پنجاب کی دانش کا وارث: انورعزیز چودھری


مرحوم انور عزیز چودھری نے پرشکوہ اور طویل ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔ آخری لمحوں تک سربلند اور سرخرو رہے۔ الزامات اور تہمتیں ان کے اجلے دامن کو آلودہ نہ کر سکیں لیکن بعد از مرگ ان پر عجیب و غریب الزام عائد کیا گیا کہ وہ مسلم لیگ نون کے رہنما تھے حقیقت یہ ہے کہ مرحوم انور عزیز چودھری کا نواز لیگ سے دور نزدیک کا کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا۔ ذاتی طور پر وہ آل شریفین کے شدید نظری و فکری مخالف تھے۔ ادریس تاج کے قتل میں بے گناہ ملوث کیے گئے

اپنے صاحبزادے دانیال عزیز کے نا اہل قرار پانے کے بعد مرحوم چودھری صاحب نے ”شیر“ کے نشان پر الیکشن لڑنے سے صاف انکار کر کے شکر گڑھ کی علاقائی سیاست کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔ مصلحت پسندی ان کے قریب سے نہیں گزری تھی۔

مرحوم انور عزیز چودھری پر یہ الزام بھی لگایا گیا ہے انہوں نے 24 سو کنال سرکاری اراضی پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ بھیڑ پال سکیم کے تحت یہ بنجر، ناممکن اور ناقابل کاشت اراضی 60 برس پہلے سرگودھا کے نوجوان وکیل انور عزیز چودھری کو الاٹ کی گئی تھی جس کا اس وقت سیاست سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان کا تعارف گورنمنٹ کالج لاہور اور ان کے خدا ترس اور نیک نام معالج والد ڈاکٹر عبدالعزیز چودھری تھے۔ دانیال عزیز چودھری تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جن کی آڑ میں کرپشن اور قبضہ گروپوں کی کہانی کا ساتواں باب تخلیق کیا گیا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جو سرکاری دستاویزات جاری کی گئی ہیں، اس میں انور عزیز چودھری کی بجائے کسی چودھری عزیز کا ذکر کیا گیا ہے۔ دعوی یہ کیا گیا ہے کہ مجوزہ زمین کو واگزار کرا لیا گیا ہے جبکہ حقائق یہ ہیں کہ اسسٹنٹ کمشنر اور خاتون ڈپٹی کمشنر کو گرفتار کر کے ہتھکڑیوں میں عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ خاتون ڈپٹی کمشنر کو احتراماً ہتھکڑی نہ لگائی گئی تھی۔ بوسٹن گریجویٹ دانیال عزیز کریمنل کورٹ پروسیجر کے تحت عدالت میں جائیں گے تو نت نئے تماشے ہوں گے۔

یہ کالم نگار پندرہ برس، دن رات انور عزیز چودھری کے ساتھ ہم نشین و ہم سفر رہا تھا۔ ایک آدھ دن نہیں، کامل پندرہ برس کا ساتھ تھا۔ اتنا طویل سفر ہو تو مسافر بھی اکتا جایا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی شکل دیکھ دیکھ کر تنگ آ جایا کرتے ہیں لیکن میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہر آنے والے لمحے، چودھری صاحب کی محبت اور احترام میں اضافہ ہی ہوا، انگریزی، اردو، فارسی اور پنجابی اساتذہ کے کلام کے عاشق زار، میاں محمد بخش عارف کھڑی شریف کی سیف الملوک کے حافظ، انور عزیز چودھری کا کوئی باقاعدہ ذریعہ معاش، کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا۔ ان کا گزارا اپنے بینکار بڑے بیٹے، عادل عزیز کے ماہانہ بھجوائے جانے والے جیب خرچ پر ہوتا تھا مجلس آرائی اور مطالعہ چودھری صاحب کے دو شوق آخری سانس تک ساتھ ساتھ چلے جبکہ تیراکی کو اپنی عیاشی قرار دیتے تھے۔ انور عزیز چودھری کا کوئی بنک اکاؤنٹ کبھی نہیں رہا تھا، کبھی بھی نہیں۔ انہوں نے مال چھپانا کہاں تھا۔ ساری ساری رات انگریزی اور اردو ادب کے پیچ و خم سلجھانے والے انور عزیز چودھری اور یہ کالم نگار برس ہا برس ایک کمرے میں رہے۔ ان سے بڑا صاحب مطالعہ شخص آج تک نظر سے نہیں گزرا۔ ہم نے چین، امریکہ اور بھارت کے دور دراز سفر اکٹھے کیے لیکن انہیں ہمیشہ سیر چشم، فراخ دل اور مہربان پایا۔ اپنے چاہنے والوں کی جائز ناجائز برداشت کرنے والا، ایسا مہربان سانتاکلاز، جو کرسمس ہو نا ہو، اپنے بچوں کے لئے تحائف اور خوشیاں لاتا ہے۔

