جہیز: تصویر کے کئی رخ ہیں


چودہ فروری محبت کی آگ پہ بات کرتے کرتے، بات کو آٹھ مارچ تک اتنی آگ لگا دی جائے گی کہ ڈاکٹرز آپ کو زہر کا ٹیکا لگا کر کورونا کے لفافے میں ڈال دیں گے۔ یہ سب وہ حقائق ہیں جو دور سے دکھائی دیتے ہیں۔ پاس آئیے زندگی کا حصہ بنیے اور تو بات میں دلیل اور نعرے میں روح پھونکی جائے ناں۔

جہیز کے حوالے سے ایک ویڈیو وائرل کر دی گئی ہے۔ بات بڑھ رہی ہے، اس کو روکنا پڑے گا بلکہ یہ فطری طور پہ رک جائے گی۔ سماج وہیں کا وہیں کھڑا رہے گا جہاں آٹھ مارچ سے پہلے تھا۔

یہ سب جذباتیت کاروباری اشتہار بنتی جا رہی ہے۔ دکھ ہیں، درد ہیں، رسمیں بھی ہیں، فرسودہ رواج ہیں روز زبردستی بھی ہے مگر ان کا چہرہ چڑیلوں یا جن بھوتوں جیسا نہیں۔ کچھ فرشتے بھی ہیں شر کے، کچھ مجبوریاں بھی ہیں خواہش کی، کچھ نغمے بھی ہیں خوابوں کے۔

ان سب کو یکسر جھٹلا کیوں دیا جاتا ہے؟

جہیز کی جب بات آتی ہے تو سب سے پہلے گھر کے آنگن میں دیکھیے کہ آپ نے بیٹی کی تربیت ہی ایسی کی ہوتی ہے کہ وہ خوشی خوشی جہیز لینے کے لیے تیار ہوتی ہے کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے، جب اسے اس کی پسند کا بہت کچھ مل جانے کی امید ہوتی ہے۔

اس سے بھی پہلے جب آپ بیٹی کو گڑیا لا کر دیتے ہیں۔ ساتھ پورا گھریلو ساز و سامان بھی لا کر دیتے ہیں؟
ایسا ہی ہے ناں؟
اس کی دو وجوہات ہیں ایک وراثت نہیں ملنی ہوتی، کم ہو یا زیادہ۔
دوم، لڑکی کی خوشیوں کا تعلق اس سامان سے جوڑ دیا جاتا ہے۔

لڑکی خود بھی چاہتی ہے کہ پہلے سے موجود بھابھیوں سے زیادہ سامان تعیش اس کو ملے تاکہ اس کا ڈنکا بجتا رہے۔

اب اس تلخ پہلو کو چھوڑ کر دولہے میاں کی بات کرتے ہیں۔

بہت سے لڑکے ایسے ہیں جو جہیز لینا نہیں چاہتے مگر ان کے گھر والے چاہتے ہیں کہ لڑکی جہیز لائے۔ آخر کار اس کو گھر والوں کی ماننا پڑتی ہے کہ اسے شادی تو کرنی ہے اور رہنا بھی گھر والوں کے ساتھ ہے۔

ہم لڑکیوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں، ابھی ایک بڑی مردانہ آبادی کو تو اپنی پسند کی شادی کا حق نہیں مل سکا۔ اس کو لڑکی کے ساتھ محبت کا کھیل کھیلنے کی اجازت بھی اس لیے دے دی جاتی ہے کہ شادی کے حقوق خاندان اپنے پاس رکھ لیتا ہے اور شرائط بھی ان کی اپنی ہوتی ہیں۔

جس عمر میں لڑکوں کی شادی کی جاتی ہے وہ اتنے خود کفیل بھی کم ہی ہوتے ہیں کہ سب کچھ خود بنا سکیں۔

جیسے ہم شادی کے لیے بیٹی کی گڑیا اور ساز و سامان کی تربیت کرتے ہیں، یونہی ہم لڑکے کی بھی تربیت کرتے ہیں کہ اس کی سب سے بڑی ڈگری لڑکا ہونا ہے۔ لڑکی تو اسے بادشاہ کی بھی مل جائے گی۔ نوکری شوکری ہو، کاروبار ہو تو اچھا ہے ورنہ جھوٹ سے وقتی کام چلا لیا جائے گا۔

لڑکیوں کے گھر والے بھی لڑکے کا گھر بار دیکھ کر تسلی کر لیتے ہیں۔ اچھا ابا نے کچھ بنا لیا ہے۔ یہ بے چارہ نہ کر سکا تو ابا کا بنایا ہوا مل ہی جائے گا۔ مگر یہ کوئی نہیں سوچتا اس کے بچوں کے ابا، اپنے بچوں کو کیا دیں گے۔

