کیا طارق بن زیاد نے کشتیاں جلائی تھیں؟


دنیا میں دو طرح کے انسان ہیں۔ ایک وہ جو گمنامی کی زندگی گزارتے۔ دوسرے وہ جو کچھ ایسا کر جاتے کہ ہزار سال گزرنے کے باوجود لوگ انہیں بھلا نہیں پاتے۔ اس طرح کے لوگ کیونکہ قومی نفسیات پر حاوی ہوتے اس وجہ سے ان کے تعلق سے بیان کی گی ہر چیز میں لوگ دلچسپی لیتے اور اگر وہ چیز ان کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہو تو وہ اسے مان بھی لیتے۔ یوں کئی شخصیات کے حوالے سے لوگوں میں غلط سلط باتیں مشہور ہو جاتیں۔ کئی بار تو یہ اتنی مشہور ہوتیں کہ بچہ بچہ ان سے واقف ہوتا اور ان کی اسی شہرت کی وجہ سے محققین حضرات بھی بغیر تحقیق اسے آگے بیان کر دیتے۔ محققین کی اس حرکت کا نقصان یہ ہوتا کہ عوامی سطح پر مشہور واقعہ تاریخی حوالہ بن جاتا جب بعد میں کوئی شخص اس پر اعتراض کرتا تو اسے یہ جواب ملتا ” اگر یہ سچ نہیں تو فلاں فلاں مؤرخ نے اسے بیان کیوں کیا؟“

لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ خود ابن خلدون اپنی تاریخ کے مقدمے میں ہمیں سمجھا چکے کہ مؤرخ کو صرف ناقل نہیں بننا چاہیے بلکہ اسے درایت و روایت کے اصولوں سے کام لینا چاہیے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم درایت و روایت کے اصولوں کو اپناتے ہوئے ایسے واقعات کی چھان پھٹک کریں۔ اسی مقصد کے لیے میں نے پوسٹ مارٹم سیریز لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی ابتداء طارق بن زیاد سے کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ یہ واقعہ ایسا ہے جو میں خود بڑے شوق سے بیان کرتا تھا۔ لہٰذا سب سے پہلے تو اسی کی چھان پھٹک ضروری ہے۔

طارق بن زیاد یا طارق بن عمرو ( کچھ کتب میں یہ نام آیا ہے )افریقہ کے بربر قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا۔ پہلے تو غلام تھا لیکن اپنی صلاحیتوں کی بدولت خلیفہ کی نظر میں آ گیا۔ ولید بن عبدالملک نے جب افریقہ( بنو امیہ کے دور کا افریقہ موجودہ دور کے افریقہ کا شمالی حصہ ہے) کو مصر کے صوبہ سے الگ کیا تو وہاں نئے گورنر کے طور پر موسیٰ بن نصیر کو تعینات کیا۔ موسیٰ بن نصیر جب طنجہ (موجودہ مراکش) تک پہنچا تو سامنے اس کے اسپین تھا۔

ابتداء میں طریف بن مالک نخعی کی سربراہی میں چھوٹے دستے بھیجے گے جنہوں نے راستہ صاف کیا۔ پھر طارق بن زیاد کی سربراہی میں ایک بڑا لشکر روانہ کیا گیا۔ طارق جب اسپین پہنچا تو اس نے قرطبہ کی راہ لی لیکن اس سے پہلے اس کی جنگ وہاں کے بادشاہ راڈرک ( عربی کتب میں اس کا نام ادرینوق، لذریق یا رذریق بھی آیا ہے ) سے ہو گئی ۔ یہ جنگ اسلامی تاریخ میں ”معرکۂ وادی لکہ“ کے نام سے جانی جاتی ہے ، انگلش وکی پیڈیا پر اس کا نام ”وار آف گواڈیلیٹ“ ہے۔

اس جنگ کی اصل تاریخ پر تو اختلاف ہے لیکن مہینہ رمضان کا تھا اور سال 92 ہجری تھا جب کہ عیسوی مہینہ جولائی کا تھا اور سال 711 عیسوی تھا۔ اسی جنگ کے تعلق سے وہ مشہور واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ طارق بن زیاد نے کشتیاں جلا دیں تھیں اور کہا تھا پیچھے سمندر اور آگے دشمن۔ علامہ اقبال نے اپنے فارسی اشعار کے مجموعہ ”پیام مشرق“ صفحہ 104 میں نظم ”الملک للہ“ کے تحت اس واقعہ کو شاعرانہ انداز میں بیان کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعہ درست ہے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ چار باتیں سمجھ لی جائیں :

1۔ اگر کوئی واقعہ غیر معمولی شہرت رکھتا ہے تو اس کے شواہد بھی غیر معمولی ہونے چاہیے۔
2۔ قدیم ماخذ میں اس کا ذکر ضرور ہونا چاہیے۔
3۔ اگر بیان کرنے والا عینی شاہد ہے تو اسے وثوق سے بیان کرنا چاہیے نہ کہ وہ تذبذب کا شکار ہو۔
4۔ اگر بیان بعد کے کسی شخص نے روایت کیا ہے تو اسے اپنا ماخذ بیان کرنا چاہیے۔