اس کالم نگار اور چوہدری صاحب کی عمروں میں کم وبیش 40 برس کا فرق تھا لیکن ان کا کمال یہ تھا علم و ادب، مقام و مرتبہ تو کجا، کبھی اپنی بزرگی کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔ ہم جیسوں سے بھی ہمیشہ برابری کی سطح پر آ کر بات کی۔ رکھ رکھاؤ، ادب آداب کی ایسی تربیت کی، ایسا ذوق مطالعہ پروان چڑھایا کہ سبحان اللہ۔ پنجاب کی دیہی دانش میں گندھی ایسی حقیقتوں اور سچائیوں سے روشناس کرایا کہ ہماری روایتی پنچایتوں میں علم الکلام کے بڑے بڑے شناور ہاتھ ملتے رہ گئے۔

چودھری صاحب نے ساری زندگی کرائے کے گھروں میں گزار دی۔ برس ہا برس اسلام آباد میں میرے ہاں مقیم رہے۔ جب ہم اسلام آباد کے نواحی بستی میں میڈیا ٹاؤن آ گئے تو موصوف انگریزی کے پر شکوہ نثر نگار عامر متین کے ہاں منتقل ہو گئے وہی عامر متین جو اب ٹی وی کی جادوئی سرمئی سکرین پر الفاظ سے جادو جگاتے ہیں۔

انور عزیز چودھری خواب و خیال کی دنیا کے آدمی تھے۔ کتابوں میں کھوئے رہتے۔ اگر ان کی طلسم ہوش ربا زندگی کے واقعات سنانا شروع کروں تو شاید وہ طلسماتی داستان بھی ماند پڑ جائے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے یہ کالم نگار بین الاقوامی براڈ کاسٹروں کے اجتماع میں شرکت کے لئے جکارتہ گیا ہوا تھا۔ فون کر کے چودھری صاحب کی لاہور موجودگی یقینی بنانے کے بعد اپنی ہنگامی آمد سے آگاہ کیا۔ لاہور پہنچا تو گھر گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ پتا چلا کہ عدم ادائیگی کی وجہ سے بجلی کٹ چکی ہے اور چودھری صاحب موم بتی کی روشنی میں مطالعے سے شغف فرما رہے ہیں۔ انہیں ذرا ملال نہیں تھا۔ کہنے لگے بیرونی امداد آنے میں ابھی دیر تھی، بل پہلے آ گیا ادا نہ ہوسکا اس لئے بجلی کٹ گئی۔ سردی ہے، کوئی فرق نہیں پڑا۔ بیرونی امداد کے بارے ان کا اشارہ سنگاپور سے عادل عزیز کی بھجوائی جانے والی رقم کی طرف تھا۔