باقی بات لڑکی کے مقدر پہ ڈال دی جاتی ہے۔ چمک گئے تو کمال است، نہ چمکے تو منحوس کہیں کی۔

جو لڑکے جہیز قسم کی چیزوں کے متلاشی ہوتے ہیں۔ ان کی اکثریت سے اگر ایمان دارانہ سوال کیا جائے تو خالص جواب ملتا ہے گھر، گاڑی، ویزا، نقدی، سونا یا چلتا کاروبار چلے گا اور کچھ نہیں چاہیے اور وہ گھر داماد بننے کو ترجیح بھی دیتے دکھائی دیتے ہیں۔

ہم نے ایک صاحب سے پوچھا جناب! آپ نے شادی والا گناہ کیوں نہیں فرمایا جب کہ آپ ایک کنبہ پالنے کی اہلیت رکھتے تھے۔

عظیم فرمان سنیے گا ”وہ میڈم آپ نے سنا تو ہو گا ایک مرغے اور چھ مرغیوں سے معیشت کی ترقی والا سرکاری بیان، تو مجھے ایسا پنجرہ قبول نہیں تھا جس میں سرکار کی پسند کی چھ مرغیوں کو میرے ساتھ ایک جگہ بند کر کے کہا جاتا کہ ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں لانا ہے۔ میڈم بس سرکار نے ہماری نہیں مانی ہم نے سر کار کی نہیں مانی۔ باقی ٹیکس کا معاملہ ہمارا ایسا ہے کہ سرکار ہمیں مرغیاں دے نہ دے ہم ٹیکس ایمان داری سے ادا کرتے ہیں“

بابا جی کی یہ بات اتنی گہری تھی کہ ہم سوچتے رہ گئے۔ گریٹ او جی۔

اب وائرل کی گئی یہ ویڈیو اگر آپ کے تن من میں آگ لگانے میں کامیاب ہو جائے تو اپنے دل کے آئینے میں خود کو دیکھیے گا، آپ خود کہاں کھڑے ہیں؟

آپ خود کیا چاہتے ہیں، کیا دولہا ہی مکمل قصور وار ہے یا دلہن بھی ہے؟ کہ جو فلموں میں یہ ڈائیلاگ تو بول سکتی ہے ”پنجاب نہیں جاؤں گی“ ۔ یہ کیوں نہیں بولتی ”سنو جہیز نہیں لاؤں گی“
ہم نے ایسی دبنگ لڑکی کو ہیروئن کیوں نہیں بنایا؟ لینے والے قصور وار ہیں تو دینے والے بھی قصور وار ہیں۔ یہ رشوت کے برابر کی کوئی قسم ہے، جس میں فریقین کے مفادات شامل ہیں۔

رسم کے نام پہ ہم اس کو کوس بھی رہے ہیں اس کی ترویج بھی کر رہے ہیں تاکہ ہماری کہانیوں، تہواروں، نعروں، رواجوں کا تسلسل نہ ٹوٹے۔ بات اگر چل نکلی ہے تو چلتی ہی رہے۔

تصویر کا دوسرا رخ

جہیز پر بات کرنا دل دکھا دینے والا موضوع ہے جبکہ تصویر کا دوسرا رخ اتنا آلودہ ہے کہ گھن کا احساس انسان کو انسان سے مایوس کرنے کو کافی ہے۔

جہیز ایک دور میں نمائشی شے بھی تھا ، پھر وقت بدلا، نمائش اور تماشا ختم ہوا مگر جہیز نہیں۔ امیر اپنی بیٹی کو جو بھی دے الگ کہانی، دولت کہاں سے آئی الگ بات مگر غریب اور لوئر مڈل کلاس میں جہیز کے نام پر کچھ ہمدردیوں کا شدت سے رواج ہوا۔ جہیز دینے کے لیے این جی اوز کام کرنے لگیں۔ حکومتی سطح پر اگر دو ماہ قبل درخواست جمع کروا دی جائے تو جہیز کے لیے معمولی ہی سہی، لیکن رقم دی جاتی ہے۔ گویا سرکاری سطح پہ جہیز فنڈ ملتا ہے۔

اس طبقے کے جو امیر یا بیرون ملک رشتہ دار ہیں ، ان سے جہیز کے نام پہ دولت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ جس میں نوے فی صد کامیابی ہوتی ہے۔ یوں یہ طبقہ چاروں طرف سے اتنی رقم اکٹھی کر لیتا ہے کہ جہیز ہی نہیں کچھ زیادہ بچا بھی لیتا ہے۔
جہیز فنڈ دو تین سے زائد این جی اوز سے منظور کروا لیا جاتا ہے۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔

این جی اوز اپنے طور کام کر رہی ہیں ، ان کا کوئی آن لائن یا اور کسی قسم کے رابطے کا وسیلہ نہیں ہے کہ علم ہو سکے کہ کس خاندان نے کسی دوسرے کے حق کو سلب کر لیا ہے۔

