کینسر آپریشن کے بعد کسی ٹوٹے ہوئے روبوٹ کی طرح


میں کالمز کو ہمیشہ سیاسی اور سماجی موضوعات تک محدود رکھتی ہوں، لوگ ہماری ذاتی زندگی معلوم کرنے کے لئے اخباروں کے ادارتی صفحات نہیں پڑھتے۔ میں خود بھی اپنی ذاتی زندگی کی انسٹا گرام پر تصویریں پوسٹ کرنے سے زیادہ تشہیر نہیں کرتی، یہاں تک کے اکثر بلیوں کی ویڈیوز کے علاوہ سال میں چار یا پانچ بار سے زیادہ فیس بک پر اسٹیٹس بھی اپلوڈ نہیں کرتی۔ میرا ٹویٹر ہینڈل صرف پبلک کے لئے ہے، وہاں بھی میرے ذاتی ٹویٹ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔

سوشل میڈیا سے بہت پہلے بھی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ہماری ذاتی زندگیوں پر فیچرز چھاپتے رہتے تھے جن سے مجھے کوفت ہوتی تھی، مجھے انٹرویوز دینے سے بھی عجیب قسم کی بیزاری ہوتی ہے نہ ہی مجھے دوسری سیلیبرٹیز کی طرح اپنی ویڈیوز اپلوڈ کرنے کا شوق ہے۔ میں میڈیا میں ہونے کے باوجود سب سے زیادہ پریشان تب ہوتی ہوں جب کوئی چینل مجھے ویڈیو کال کے لئے کہتا ہے۔ لیکن کینسر نے سب بدل دیا۔ مجھے کینسر کی تشخیص سے پہلے بائیوپسیز کے دوران ہی ہزاروں کی تعداد میں پیغامات اور کالز آنے لگے جن کا جواب دینا میری اپنی مینٹل ہیلتھ کے لئے مثبت نہیں تھا تو میں نے زندگی میں پہلی بار پچھلے دو مہینوں میں ہونے والی ہر اپڈیٹ کو پبلک کر دیا۔

مجھے دو مہینے پہلے کینسر کی تشخیص ہوئی اور پچھلے ہفتے نو گھنٹے لمبی سرجری بھی ہو گئی۔ مجھے آنے والے پیغامات کی تعداد اب لاکھوں تک پہنچ چکی ہے تو ”ورلڈ کینسر ڈے“ ہی پر ہسپتال سے گھر آنے کے بعد میں نے مناسب سمجھا کہ ایک اور کالم لکھ دیا جائے جو کہ شاید زندگی کا ایک مشکل ترین کالم بھی ہے۔ کیونکہ میں اب وہ نہیں رہی جو تھی۔ کینسر کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ کو پتہ ہی نہیں لگتا کہ آپ کے ساتھ کیا ہو چکا ہوا ہے۔

سوائے بریسٹ کینسر کے میرے اپنے کینسر کی طرح بہت سارے کینسر ایسے ہیں جن کا آپ کو تب پتہ چلتا ہے جب گیم اوور ہو چکی ہوتی ہے۔ آپ بالکل ٹھیک ہوتے ہیں، کسی دن آپ کو ہلکے سے چکر آتے ہیں، آپ بلڈ ٹیسٹ کراتے ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ آپ کچھ مہینوں کے مہمان ہیں کیونکہ کینسر چپکے چپکے آپ کے پورے جسم، پھیپھڑوں، اور خون تک میں پھیل چکا ہوتا ہے۔ مجھے تو ہلکے چکر بھی نہیں آئے، میں آخر تک بالکل ٹھیک رہی۔ میرے معمول کے بلڈ ٹیسٹس بھی ہمیشہ بلکہ کینسر کے تیسرے اسٹیج میں بھی نارمل آتے رہے۔

میرا صرف چہرہ ٹھوڑی کی ایک طرف سے کچھ پھولا ہوا نظر آتا تھا جس کو میرے بچے اسٹار وارز کے ”جابا دا ہٹ“ سے تشبیہ دے کے ہنستے تھے اور ایک دن تنگ آکے میں اپنے ڈاکٹر کے پاس چلی گئی کہ کیا مجھے وزن کم کرنے کی دوائیں استعمال کرنا چاہئیں۔ اس نے جب میری ٹھوڑی اور گردن چیک کی تو اس کے ہاتھ کانپنا شروع ہو گئے۔ اس نے کہا
“Shama your chin is not fat, these are lymphnodes” .
میرے بلڈ ٹیسٹ اور ایکس رے تب بھی نارمل ہی آئے، لیکن اس نے مجھے الٹراساؤنڈ، سی ٹی ادکین، ایم آر آئی کے لئے بھیج دیا اور پھر دنیا اپ سائیڈ ڈاؤن ہو گئی۔