یہ چودھری کی اکلوتی صاحبزادی پروفیسر کرن کے جنازے کا منظر ہے شکر گڑھ مہری پور کے چھوٹے سے گاؤں سے ہارورڈ یونیورسٹی تک کا پر شکوہ سفر کچھ یوں تمام ہوا کہ پروفیسر کرن عزیز چودھری نے واپس آ کر اپنی دھرتی پر دفن ہو کر اپنے اجداد سے اپنے والہانہ لگاؤ کو زندہ مجسم کر دیا۔

‏‎ ”میرا مالک پروفیسر کرن ورگیاں دھیاں سب نے دیوے او تے مر کے وی بابے انور عزیز دا اگا صاف کر گئی اے“ نمازجنازہ کی ادائیگی کے بعد شکر گڑھ کے دو بزرگ دیہاتی آپس میں گفتگو کر رہے تھے اور یہ کالم نگار دکھ کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ان کی دیہی دانش سے بھرپور باتیں سن رہا تھا۔ وہ بزرگ کہہ رہا تھا کہ سنیا کرن بی بی نے ایتھے دفن ہون دی وصیت کیتی سی بابے دے نال دفن ہونا چاہندی سی، پر مالک نو کجھ ہور ہی منظور سی۔ بابا بیٹھا رہ گیا دھی اگلے جہان چلی گئی ”واہ مولا تیرے رنگ نیارے نے کرن بی بی دی وصیت“ چودھری دا ڈیرہ ”آباد کر دتا اے“

(اللہ تعالی پروفیسر کرن عزیز چودھری جیسی بیٹیاں سب کو عطا کرے جو مرنے کے بعد بھی اپنے والد گرامی انور عزیز چودھری کی راہ کے کانٹے چن گئی راستہ صاف کر گئی سنا ہے کرن بی بی اپنے والد کے پہلو میں دفن ہونا چاہتی تھی یہ اس کی وصیت کی تھی لیکن اللہ تعالی کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ انور عزیز چودھری صاحب کو بیٹی دفنانا پڑی۔ پروردگار کی مرضی کے مختلف رنگ اور زاویے ہیں لیکن کیا بیٹی تھی کہ کرن بی بی کی وصیت نے ”چودھری دا ڈیرہ“ آباد کر دیا ہے۔)

یہ دونوں بزرگ انور عزیز چوہدری کی صاحبزادی ‎ ڈاکٹر کرن عزیز چوہدری کو نماز جنازہ کے بعد خراج عقیدت پیش کر رہے تھے۔

چودھری صاحب کے سیاسی حریف شد و مد سے پراپیگنڈہ کرتے تھے کہ ساری زندگی باہر گزاری اینہاں دا شکر گڑھ نال کی ’سیر سانجھ‘ اے (چودھری انور عزیز اور ان کے بچوں کا شکر گڑھ سے کیا تعلق ہے) جو پروفیسر ڈاکٹر کرن عزیز چودھری نے شکر گڑھ میں اپنے لان میں دفن ہو کر اس پراپیگنڈے کو ہمیشہ کے لئے حرف غلط کی طرح مٹا کر رکھ دیا اور اپنی دھرتی سے محبت کی لازوال داستان رقم کی جو صدیوں قرنوں تک پنجاب کی چوپالوں میں دہرائی جایا کرے گی۔

انور عزیز چودھری لمحہ موجود کے آدمی تھے۔ نہ کبھی کل کی فکر کی نہ سود و زیاں کے حساب کتاب میں پڑے۔ چودھری صاحب نے 90 برس عمر پائی۔ ہنگامہ خیز زندگی گزار کر۔ اچانک ایسی تیزی سے سفر آخرت کو روانہ ہوئے چاہنے والے بے بسی سے ہاتھ ملتے رہ گئے

نہ در نہ دربان، ‎ مرحوم انور عزیز چودھری کا ‎جنگل کنارے ڈیرہ ایسے ہی تھا جس کا کوئی مرکزی دروازہ نہیں تھا نہ کوئی باڈی گارڈ، نہ ہٹو بچو کی صدائیں نہ بندوقوں کا دکھاوا۔ ‎ان جیسا دانشور، دانش مند نہ سنا، نہ دیکھا

