آنگ سان سوچی، فوج اور پاکستان: چند مماثلتیں


19 جون 1945 میں پیدا ہونے والی آنگ سان سوچی ابھی دو سال کی تھی کہ ان کے والد سمیت چچا اور چھ قریبی ساتھیوں کو قتل کر دیا گیا۔ آنگ سان کی عمر برطانوی راج کے خلاف لڑنے، برمی فوج کو بنانے اور مضبوط کرنے میں بیتی تھی۔ ان کی طویل جدوجہد کا آغاز 1940 میں شروع ہوا جب جاپان نے یقین دہانی کرائی کہ وہ فوج بنانے اور برما کو آزادی دلوانے میں ان کی مدد کرے گا۔ برمی فوج جسے ”آزادیٔ برما کی آرمی“ کا نام دیا گیا تھا، دو سال کی قلیل مدت میں اتنی مضبوط ہو گئی کہ 1942 میں برما پر حملہ کر دیا۔

یہ دوسری جنگ عظیم کا دور تھا۔ اب برما پر جاپان کا راج تھا۔ ڈاکٹر با ماؤز کی حکومت تھی جسے جاپان کی مدد حاصل تھی۔ اس حکومت میں آنگ سان دفاعی وزارت کے عہدے پر فائز تھے۔ مگر ان کو جلد معلوم ہوا کہ برطانیہ راج سے نکل کر اب وہ جاپانی ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر رہ گئے ہیں۔ نیز انہیں یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ برما اپنی حقیقی آزادی جاپان کے زیر سایہ رہ کر حاصل نہیں کر سکتا۔ پھر جاپان کی طرف مغربی ہواؤں کا رخ بھی تیز تر ہو رہا تھا۔

سو 1945 میں آن سانگ اپنی فوج کو لے کر اتحادیوں کی صف میں جا کھڑا ہوا۔ جب اتحادی طاقتوں کی جیت ہوئی اور وہ اپنی افواج کو از سر نو منظم کرنے لگے تو آنگ سان نے برمی فوج سے چیدہ چیدہ جنگجوؤں کو ایک طرف کر لیا اور ان کو ”رضا کاروں کی تنظیم“ کا نام دیا، حالانکہ اس لڑاکو جتھے کا اصل مقصد برما کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کرنا تھی۔ اسی فوجی جتھے کی مدد سے آنگ سان برما کی مجلس منتظمہ کا صدر بنا جسے وزیراعظم کے برابر اختیارات حاصل تھے۔

1947 میں برطانیہ کے وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی کے ساتھ معاہدہ طے پایا جس کے تحت ایک سال میں برما کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ اسی دوران برما میں قومی اسمبلی کا انتخاب ہوا، جہاں 202 سیٹوں میں سے 196 سیٹوں کی بھاری اکثریت کے ساتھ میجر جنرل آنگ سان وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ابھی یہ عہدہ سنبھالے چھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ ان کو ایک میٹنگ کے دوران کچھ بندوق برداروں نے دیگر ساتھیوں سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا۔

ان کے قتل کا معما حل نہ ہو سکا۔ اسی دن گیلن یو ساؤ جو دوسری جنگ عظیم کے دوران وزیراعظم تھے، کی گرفتاری ہوئی اور بعد میں قتل کے مقدمے میں پھانسی بھی چڑھے۔ تاہم ایک فریق کا خیال ہے کہ برطانوی افواج میں سے کوئی اس قتل میں ملوث تھا۔ جب کہ ایک طبقے کا دعویٰ ہے کہ برمی آرمی نے ہی ان کو مروا دیا۔ بہرحال، اس نوعیت کے قتل کی قتل گاہ اور مقتول کا نام نشان مل جاتا ہے مگر قاتل سو پردوں میں نہاں رہتا ہے۔ ”کس نے مارا یا مروایا اور کیوں مارا؟“ یہ ایک سربستہ راز ہی رہتا ہے۔

Aung San

سیزر سے لے کر مارٹن لوتھر کنگ تک، گاندھی سے لے کر اندرا گاندھی تک اور اپنے ہاں لیاقت علی خان، ضیاء، مرتضیٰ بھٹو، بے نظیر بھٹو اور مولانا سمیع الحق، ایک نہ ختم ہونے والی ایک ایسی فہرست ہے جہاں کئی برساتوں کے بعد نہ خون کے دھبے دھلے ہیں اور نہ ہی کسی کے ہاتھ پر ان کا لہو تلاش کیا جا سکا ہے۔