یہ واقعہ ان تمام شرائط پر پورا نہیں اترتا۔ نہ اس کے شواہد غیر معمولی ہیں نہ قدیم ماخذ میں اس کا کوئی ذکر ہے ، نہ بیان کرنے والا عینی شاہد ہے اور نہ ہی آگے پھیلانے والے کسی ماخذ کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اس سے بڑھ کر اس واقعہ کے ساتھ مذاق اور کیا ہو گا کہ یہ واقعہ سب سے پہلے (میری معلومات کی حد تک اگر کسی کے پاس اس سے بھی قدیم حوالہ ہے تو ضرور بتائے) جس کتاب میں بیان ہوا وہ تاریخ نہیں بلکہ جغرافیہ کی کتاب ہے۔ طارق بن زیاد کے انتقال کے 400 سے بھی زیادہ سال بعد قرطبہ کے ایک جغرافیہ دان شریف ادریسی (وفات 559 ہجری) نے جغرافیہ پر ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے ”نزھة المشتاق“ ہے۔ اس کتاب میں جبل الطارق کا تعارف کراتے ہوئے شریف ادریسی نے لکھا کہ عربوں کے شک کو جو انہیں طارق کی ہمت پر تھا رفع کرنے کی غرض سے کشتیاں جلانے کا حکم طارق کی طرف سے دیا گیا تھا (جلد 2 صفحہ 540) ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے ”یقال“ یعنی ”کہا جاتا ہے“ اب کون ہے کہنے والا کچھ نہیں پتہ۔ پھر اوپر سے طارق بن زیاد کو اس کتاب میں طارق بن عبداللہ لکھا گیا ہے جو کہ اتنی فاش غلطی ہے کہ اس کتاب کا محقق بھی اس کی تردید پر مجبور ہو گیا۔ نیچے حاشیے میں محقق لکھتا ہے: مجھے نہیں پتا کہ کیوں اسے (طارق کو) غلط منسوب کیا گیا۔

لیکن مجھے اس کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے وہ یہ شریف ادریسی اصل میں جغرافیہ کی کتاب لکھ رہے تھے نہ کہ تاریخ کی ، ان کا مقصد صرف اتنا بتانا تھا کہ جبل الطارق کو جبل الطارق کیوں کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہاں یہ ہے کہ اسی کتاب کو بنیاد بنا کر ایک اور جغرافیہ دان امام حمیری (وفات 900 ہجری) نے بھی کتاب لکھی جس کا نام ہے ”الروض المعطار“ جس میں امام حمیری نے اسی عبارت کو ہوبہو نقل کیا بغیر اصلاح کے (صفحہ 224)۔ کمال ہے یہ تو۔

تاریخ کی بات کریں تو صرف دو کتابیں ایسی ہیں جن میں کشتی جلانے کا ذکر ہوا۔ ایک کا نام ہے ”الاکتفاء فی اخبار الخلفاء“ اس کے صفحہ 1007 پر امام ابن الکردبوس نے صرف اتنا لکھا کہ قرطبہ کی جانب جاتے ہوئے طارق نے کشتی جلا دی اور کہا مارو یا مرو۔ لیکن مسئلہ یہاں یہ ہے کہ واقعہ ہے پہلی صدی ہجری کا اور امام ابن الکردبوس ٹھہرے چھٹی صدی ہجری کے اور اوپر کوئی حوالہ نہیں۔ کیسے مان لیا جائے اسے؟

دوسرا حوالہ امام المقری التلسمانی (وفات 1041 ہجری) کا ہے ، ان کی کتاب کا نام ہے ”نفح الطیب“ اس میں جلد 1 صفحہ 240 پر جہاں انہوں نے طارق بن زیاد کے حوالے سے لکھا کہ ”تمہارے آگے دشمن پیچھے سمندر ہے“ خاص وہاں تو کوئی ذکر نہیں کیا کشتی جلانے کا لیکن اسی جلد کے صفحہ 258 پر رڈرک کے ایک پہلوان کی گفتگو لکھی جس میں وہ رڈرک کو کہتا ہے کہ ”تم انہیں ہرا نہیں سکتے کیونکہ یہ کشتیاں جلا کر بیٹھے ہیں۔“ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امام مقری نے اس واقعہ کو ”قِیل“ کہہ کر لکھا ہے یعنی ”کہا جاتا ہے“ ۔ اس سے پتہ چلتا کہ امام مقری کے پاس بھی کوئی ثبوت نہیں ،بس مشہور بات لکھ دی انہوں نے بھی۔

اوپر کے حوالوں سے یہ بات صاف ہو جاتی کہ یہ واقعہ پہلی بار ضبط تحریر میں آیا ہی 400 سال بعد تھا اور اسے بیان کرنے والوں کے پاس بھی سوائے عوامی روایت کے کوئی دلیل نہیں تھی۔ اب یہاں کوئی یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ یہ واقعہ اگر غلط ہے تو اسے بیان کیوں کیا گیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری تاریخ کی کتابیں کسی اصول کو سامنے رکھ کر نہیں لکھی گئیں بلکہ ہر قسم کا رطب و یابس ان میں شامل کر دیا گیا اور فیصلہ بعد والوں پر چھوڑ دیا گیا۔

دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی لڑائیاں چل رہی تھیں ، اس وقت تو لوگوں کو جوش جذبہ دلانے کے لیے اس طرح کے واقعات اچھا اثر ڈالتے ہیں۔ پھر اوپر سے اس میں چونکہ جذبہ ایمانی کا شاندار مظاہرہ ہوا ہے، اس لیے علماء اور صوفیاء نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔

لہٰذا اگر آپ کوئی افسانہ، ناول یا نظم لکھنا چاہتے تو یہ واقعہ آپ کی خوب مدد کرے گا لیکن تاریخی مباحث میں اس کی کوئی جگہ نہیں۔

نوٹ :تنگ دامنی کے سبب کتابوں کے نام اور حوالوں پر اکتفا کیا گیا ہے۔

gibralter world war II mediterranean Theatre

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments