پی آئی اے: خدارا آگے بڑھیے


\"\"

نامور ہستیوں سمیت سینتالیس افراد لقمہ ء اجل بن گئے۔ ماضی کی طرح اب بھی بحث میں کل وقتی و جزوقتی ماہرین اپنی دانست میں وجوہات کے قلابے ملا رہے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہیں جن کا ہوا بازی سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہا اور کچھ جو اس بارے میں کچھ جانتے ہیں وہ بھی کوئی قابل ذکر راے دینے سے قاصر نظرآتے ہیں کہ حادثے کے بعد صرف بحث کا مرکز یہی ہوتا ہے کہ اس حادثے میں کون جاں سے گیا۔ کس نے حادثے سے چند لمحے پہلے کس سے بات کی، اور کس کے گھر میں اس وقت کون تعزیت کے لیے جا رہا ہے۔ اس سے آگے نہ کوئی سوچنے کو تیار ہے نہ سوچنا چاہتا ہے۔ فضا سوگوار ہے اُس پہ غمگین میوزک بیک گراونڈ میں چلا کر نہ جانے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہمیں کتنا دکھ ہے۔ دکھ کا اثر جان وہی سکتا ہے جس پہ بیتی ہو جن کا بھائی گیا ہو، جن کا بیٹا گیا ہو، جن کا شوہر گیا ہو باقی سب ریٹنگ کے چکر میں اور سب سے پہلے، سب کچھ کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔

ہم حادثات کی ماضی بعید کی تاریخ کو بے شک ایک طرف رکھ دیں۔ اور ماضی قریب کی تاریخ کو سامنے بطور مثال رکھیں تو ہم پہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ہم کنویں کے مینڈک بنے ہوئے ہیں۔ اور اپنے مخصوص دائرے میں گھوم رہے ہیں اور چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ 46ء میں جب قومی ائیر لائن کا آغاز اورینٹ ائیر لائنز(Orient Airlines) کے نام سے ہوا اس وقت سے لے کر آج تک ہم اس ائیر لائن کا عروج بھی دیکھ چکے ہیں اور اب اس کا زوال بھی دیکھ رہے ہیں۔ مگر ہم ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ مرزا احمد اصفہانی اورینٹ ائیر لائنز کے پہلے چیئر مین تھے اور قیام پاکستان کے بعد اس ائیر لائن نے اپنا ہیڈ کوارٹر کراچی منتقل کر لیا۔ 55ء میں اس کو پی آئی اے کا نام دیا گیا۔ اورینٹ ائیر لائنز کی ٹیل پر بھی پاکستان کے قیام کے فوراً بعد پاکستان کا جھنڈا نظر آنے لگا تھا۔ اس ابتدائی ائیر لائن کا قیام بنیادی طور پر اس دور میں چند صاحب ثروت نے قائد کی خواہش پہ عمل میں لایا تھا تا کہ آنے والے دنوں میں نئے وطن کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ پی آئی اے اپنے دور کی دوسری ایشین ائیر لائن تھی جس کے زیر استعمال بوئنگ 707 آیا۔ اس کے علاوہ یہ پہلی ایشین ائیر لائن بھی بنی جو اس دور میں مشہور لاک ہیڈ امریکی طیارے زیر استعمال لائی۔