بہرکیف، آن سانگ کو کئی تمغے پس مرگ دیے گئے۔ ان کو ”بابائے قوم“ کہا گیا۔ برما کی آرمی کے ”خالق“ کے طور پر جانا گیا۔ آزادیٔ برما کے ”ہیرو“ کا خطاب ملا۔ تاریخ نے یہ فیصلہ ان کے حق میں سنا دیا کہ آج اگر برما آزاد ہے، اس کے پاس مضبوط آرمی ہے اور ایک جمہوری پارٹی ہے تو وہ میجر جنرل آنگ سان کی دین ہے۔

میانمار کو آزاد ہوئے ابھی ایک دہائی بیتی تھی کہ 1962 میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔ یہ ایک ایسے تاریک دور کا آغاز تھا جو نصف صدی پر پھیلا ہوا ہے۔ اس دور میں انسانی حقوق پامال ہوئے۔ آزادیٔ اظہار رائے پر قدغنیں تھیں۔ میڈیا پر پابندیاں تھیں۔ پندرہ سالہ آنگ سان سوچی کو اپنی ماں کے ساتھ ملک چھوڑنا پڑا۔

ان کی برطانیہ میں شادی ہوئی مگر 1988 میں لب گور پڑی ماں کی خبر گیری کے لیے واپس آنا ہوا۔ مگر یہاں کچھ ابال کی سی کیفیت تھی۔ طویل مارشل لاء کے خلاف لوگ سڑکوں پر تھے اور ان کو کسی لیڈر کی ضرورت تھی۔ طاقت ور آمریت کے سامنے یہ احتجاج اور جلسے جلوس بے کار ثابت ہوئے۔ ہزاروں لوگ قتل کردیے گئے۔ جیل کی کال کوٹھڑیاں بھر دی گئیں۔ آنگ سان سوچی کو بھی نظر بند کر دیا گیا۔ 1990 میں انتخابات ہوئے تو آنگ سان سوچی کی پارٹی ”جمہوری عوامی لیگ“ نے 81 فیصد سیٹیں حاصل کیں۔ مگر فوج نے زمام اقتدار آنگ سان سوچی کے حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیا۔آمریت کا ہی راج قائم رہا۔

1991 میں آنگ سان سوچی ابھی نظر بند ہی تھیں کہ نوبل انعام ان کے نام ہوا۔ سان سوچی اب جمہوریت، آزادیٔ اظہار رائے اور انسانی حقوق کا استعارہ بن کر سامنے آ چکی تھیں۔ پانچ سال کی قید کے بعد 1995 میں ان کو رہا کیا مگر 2000 میں پھر کوئی دو سال نظر بند رہیں۔ 2003 میں ان کے کئی جیالوں کو قتل کر دیا گیا اور خود ان کو پہلے جیل اور بعد میں نظر بند کیا۔ یہ قید و بند کی صعوبتیں 2010 تک جاری رہیں۔

2010 میں اسٹیبلشمنٹ نے الیکشن کروائے۔یہ اسی نوعیت انتخابات تھے جو ہمارے ہاں 1990 میں ہوئے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ نے اپنی پسندیدہ پارٹی کو جتوایا۔ آن سانگ سوچی کی پارٹی نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ مخالف پارٹی کو فوج کی حمایت بہرحال حاصل تھی۔ حکومت بن گئی۔ 2012 میں ضمنی الیکشن ہوئے۔ سوچی نے 44 میں سے 43 سیٹیں جیت لیں۔ یہی حال 2015 کے انتخابات کا ہوا۔ آنگ سان سوچی کی قومی لیگ 86 فی صد کی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی اور حکومت بنا لی۔

برسراقتدار آنے کے بعد سان سوچی کے وہ دبدبے، وہ مزاحمت اور جمہوری و انسانی اقدار کی جنگ ماند پڑ گئی۔ اسے کئی محاذ پر مصلحتوں کا شکار ہونا پڑا۔ فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق اور آزادی اظہار کی پامالی اسی تیزی سے جاری رہی۔ 2017 میں روہنگیا مسلمانوں کا خون ناحق بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار چھوڑ کر بنگلہ دیش میں پناہ لینا پڑی۔ اس کو تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی کا نام دیا گیا۔

آنگ سان سوچی جو کبھی جمہوریت اور انسانی حقوق کی علم بردار تھی، اب کہ نہ صرف فوج کے اس ظلم و بربریت کو اس نے گوارا کیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر اس انسان سوز روش کا دفاع بھی کرتی رہی۔ دنیا بھر سے مطالبے شروع ہوئے کہ آنگ سان سوچی سے نوبل انعام واپس لیا جائے۔ 2018 میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل اور امریکی ہولوکاسٹ نے اپنے اپنے انعامات واپس لے لیے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سان سوچی کو اپنے اقتدار کو طول دینے اور فوج کے ساتھ ایک پیج پر رہنے کے لیے یہ سب کچھ کرنا پڑا مگر فوج کے تیور بدلتے رہے۔ ان کے تعلقات میں ایک بڑی دراڑ تو اس وقت آئی جب 2019 میں آئین میں کچھ رد و بدل کا سوال آیا۔ گزشتہ سال نومبر میں انتخاب ہوئے۔ نیشنل جمہوری لیگ نے 83 فیصد سیٹیں حاصل کیں اور اقتدار کے ایوان تک پہنچ گئی۔ فوج اور اپوزیشن نے الزام لگایا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔

