روزگار بھی موجود ہیں جو اپنے سیاسی نظریات یامذہبی عقائد پر اختلاف رائے رکھنے والوں سے دست و گریباں اور گالم گلوچ کر کے ہمارے نظامِ تعلیم کی بوسیدگی کا پول کھولنے پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اخلاق، رواداری، محبت، دلیل اور وسیع النظری جیسی بلاؤں کو ہمیشہ کے لیے تج دیا ہے۔ دفاتر، بازاروں، پبلک مقامات اور سوشل میڈیا پر انتہا پسندانہ جنوں کے ایسے ایسے جواہر پارے جلوے دکھاتے ہیں کہ اکیسویں صدی نہیں، پتھر کے دور کا گماں گذرتا ہے۔

گزارشات بالا کا حاصل یہ ہے کہ ملکی وسائل سے بڑھ کر بے ترتیب آبادی میں اضافہ اور تعلیم و صحت اور روزگار جیسی بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی معاشرے میں شدت پسندی کے فروغ کی راہ ہموار کرتی ہے اور شدت پسندی دہشت گردی کی بنیاد ہے۔ ایک گھر کی مثال لیتے ہیں۔ اگر مزدور کا بھی ایک بچہ ہوگا تو اسے بہت عزیز ہوگا۔ وہ اس پر توجہ دے گااور بساط بھر تعلیم دلا کراسے معاشرے میں باعزت مقام دلانے کی سعی کرے گا۔ کوئی ادارہ اسے ’’علم‘‘ کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے مانگ کرلے جانا چاہے گا تو ہر گز نہیں دے گا۔ لیکن اگر اس مزدور کے دس بچے ہوں گے تو اس کی محدود آمدنی کے دشمن اور گھر میں انتشار کا موجب بنیں گے۔ پھر وہ بچوں سے جان چھڑائے گا۔ جو چاہے انہیں لے جائے اور انسان بنائے یا روبوٹ، مزدور کو پرواہ نہ ہوگی۔ اسی طرح حکومت بھی اگر ملکی آبادی کے بارے میں ٹھوس منصوبہ بندی کرے گی، شہریوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی تعلیم و روزگار کا بندوبست کرے گی تو وہ فعال شہری بنیں گے، ورنہ وہی کچھ ہوگا جو ہو رہا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے اس کی مکمل وضاحت سانحہ کوئٹہ پر سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے کردی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے ایک سو دس صفحات ہماری ملک سے انتہا پسندی کے خاتمے کی تڑپ اور نیشنل ایکشن پلان پر سنجیدگی کے آئینہ دار ہیں۔ اس رپورٹ اور اس پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ریمارکس پر بہت کچھ کہا، لکھا جا چکا۔ مزید صفحات اور دل جلانے کی ضرورت نہیں، البتہ ایک تجویز ہے۔

پی آئی اے نے اپنے طیاروں کی مرمت اور نئے طیارے خریدنے کی بجائے ایک نئی چال چلی ہے۔ ادارے نے پرواز سے قبل کالے بکرے قربان کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اگلے دن اسلام آباد سے ملتان جانے والی اے ٹی آر طیارے کی اڑان سے قبل پہلی دفعہ کالے بکرے کا صدقہ دیا گیا اور طیارہ بحفاظت ملتان پہنچ گیا۔ معاشرے میں بڑھتی شدت پسندی سے تو خیر ہم نمٹنے کی کیا منصوبہ بندی کریں گے، اگر جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں ایک دو کالے بکروں کا صدقہ دے دیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ االلہ مہربانی کرے، جیسے اس نے پی آئی اے پر کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments