سرکاری اعلان ہوا ہے سچ بولو


انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی شکل و صورت دی ہے کہ اس کی کسی بات، ادا، لباس، حلقہ احباب، طور طریق، وضع قطع اور رہن سہن کو سامنے رکھ کر یا دیکھ کر یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ وہ اندر سے کیسا ہے۔ اکثر یہی بات دیکھی گئی ہے کہ ظاہر سے کچھ نظر آنے والے باطن سے اس کے بالکل برعکس ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نیک بد اور بد نیک ثابت ہوتے ہیں۔ جو لوگ باہر اور اندر سے ایک ہوتے ہیں وہ عملی طور پر شاید اتنے لائق تحسین نہ ہوں جتنے وہ افراد جو ظاہری لحاظ سے تو نہایت خونخوار دکھائی دیتے ہیں ، لیکن جب ان سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ قدم قدم پر حیرت و استعجاب کے پہاڑ کھڑے کرتے چلے جاتے ہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ انسانوں کی چاول کی پوری دیگ کا حال چاول کے ایک دانے سے لگایا جا سکتا ہے، کسی طور درست نہیں ہو سکتا۔

پاکستان کے 22 کروڑ سے زیادہ عوام کے سامنے پی ٹی آئی، اس کے سربراہ، مشیران، ترجمانان حکومت اور وزرا ایسی روشن مثالیں ہیں جن کے متعلق علامہ اقبال آج سے ایک صدی سے بھی پہلے یہ فرما گئے تھے کہ

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا

اپنے حدود اربعہ سے بہت نیک، شریف، صادق، امین اور پاکستان کی کایا پلٹ دینے والوں کے باطن جب قوم کے سامنے آنا شروع ہوئے تو یقیناً قوم کو سخت مایوسی ہوئی ہو گی اور شدید صدمے کے عالم میں یہ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا اب انہیں انسانوں اور انسانیت پر سے اعتبار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اٹھا لینا چاہیے۔

عوام اپنے نئے دعویداروں سے مایوس ہوئے ہوں یا نہ ہوں لیکن ہر وہ فرد یا گروہ جو معصوموں کے ساتھ ہاتھ کرنے والا ہوتا ہے وہ کبھی اپنی ابلیسی چالوں سے مایوس نہیں ہوا کرتا اور انسانوں پر دائیں، بائیں، آگے، پیچھے اور اوپر نیچے سے مسلسل وار کرتا رہتا ہے۔ نیکی کے راستے پر چلنے والے اکثر ناکامیوں پر حوصلہ چھوڑتے اور دل ہارتے نظر آئے ہیں لیکن شاباش ہے کہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا پھیلا کر بھیک مانگنے والے اور شیطانیت کو فروغ دینے والے اپنی مذموم حرکتوں کی ہر ناکامی کے بعد مزید بھیانک انداز میں میدان میں اترتے ہیں اور دیکھا یہی گیا ہے کہ وہ اپنی شیطانیت میں کامیاب ہو کر ہی رہتے ہیں۔

موجودہ حکومت بھی کوئی موقع بھی ایسا ہاتھ سے نہیں جانے دیتی جس کے ذریعے وہ عوام  کو کوئی نیا دھوکہ نہ دے۔مہنگائی کو پرانوں پر ڈال کر کہتے ہیں کہ ہم نے اس پر قابو پانے کے لئے سخت نوٹس لے لیا ہے مگر اگلے ہی دن مہنگائی کا گراف اوپر کی جانب سیدھا ہو جاتا ہے۔ جس مہنگی چیز کا نوٹس لیا جاتا ہے، وہی شے مارکیٹ سے یا تو غائب ہو جاتی ہے یا مہنگی ہو جاتی ہے۔

تازہ ترین خبروں کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں ارکان کی خریدوفروخت کی منڈیاں بند ہونی چاہئیں، اپوزیشن بتائے وہ منڈی کیوں لگانا چاہتی ہے۔ یہ بات تو سچ ہے کہ سینیٹ کے الیکشن میں ہی کیا، یہاں تو ہر شعبہ زندگی میں ”قائداعظم“ کے بغیر کوئی کام نہیں نکلا کرتا۔ نوکریوں کی بولیاں، بلڈ کلیکشن کے نام پر جگہ جگہ کھلے کلیکشن سیٹرز کے ذریعے ”کمیشن“ کا فروغ، پبلک ڈیلنگ کے ہر ادارے میں رشوتوں کے سجے بازار، الیکشن میں عوامی نمائندوں کا کروڑوں خرچ کر کے کھربوں کمانا۔ یہاں نہ جانے کتنے بازار ہیں جن میں یوسف بکتے اور بھائی خرید و فروخت کرتے نظر آتے ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ یہ سب خرید و فروخت کے بازار موجودہ حکومت سے پہلے والوں کے سجائے ہوئے ہیں ، اس لئے موجودہ حکومت ان کے آگے ناک رگڑنے پر مجبور ہے۔

ان سب بیماریوں کے علاج کے لئے حکومت کبھی سپریم کورٹ کے چکر لگاتی ہے، کبھی اسمبلی میں آئینی ترمیمی بل لہراتی ہے اور جب کچھ نہیں بن پاتا تو صدارتی احکامات جاری کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے تاکہ وہ عوام کو یہ باور کرا سکے کہ وہ نیکیوں کے فروغ اور پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور پرکھوں کے بوئے خارزاروں کو جڑوں سے اکھاڑنا چاہتی ہے۔ بس یہی وجہ ہے کہ شاہ محمود قریشی ہاتھ جوڑ کر پورے پاکستان سے یہ اپیل کرتے پھر رہے ہیں کہ ضمیر کے خریداروں کی منڈی بند ہونی چاہیے۔ جو جس پارٹی کے نشان پر منتخب ہو کر آئے ہیں، وہ انہی کو ووٹ دیں۔

بات غلط بھی نہیں ، اس لئے ہر پارٹی کو وہی کچھ کرنا چاہیے جو قریشی صاحب فرما رہے ہیں لیکن اہم سوال تو یہ ہے کہ ان کو آخر اپنے منتخب ارکان اسمبلی اور اتحادیوں پر اعتبار کیوں نہیں ہے۔ اگر وہ سب دولت ہی کے غلام ہیں تو ایسے آستینوں کے سانپ پالے رکھنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آ رہی ہے۔

وجہ کچھ بھی ہو، ہم تو اس اعتمادی و بے اعتمادی کے درمیان پھنسے قریشی صاحب اور ان کی حکومت کی 32 ماہ کی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے اتنا ہی عرض کر سکتے ہیں کہ

جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے سچ بولو
سرکاری اعلان ہوا ہے سچ بولو
گھر کے اندر جھوٹوں کی اک منڈی ہے
دروازے پر لکھا ہوا ہے سچ بولو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).