مجھے سرجری سے پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ میرا کینسر کان کے نیچے چہرے کی رگوں، سانس اور آواز کی نالی میں بری طرح پھیل چکا ہے۔ لیکن مجھے جو بات ڈاکٹرز نے آخری دن تک نہیں بتائی تھی وہ یہ تھی کہ مجھے چہرے کے فالج، اور آواز خراب ہونے کے سو فیصد چانسز تھے بلکہ پچانوے فیصد یہ بھی چانسز تھے کہ میں کبھی نہ بول سکوں اور ہمیشہ ریسپائریٹری ٹیوبس (مصنوعی تنفس کی نالی) پر رہوں۔ یورپ میں عموماً ایسے ہوتا نہیں کہ مریض سے اتنی بڑی بات چھپائی جائے۔

لیکن انہیں میرے بیٹے نے ای میل لکھ کے درخواست کی تھی کہ مجھے اتنا بڑا شاک دینا مناسب نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ میں سرجری کے لئے ہی نہ مانوں۔ میں اس پر بھی بہت حیران ہوتی تھی کہ میرے گانا گانے پر کانوں میں انگلیاں دے کے ”اسٹاپ اٹ“ کہہ کے چیخنے والے بچے کیوں اب چیلنج دے کے مجھے کہتے کہ فلاں گانا گا کے سناؤ (کیونکہ وہ چھپ چھپ کے میری ویڈیوز بنا رہے ہوتے تھے ) ۔ میں اس بات پر بھی حیران ہوتی تھی کہ دنیا بھر کے دہشت گردوں سے نپٹنے والا جمشید مجھے ویڈیو کالز پر ہنستا دیکھ کے بار بار فینٹ کیوں ہوجاتا، میں اسے ”میں تمہیں رنڈوا نہیں ہونے دوں گی“ کہہ کے چھیڑتی اور اس کی بجائے ہنسنے کے آنکھیں بھر آتیں شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ آگہی عذاب ہے۔

لیکن پھر بات آپ کے ایمان پر آجاتی ہے، میرا ایمان ہے کہ اللہ آپ کو آپ کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اللہ نے اتنے موذی کینسر کے پھیلنے کے بعد بھی مجھے ایک پل کے لئے کوئی تکلیف نہ دی۔ میں اب بھی مطمئن ہوں کہ مجھ پر بس ایک آزمائش کا مرحلہ چل رہا ہے جس کا جواب میں اسے ہی ”اللہ تیرا شکر“ کہہ کے نہ صرف دیتی ہوں بلکہ اب بھی نہ صرف ہر وقت ہنستی اور خوش رہتی ہوں کیونکہ آپ دکھ اور رنج میں تب مبتلا ہوتے ہیں جب آپ شکایت کریں۔

جب آپ کو کوئی شکایت ہی نہیں تو آپ کو رنج بھی نہیں ہوتا۔ میرا اپنا ڈپریشن کو بھگانے کا ذاتی ٹوٹکا یہ ہے کہ جب بھی آپ تکلیف میں مبتلا ہوں، آپ کسی ایسے شخص کی مدد کریں جو آپ سے زیادہ تکلیف میں مبتلا ہو، اس کی تکلیف اور ابتلا دیکھ کے آپ کو اپنے دکھ بھول جائیں گے اور آپ اللہ کا شکر ادا کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ اس نے آپ پر اپنا خصوصی کرم کیا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اللہ کا مجھ پہ نہ صرف انتہائی کرم ہے بلکہ اس کے بندوں کی بیشمار محبت بھی حاصل ہے۔

میں انتہائی خوش نصیب لوگوں میں سے ہوں جس کے لئے لوگوں نے مہینوں سے اپنی نمازوں میں دعائیں مانگی ہیں۔ اور اتنی دعائیں مانگی ہیں کہ مجھے خود یقین نہیں آتا کہ اللہ نے میری زندگی میں اتنے پرخلوص لوگ دیے ہیں۔ میرے قریبی دوست، ملالہ، صدر زرداری، شاہد خاقان، محمد زبیر، اسحاق ڈار، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، ضیاء شاہد صاحب، حامد میر، ڈاکٹر شاہد مسعود، سمیعہ راحیل قاضی، نور الہدیٰ شاہ، اوریا مقبول، ضیاء یوسف زئی بھائی، جنرل امجد شعیب، جنرل عاصم باجوہ سمیت بہت سارے اور نام، میرے ڈپلومیٹک سرکل سے لے کے شوبز اور میڈیا کے دوست، میرا ہم سب کا ایڈیٹوریل گینگ عدنان اور وصی بابا، میرے خاندان کے قریبی رشتہ داروں سے لے کے وہ بھی جن سے میں نے کبھی زندگی میں بات نہیں کی، تک میرے لئے دعائیں کرتے رہے۔ مجھے لوگوں نے لاک ڈاؤن کے باوجود مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ سے دعائیں بھیجیں۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ اتنے لوگوں کی دعائیں نہ سنے۔

