اندھیری رات میں بھٹکتا جگنو علی سدپارہ


مجھے یاد ہے بچپن میں جب بھی ہم گاؤں جایا کرتے تھے تو مجھے سب سے اچھا مشغلہ رات میں جگنو پکڑنا لگتا تھا۔ ان ٹمٹماتے جگنوؤں کو ہم سب پکڑ کر کسی چھوٹی سی ٹوکری میں ڈال دیتے تھے اور اندھیرے میں ان جگنوؤں کی روشنی دیکھتے تھے۔

اندھیروں میں جلتے بجھتے ان جگنوؤں سے جو اجالا پھیلتا تھا وہ منظر یادوں کے دریچوں میں آج بھی قید ہے۔ اب تو خیر شہروں کی گہماگہمی اور کنکریٹ عمارتوں کے درمیان جگنوؤں کی روشنیاں تو خواب خیال ہی رہ گئی ہیں۔

اسکول میں جب جگنو کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں کی تشریح کے لیے بابا سے پوچھا تھا کہ ایسی کیا خاص بات ہو گئی اس کیڑے میں جو علامہ اقبال جیسے شاعر نے اس پر یہ پوری نظم ہی لکھ ڈالی تو بابا نے ایک جملے میں سمجھایا تھا کہ بات اس کیڑے میں یا اس کی روشنی میں نہیں ہے بات تو یہ ہے کہ اس کی روشنی اندھیروں میں راستہ دکھاتی ہے۔

ایسے ہی انسان بھی ہوتے ہیں جن کے اندر جگنو کا وصف ہوتا ہے اور وہ اندھیروں میں راستہ دکھانے والے روشنی کا استعارہ بن جاتے ہیں۔ وہ انسان ایدھی بن کر جگنو بن کر چمکتے ہیں، یا پھر وہ ڈاکٹر رتھ فاؤ یا ڈاکٹر ادیب رضوی بن کر بقول علامہ اقبال شب کی سلطنت میں دن کا سفیر بن کر جگنو بن جاتے ہیں۔

لیکن ہر کوئی تو جگنو نہیں بن سکتا نہ ہی ہر انسان میں ایسی خاص صفت ہوتی ہے کہ وہ اندھیروں میں جگنو بن کر چمکیں کیونکہ جگنو بن کر چمکنے کے لیے تو حوصلے ہمت اور جنون کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایسا کچھ کر گزرنے کا جنون جس کو عام لوگ سوچ کر ہی دیوانہ پاگل مجنوں پکارنے لگیں۔ کسی کا جنون اس کو تیشہ دے کر فرہاد بنا دیتا ہے تو کسی کا پاگل پن بلندیوں کو تسخیر کرنے کے لیے اسے علی سدپارہ بنا دیتا ہے۔ شاید بلند بالا چوٹیوں کو اپنے قدموں کے نیچے محسوس کرنا بھی اسی جنون اسی پاگل پن کی معراج ہوگی جو علی سدپارہ بھی اس سرد ترین موسم میں کے ٹو سر کرنے چل پڑا۔

ایک ایسا ناممکن سفر جس کو سر کرنے کے لیے حوصلہ کافی نہیں ہوتا اس کے لیے تو جنون کی بھی انتہا درکار ہوتی ہے۔ جب علی سدپارہ سے پوچھا جاتا تھا کہ کسی چوٹی کو سر کرنے کے بعد کا کیا لگتا ہے اپنے قدموں کے نیچے بلندیوں کو محسوس کرنے کا احساس کیسا ہوتا ہے تو اس سر پھرے کا جواب ہوتا تھا کہ اس احساس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاتا۔ جب اس سے پوچھا جاتا تھا کبھی پہاڑوں میں کھو گئے تو کیا کرو گے تو اس کا کہنا تھا کہ میں برف میں گھر بنا کر رہ لوں گا۔

موسم سرما میں کے ٹو کو قابل تسخیر بنانے کا جنون وہاں پاکستان کا پرچم لہرانے کا پاگل پن کسی سر پھرے کے ہی بس کی بات تھی۔ ابھی پچھلے مہینے جب نیپال کے کوہ پیماؤں نے کے ٹو کو موسم سرما میں سر کیا تھا اس کے بعد علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں نے موسم سرما میں سرکش کے ٹو کو سر کرنے کی مہم جاری رکھی تھی۔ پاکستان میں سب نظریں اس جنون کو منزل پر بخیر و عافیت پر پہنچنے کی منتظر تھیں دل کہتا تھا کہ اسی جنون نے تو علی سدپارہ نے 2016 میں سردیوں کی مہم جوئی کے دوران پہلی مرتبہ نانگا پربت کو سر کیا تھا۔ اس کو تو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ اس کے پاگل پن نے آٹھ ہزار میٹر کی آٹھ چوٹیاں فتح کی تھیں۔ جبکہ سد پارہ نے تو بس ایک ہی سال کے دوران آٹھ ہزار میٹر کی چار چوٹیاں اپنے قدموں تلے محسوس کی تھیں۔

لیکن اس بار دماغ کہہ رہا تھا یہ تو موت کا راستہ ہے اس سرکش چوٹی کو سر کرنے کی تمنا کرنے والے ہر چار میں سے ایک کوہ پیما موت کا مہمان بن جاتا ہے۔ جیسے جیسے سد پارہ کے قدم بڑھتے جا رہے تھے سب کے جوش جذبے میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا لیکن جمعے کو جب پہلی خبر یہ آئی کہ سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کا رابطہ بیس کیمپ سے منقطع ہو گیا ہے تو سب ہاتھ سدپارہ اور اس کے ساتھیوں کی سلامتی کے لیے اٹھ گئے۔ امید اور یاس کے درمیان سماعتٰیں کسی خبر کی منتظر تھیں۔ لیکن دماغ کو تو معلوم تھا نا کہ اس سرد ترین موسم میں بغیر آکسیجن کے اس قدر بلندی پر شاید سدپارہ کی جانب سے کوئی خیر کی خبر نہ آ سکے۔

دل کہتا ہے کہ خدا خیر کرے اور کوئی معجزہ ہو جائے، لیکن آثار یہی ہیں کہ اب وہ ہم میں نہیں رہا۔ اس کے جنون اس کے پاگل پن نے بھی اس کو ہمت حوصلے کا وہ استعارہ بنا دیا ہے جسے شاید مہم جوؤں کی داستانوں میں ہی نہیں تاریخ میں بھی ایسے جگنو کے طور پر یاد رکھا جائے گا جو خود تو سرد اندھیروں میں راستہ بھٹک گیا لیکن پیچھے آنے والوں کے لیے روشنی کی لکیر چھوڑ گیا۔

بھٹکتے جگنو تمہارے لیے یہ لکھنے کے لیے بہت حوصلہ چاہیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).