الیکشن کمیشن نے الزامات کو مسترد کر دیا۔ یکم فروری 2021 کو پارلیمنٹ کا پہلا سیشن ہونا تھا۔ مگر صبح دم عسکری چینل سے اعلان نشر ہوا کہ آنگ سان سوچی، صدر اور کئی دوسرے ممبران کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 417 کے تحت ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ ایک سال تک مارشل لا عمل میں لایا جا چکا ہے۔

برما سے میانمار تک اور آنگ سان سے آنگ سان سوچی تک کے اس قضیے میں ہمارے لیے بڑا سامان عبرت بھی ہے اور دونوں ممالک کی کہانیوں میں بڑی مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ ہماری آزادی کے ایک سال بعد برما آزاد ہوا۔ بارہ سال بعد وہاں آمریت کی شب تار نے زلفیں پھیلائیں۔ آج پھر سے وہاں اندھیر نگری کا دستور رائج ہے۔

پاکستان آزاد ہونے کے گیارہ سال بعد مارشل لا لگ گیا۔ پھر مختلف انداز میں فوج کا ہی راج رہا۔ کبھی پردے کی اوٹ سے اور کبھی کھلے پردے پر۔

مارچ 1977 میں انتخابات ہوئے تو پاکستان قومی اتحاد کے مقابلے میں پاکستان پی پی پی اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ 200 میں سے 155 سیٹیں اس کے حصے میں آئیں۔ مگر قومی اتحاد نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ حالات خراب ہوئے۔ مارشل لاء لگ گیا۔ میانمار کے چیف آف آرمی سٹاف کی طرح ضیاء الحق نے یہ وعدہ کیا کہ نوے دن میں انتخاب کروائے جائیں گے۔ یہ وعدہ گیارہ سال بعد ایفا ہو سکا۔

یہاں جو بھی حکومت آتی ہے، کوشش یہی ہوتی ہے کہ فوج کے ساتھ ”نبھا کے“ رکھے۔ یہ کوشش بی بی شہید اور نواز شریف نوے کی دہائی میں کرتے رہے۔ 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد تجربہ کار نواز شریف اس راز کو پا گیا تھا کہ فوج کے ساتھ پنگا نہیں لینا۔ انہوں نے ”اچھا بچا“ بننے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ڈان لیکس کا معاملہ آیا تو جی آئی ٹی بنائی۔ حکم ملا تو اپنے دو قریبی وزیر فارغ کر دیے۔

عمران خان کی انسانی حقوق، جمہوریت، فوج کے ”کنگ میکر“ کے کردار کی مذمت، لاپتا افراد کا مقدمہ وغیرہ کا ریکارڈ اگر نکالا جائے تو معاً خیال آتا ہے ان کو بھی ایک نوبل انعام ملنا چاہیے تھا۔ مگر برسر اقتدار آنے کے بعد وہ ساری مصلحتیں اختیار کیں جو آنگ سان سوچی کو کرنا پڑیں۔ میانمار کا آئین فوج کو سویلین حکومت میں ایک خاص کردار دیتا ہے۔ مثلاً یہی کہ پارلیمنٹ میں 25 فیصد کوٹہ فوج کا ہے۔ وزارت داخلہ، دفاع اور سرحدی امور کی وزارتیں فوج کے پاس رہیں گی۔

ہمارا آئین تو ایسا کچھ نہیں کہتا مگر دگنا حصہ وہ وزارتوں کے مد میں ایسے ہی لے لیا جاتا ہے۔ میانمار میں آئین کی ایک شق یہ اجازت بھی دیتی ہے کہ ایمرجنسی کے حالات میں زمام اقتدار فوج اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں ان قانونی پیچیدگیوں میں پڑنے کے بجائے ”قومی سلامتی کو لاحق خطرے“ کی گھنٹی بجا کر اسی سے کام چلا لیا جاتا ہے۔

آنگ سان سوچی کے ساتھ جو ہوا، شاید اس نے یہ سوچا بھی نہ تھا۔ مگر اس مارشل لاء نے ایک بات تو طے کر دی کہ فوج کسی کی سگی نہیں ہوتی۔ نیز یہ درس بھی دے دیا کہ دنیا میں hybrid regime زیادہ عرصے تک نہ ایک پیچ پر رہ سکتی ہیں اور نہ ہی ملک چلا سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).