اس کے علاوہ مارکیٹوں میں بڑے تاجروں اور تاجر تنظیموں نے اپنے طور جہیز یا غریب لڑکیوں کی شادی کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔وہاں سے بھی مدد لے لی جاتی ہے ۔ جس جس کو موقع ملتا ہے وہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتا ہے اور اسے کوئی ندامت بھی نہیں ہوتی کیونکہ ضمیر کے جنازے اٹھ چکے ہیں۔

غربت کے نام پہ سفید پوشوں کا خون نچوڑا جاتا ہے۔ کئی کئی جگہ سے جہیز اکٹھا کر کے پہلے کہیں سمیٹ کے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اچھی چیزیں رکھ کے باقی فروخت یا تقسیم کر دیا جاتا ہے۔

اس طرح لی گئی چیز کی قدر بھی نہیں رہتی کیونکہ ان لوگوں کو اس خون پسینے و محنت کا اندازہ ہی نہیں جو اس کمائی میں لگا ہوتا ہے۔

بیرون ملک بسنے والوں کو تو بالکل یوں سمجھا جاتا ہے جیسے ان پہ ڈالرز اور پاؤنڈز کی بارش ہوتی ہے۔ سب کے سب مکار ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں کہ ان کے حالات بھی خراب ہو سکتے ہیں، حالانکہ پردیسیوں کے اپنے دکھ ہوتے ہیں جو پردیسی ہی سمجھتے ہیں۔

اور اگر فرض کریں طلاق ہو جاتی ہے اور پولیس یا کوئی بھی سرکاری اہل کار جہیز اٹھاتے ہوئے موجود نہیں اور اگر ہیں بھی تو لڑکی والوں کی طرف سے آئے ہوئے شرپسند جہیز کا سامان اٹھاتے ہوئے لڑکوں والوں کے گھر کی توڑ پھوڑ حق سمجھ کرتے ہیں، یہ ایک الگ داستان ہے۔

صرف ایک واقعہ سنئیے

ایک مڈل کلاس لڑکی جس کا گھر اپنا ہے اور چونکہ وہ اکلوتی ہے ، والدین نے شادی سے پہلے ہی گھر اس کے نام کر دیا تھا۔ اس کی پہلی شادی لاہور سے کراچی ہوئی۔ غربت کے نام پہ یونہی جہیز کی رقم اکٹھی کی گئی۔ کراچی جا کے سامان خریدا گیا، شادی ہو گئی۔ معاملات نہیں بنے۔ بات طلاق تک آئی ، والدین واپس لینے گئے تو وہ لڑکے والوں کی طرف سے ملا زیور بھی ساتھ لے آئی اور جہیز وہیں چھوڑ آئی ، طلاق ہو گئی۔

پھر دوسری شادی ہوئی ، خاندان والوں کے علاوہ تین این جی اوز سے جہیز کی درخواست قبول ہو گئی۔ دو این جی اوز سے پہلے ہی جو کچھ ملنا تھا مل گیا۔ ایک سے رقم شادی کے بعد موصول ہوئی۔ لڑکے کے والد کا گھر ان کی گریجویٹی کی رقم سے بنا تھا۔ جس میں چار لاکھ بیٹے نے دیے تھے مگر وہ بضد رہی کہ گھر میرے شوہر کا ہے۔ سب کو یہاں سے نکلنا ہو گا۔ آخر کار والدین کو بڑے بیٹے کے گھر جانا پڑا۔ اب اس کی اور لڑکی کی ماں کی خوشی دیدنی ہے”

ایسے بہت سے واقعات آنکھوں دیکھے ہیں اور کانوں سنے ہیں۔

جہیز ہی نہیں ، ان لڑکیوں کے شادی کے جوڑے تک ڈالرز کے ریٹس پر ہوتے ہیں کیونکہ ان کے بقول شادی تو ایک بار ہی ہوتی ہے اور دولت کی اس غیر منصفانہ تقسیم کے لین دین میں ان کا پورا حق ہے۔ سو جہیز صرف مرد کی طرف سے لعنت نہیں، عورت کی طرف سے بھی اتنی ہی لعنت ہے۔

اگر اس پر کنٹرول کرنا ہے تو سرکاری جہیز فنڈ اور جہیز کی مد میں رقم دینے والی این جی اوز کو بھی شعور دینا ہو گا۔ سب سے پہلے سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانا ہو گا۔ جہیز لینے والوں کو ہی نہیں دینے والوں کو بھی شعور سے کام لینا ہو گا۔
مجبوری اپنی جگہ مگر ڈاکٹر کو سرجری کے دوران زہریلا جسمانی حصہ کاٹنے کا فیصلہ خود ہی کرنا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).