1959 میں ائیر مارشل نور خان کے بطور منیجنگ ڈائیریکٹر پی آئی اے تعیناتی قومی ائیر لائن کا یقیناًسنہرے دور کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔ اور جو پاکستانی بیڑے کا حصہ بوئنگ 707بنا وہ بھی انہی کے دور میں بنا اس سے پہلے ایشیاء میں صرف ائیر انڈیا کے پاس یہ سفری ہوائی جہاز موجود تھا۔ 70ء کی دہائی میں بھی ائیر مارشل نور خان کے پاس دوبارہ بھاگ دوڑ آنے پر قومی ائیر لائن مالی منافع بخش ادارہ بن چکی تھی۔ یہی وہ وقت بھی تھا جب پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کو ایشیاء کی بہترین ائیر لائن گردانا جانے لگا تھا۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ساٹھ اور ستر کی دہائیاں قومی ائیر لائن کے سنہرے دور میں شمار کی جا سکتی ہیں۔ 80ء کی دہائی میں جب قومی ائیر لائن کے فضائی بیڑے میں بوئنگ 737۔ 300s جہاز شامل کیے گئے تو یہ خطے کی فضائی بیڑے کے لحاظ سے بہترین ائیر لائن شمار کی جانے لگی تھی۔ 90 میں ملیحہ سمیع پی آئی اے کی پہلی خاتون پائلٹ بھی بنیں۔ ایمریٹس ائیر لائن مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی اور دنیا کی چوتھی بڑی سفری فضائی ائیر لائن ہے۔ لیکن آپ کو یہ سن کر یقیناًحیرانگی ہو گی موجودہ دنیا کی چوتھی بڑی ائیر لائن کا آغاز پاکستان کی قومی ائیر لائن بنی جس نے 85ء میں ایمریٹس کو اپنے دو طیارے لیز پر دیے جو اس کامیاب ترین فضائی کمپنی کا نقطہ ء آغاز ثابت ہوا۔ نوے کی دہائی تک پاکستان کی قومی ائیر لائن کی ترقی کا سفر کسی نہ کسی طرح جاری رہا۔ مگر اس کے بعد سیاسی حالات، بھرتیوں میں مداخلت، پائلٹس کی من مانیوں، عملے کی ملی بھگت، انتظامیہ کے غیر ذمہ دارانہ فیصلوں کی وجہ سے آج حال یہ ہے کہ نہ یورپی یونین ہمارے جہازوں پر اعتماد کرتی ہے۔ نہ ہی ملکی مسافر اپنی قومی ائیر لائن پر اعتبار کرتے ہیں۔

اس قومی ادارے کا آج حال یہ ہو گیا ہے کہ جس کمپنی نے پاکستان کے دو جہاز ادھار لے کر اپنی سروس شروع کی تھی آج اس کے فضائی بیڑے میں246 مختلف قسم کے جہاز شامل ہیں۔ جب کہ کل ادھار دینے والے ادارے کے پاس آج صرف36 جہاز ہیں۔ 85 میں آغاز کرنے والی ائیر لائن اس وقت141 منازل پہ دوڑ رہی ہے جب کہ 46ء سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والی ہماری قومی ائیر لائن بمشکل 50 جگہوں پہ پہنچ پا ررہی ہے ان میں سے بیشتر پر ناقص جہازوں و نامناسب سہولیات کی وجہ سے منسوخی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ جو سفر ہم 70سالوں میں نہیں طے کر پاے ہماری مدد پا کر دوسروں نے 31 سالو ں میں طے کر لیا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان کا سفر آگے بڑھ رہا ہے مگر ہمارا سفر تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ اور اب تو سونے پہ سہاگہ ہوا کہ کسی اچھے دور کے خریدے گئے ادارے کے روزویلٹ ہوٹل، نیو یارک، اور سوفی ٹیل پیرس جیسے بیش قیمتی ہوٹلز کی وجہ سے اسے نجکاری کی طرف بھی دھکیلا جا رہا ہے۔

ایک عام پاکستانی کی طرح میرا بس اتنا سا سوال ہے کہ اس قومی ادارے کو بیچنے کی بجائے ان دونوں غیر ملکی اثاثوں کی کمائی ہی اس کی بہتری پہ کیوں نہیں لگا دی جاتی کہ یہ اپنا ڈولتا ہوا وقار بحال کر پاے۔ حادثات ہوئے، معیار گرا، اعتماد متزلزل ہوا۔ سب باتوں کو چھوڑ دیجیے، آگے بڑھیے۔ اور بیچنے کے بجاے اس کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا سوچیے۔ کالے بکروں پہ انحصار کرنے کے بجائے اس کا وہ سنہری دور واپس لانے کی کوشش کیجیے جو ساتھ اور ستر کی دہائی میں تھا۔ کسی ایک ادارے پہ تو رحم کیجیے۔ ہم آپ کے مشکور ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments