توجہ کے طلب گار لوگوں کا المیہ


انگریزی زبان کا ایک لفظ ہے، Attention Seeker یعنی توجہ کا طلب گار۔

اس کا مطلب ہے وہ اللہ کا بندہ یا بندی جسے ہر وقت یہ تمنا ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ اس پر توجہ دیں اور اس کی بات دھیان سے سنیں۔ بظاہر اس میں کوئی بری بات نہیں ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو توجہ کی خواہش ہوتی ہے اور کوئی شخص بھی یہ نہیں چاہتا کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے۔

پرانے زمانے میں اکثر بیویاں اپنے خاوند حضرات کی توجہ حاصل کرنے کے لیے سر پر پٹی باندھ لیتی تھیں تاکہ میاں انھیں تسلی کے دو لفظ ہی بول دے۔ آج کل کے دور میں بھی ہمارے اردگرد بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں۔ ایک چھوٹا سا بچہ اپنی مصروف ماں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے روتا ہے تاکہ ماں اسے گود میں لے، بہلائے اور پیار کرے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ہمیں اپنے معاشرے اور قومی منظرنامے پر بھی نظر آتی ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ہم سب لوگ توجہ کے طالب ہیں، ہم سب چاہتے ہیں کہ ہماری بات کو دھیان سے کان لگا کر سنا جائے اور ہمیں ہمارے ہونے کا احساس دلایا جائے۔ اسی لیے ہم میں سے کچھ لوگ، صحیح یا غلط سے بے پروا، کسی بھی قسم کی بحث کے عین بیچ میں کود پڑتے ہیں۔ انھیں اس کی قطعاً پروا نہیں ہوتی کہ ان کی بات صحیح ہے یا غلط۔ انہیں تو بس توجہ چاہیے ہوتی ہے۔

توجہ کی خواہش جب حد سے بڑھ جائے تو ایک نفسیاتی بیماری میں تبدیل ہو جاتی ہے جسے ڈاکٹر لوگ ایچ پی ڈی کہتے ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا لوگ اپنے بارے میں دوسروں کی رائے کے محتاج ہوتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے نئے کپڑوں اور جوتوں کا نوٹس لیں۔ آپ نے کس نئے ریستوران میں کھانا کھایا، آپ کس مشہور ہستی سے ملے یا آپ نے پچھلی بار موسم گرما کی چھٹیاں کیسی گزاریں؟ یہ سب کچھ بتانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں وہ تسلی اور سکون ملے جو محض دوسروں کی عطا کردہ توجہ سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔

ایسے لوگ اپنے ساتھ رہنے کے عادی نہیں ہوتے، تنہائی سے گھبراتے ہیں اور توجہ نہ ملنے پر شدید بوریت اور جھنجھلاہٹ سے گزرتے ہیں۔

آپ سوشل میڈیا پر ٹک ٹاک یا انسٹا گرام کا جائزہ لیں۔ یوٹیوب پر دیکھے جانے والی وڈیوز پر نظر دوڑائیں یا ٹویٹر سے حال احوال معلوم کریں، آپ کو اقبال کا شاہین خود پسندی کی عجب پستیوں پر نظر آئے گا۔ اپنی تصویریں پوسٹ کر کے لوگوں سے لائک کروانے کی خواہش، تعریف بھرے جملے اور لا تعداد شیئرز کی تمنا، کچھ یہی حال ان بڑے اور مشہور لوگوں کا بھی ہوتا ہے جو شہرت کے نشے میں دھت مرکز نگاہ رہنے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان کا عروج ان کو یہ حقیقت بھلا دیتا ہے کہ دنیا میں کوئی شخص بھی ناگزیر نہیں اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ان کی جگہ ان سے بہتر لوگوں کی جانب دنیا متوجہ ہو گی۔

توجہ کے پیاسے اور نرگسیت کے مارے ایسے لوگوں پر جب بالآخر گوشہ نشینی طاری ہوتی ہے تو اک بے نام حسرت و یاسیت ان کا مقدر ہوتی ہے۔ پردہ سکرین کی رعنائیاں ہوں یا محفلوں کی جان سمجھی جانی والی شخصیات، بالآخر شہرت کا بلبلہ جب پھوٹتا ہے تو تمام توقعات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں بقول بشیر بدر:۔

شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے
جس ڈال پر بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).