لیکن مجھے سرجری سے ایک دن پہلے کچھ اندازہ ہو چلا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے جو مجھے بچے اور جمشید نہیں بتا رہے، میں نے ریحام کو بھی آخری دن بتایا کہ یہ جس طرح سے رو رہے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ مجھ سے کچھ چھپا رہے ہیں۔ بہرحال مجھے سرجری سے کچھ گھنٹے پہلے پتہ چل ہی گیا کہ وہ کیا چھپا رہے تھے اور شاید میرا بیٹا مجھے مجھ سے بھی اچھی طرح جانتا ہے، میں نے سرجری سے کچھ گھنٹے پہلے consent papers دیکھ کے آپریشن کرانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے سوچنے کے لئے وقت دیں۔ کیونکہ مجھے بتایا گیا کہ کینسرس لمف نوڈز میرے کان اور تھوڑی کے بیچ میں نروز کے اندر تک پھیلی ہوئی ہیں، جو اگر کٹ نہ بھی ہوں تو ٹراما کی وجہ سے ڈیمیج ہوں گی اور یوں چہرے کے فالج کا سو فیصد امکان ہے۔ میری مسکراہٹ فالج کی وجہ سے کبھی بھی ویسی نہیں رہے گی، میری آواز اگر بچ بھی جائے تو ہمیشہ کے لئے بدل جائے گی۔

میرے لئے یہ شاک تھا، میرا سینہ ایک دم بہت بھاری ہو گیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اگر میں ایسے ہی چلوں تو کتنا زندہ رہ سکتی ہوں، ان کا جواب تھا کہ جتنی جلدی آپ کا کینسر پھیل رہا ہے تو شاید آپ اس اگست میں پچاس کی نہ ہو سکیں۔

میں نے کہا کہ مجھے کچھ گھنٹے دیجئے۔ میں نے اپنی بہنوں سے بات کی، لیکن اپنے گھر نہیں بتایا کہ آپریشن کیوں ڈی لے ہو گیا ہے۔ جمشید اور بچوں کو کہا کہ مجھ سے پہلے ایک سیریس کیس آ گیا تھا لہٰذا میرا آپریشن اب کچھ دیر کے بعد ہوگا اور پھر تلاوت شروع کردی۔ ڈاکٹرز نے میری زندگی کی ضمانت دی تھی، مجھے کینسر فری کرنے کی گارنٹی دی لیکن میں کندھے اور آدھے چہرے کے فالج کے ساتھ اپنی آواز کھونے جا رہی تھی۔ میں نے دعا مانگی کہ اگر سورہ رحمان ختم کر کے بھی میری بے چینی جاری رہی تو میں گھر واپس چلی جاؤں گی۔

مجھے یاد نہیں کہ میں نے کتنی بار سورہ رحمان پڑھی لیکن میرے سینے کا بھاری پن نہیں جا رہا تھا۔ اور پھر مجھے ضیاء بھائی کی کال آ گئی۔ مجھے تورپکئی بھابھی نے بتایا کہ وہ میرے لئے سورہ حج کی وہ آیات پڑھ رہی ہیں جو انہوں نے ملالہ کی سرجری کے دوران پڑھی تھیں، میں رو پڑی۔ مجھے نہیں پتہ وہ آنسو کس چیز کے تھے لیکن میرا سینہ ہلکا ہو گیا۔ میں اٹھی، نرس کو کہا کہ مجھے ہاسپٹل کے کپڑے دے، دوبارہ وضو کیا، جمشید اور بچوں کو کال کی، ہسپتال کے کپڑے پہنے، مسکراتے چہرے کے ساتھ ایک تصویر لے کے ٹویٹ کیا ”it’s time“ میرے لئے دعا کریں۔

میں آپریشن تھیٹر جاتے ہوئے اور بیہوشی کا ٹیکہ لگنے تک مستقل نرسز اور ڈاکٹرز سے مذاق کرتی رہی، میری آخری بات ان کی کم تنخواہوں پر تھی کہ میں میٹ ہینکاک کو خط لکھوں گی کہ اس پینڈیمک میں بھی ڈاکٹرز کی اتنی کم تنخواہیں کیوں ہیں۔ اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں۔

میری سرجری ساڑھے آٹھ یا نو گھنٹے جاری رہی، کیونکہ ڈاکٹرز نے حتی الامکان کوشش کی کہ میری کسی نرو کو کٹ نہ آئے۔ مجھے سینٹ جارجز کی بیسٹ ٹیم نے آپریٹ کیا جن میں تین ٹاپ سرجن ڈاکٹر سوچو، ڈاکٹر کم اور ڈاکٹر روز کے ساتھ آٹھ دوسرے سینئر ڈاکٹرز تھے اور ایک روبوٹ تھا۔ وہ نو گھنٹے میرے شوہر اور بچوں کے لئے زندگی کا سب سے بڑا امتحان تھے۔ ڈاکٹر اوفو کے مطابق یہ اس کی زندگی کے مشکل ترین آپریشنز میں سے ایک تھا کہ ایک ذرا سے flick سے میری شہ رگ کٹ سکتی تھی یا کوئی بھی نرو کٹ کے ایک ناقابل تلافی نقصان کر سکتی تھی۔ انہوں نے کینسر زدہ تھائی رائڈ گلینڈ کے ساتھ انتالیس lymphnodes نکالیں، جن میں سے پانچ میلگنینٹ تھیں۔

ڈاکٹرز نے اپنے وعدے کے مطابق میری زندگی بچا لی، میری کسی nerve کو کٹ یا ڈیمیج نہیں کیا میری آواز بھی بچ گئی لیکن میں بائیں ووکل کارڈ میں فالج کی وجہ سے ایک آدھ جملے سے زیادہ نہیں بول پا رہی۔ میرے چہرے اور کندھے پر بھی فالج اتر آیا ہے لیکن میرے فزیوتھراپسٹ کو یقین ہے کہ میں بہتر ہو جاؤں گی۔ میری آواز تو شاید پہلے جیسی نہ رہے لیکن میں اسپیچ تھراپی سیشنز کے بعد بولنا شروع کردوں گی اور نروز کا یہ ٹراما عارضی ہے۔

میں اب بھی ٹیڑھے چہرے کے ساتھ ہر وقت ہنستی رہتی ہوں اور اپنا مذاق اڑاتی رہتی ہوں کہ کسی بوڑھے کھسرے جیسی آواز ہو گئی ہے جو دو جملے بھی نہیں بول پا رہا تو پی ایچ ڈی کا وائیوا کیسے دے گا۔ لیکن میرا بیٹا کہتا ہے کہ ماما تم میرے بچپن کے کھلونے روبوٹ ہو گئی ہو جسے ایک بچے نے توڑ دیا تھا۔ تم اسی ٹوٹے ہوئے روبوٹ کی طرح ہو گئی ہو جو ٹوٹنے کے بعد اپنی گردن نہیں موڑ پاتا تھا اور جس کی آواز میں وائرز کٹنے کے بعد کوئی ایموشن نہیں رہا تھا، تم اسی روبوٹ کی طرح ہو گئی ہو جو میل فنکشن ہونے کی وجہ سے پورے جملے نہیں بول پاتھا تھا۔ ماما ہم تم کو دوبارہ ہیومن دیکھنا چاہتے ہیں، تم جمی کی وارئیر کوئین ہو، ہمیں یقین ہے کہ تم دوبارہ ہیومن وائس میں بولو گی، اور اپنی پر فیکٹ سمائل کے ساتھ گردن موڑ کے ہمیں دیکھ سکو گی۔ اور ہمیں یقین ہے کہ تم ایسا ضرور کرو گی۔

شمع جونیجو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمع جونیجو

شمع جونیجو علم سیاسیات میں دلچسپی رکھنے والی ماہر قانون ہیں۔ یونیورسٹی آف لندن سے ایل ایل بی (آنرز) کے علاوہ بین الاقوامی تعلقات میں میں ایم اے کیا۔ ایس او اے ایس سے انٹر نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز اور ڈپلومیسی میں ایم اے کیا۔ آج کل پاکستان مین سول ملٹری تعلاقات کے موضوع پر برطانیہ میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ تعلیم کے لئے بیرون ملک جانے سے پہلے شمع جونیجو ٹیلی ویژن اور صحافت میں اپنی پہچان پیدا کر چکی تھیں۔

shama-junejo has 15 posts and counting.See all posts by shama-junejo