‎سادہ اطوار اور عوامی طبع و مزاج کے حامل انور عزیز چودھری پنجاب کی دیہی دانش کا حقیقی استعارہ تھے جو تازہ ترین معلومات اور تجزیے سے مزین ہوتی تھی۔ آخری مہینوں میں سمارٹ فون چلانا سیکھ لیا تھا۔ بھارت چین کشیدگی اور لداخ کے میدان جنگ بارے تشویش میں مبتلا تھے۔ اسی طرح پاکستان کی سلامتی بارے میں فکر مند رہتے۔

‎یہ کالم نگار کرونا کے عروج پر ڈیڑھ ماہ دن رات ان کے ساتھ رہا کہ مدتوں بعد ہمیں کرونا نے دوبارہ یکجا کر دیا تھا۔ ‎پھر مجھے ہنگامی طور پر کابل جانے کے لیے روانہ ہونا پڑا۔ پشاور پہنچا تھا کہ ان کی اکلوتی اور چہیتی بیٹی ڈاکٹر کرن عزیز چودھری کی ناگہانی موت کی اطلاع ملی تو راستے ہی سے واپس آ گیا کہ چودھری صاحب کو اتھاہ دکھ کے ان لمحات میں تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ واپس پہنچا تو دیکھا کہ ایک رات میں ہی چودھری صاحب بوڑھے ہو چکے تھے۔ شیر دلیر انور عزیز چودھری گم سم بیٹھے تھے مجھے دیکھتے ہی کہا ”خان صاحب میرے نال بڑا ظلم ہو گیا، لک ٹٹ گیا ہے“ خاموشی سے سنتا رہا۔ غم کے سناٹوں نے چودھری صاحب کا محاصرہ کر لیا تھا۔

‎مہا گرو انور عزیز چودھری سے تعلق خاطر کو تین دہائیاں بیت گئیں۔ لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی محبت اور عظمت کا نقش گہرا ہوتا چلا گیا۔

‎ تادم آخر جب کبھی اکٹھے ہوتے ایک ہی کمرے میں قیام کرتے، ساری ساری رات گفتگو گپ شپ میں گزار دیتے۔ کرونا کی ظالم رت کا پہلا وار مل جل کر برداشت کیا۔ ڈیڑھ ماہ ان کی ہمشیرہ کے گھر پڑے رہے۔ ڈاکٹر رزاق مرحوم کا سارا گھرانا ہمارے لئے چشم براہ رہا کرتا تھا۔ لداخ میں بھارت چین کشیدگی، عمران خان کی حکومت اور کورونا وبا موضوع گفتگو رہی اور معاملہ کچھ یوں ہوتا کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ چودھری صاحب ساری ساری رات مطالعہ کرتے رہتے۔ تاریخ، سیاست اور دفاعی امور پر کتابیں ان کی زندگی کا جزو لاینفک تھیں۔ یہ کالم نگار راتوں کو کئی بار سوتا جاگتا اور چودھری صاحب کو کتابوں میں مگن پاتا۔ مجھے بیدار دیکھ کر کتاب ایک طرف رکھ دیتے اور کسی بھی موضوع پر زمانے بھر کے قصے کہانیاں شروع ہو جاتیں، ہمارے پیارے شاہ جی، سید والا تبار عباس اطہر فرمایا کرتے تھے چودھری صاحب کے ہاتھوں میں سوراخ ہیں رقم ان کے ہاتھوں میں ٹھہر نہیں سکتی۔ ‎عملیت پسند سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی پائے کے فلاسفر تھے حکمت کار تھے اور متنوع اقسام کے دوستوں کے دلدار تھے لیکن سیاست میں قبائلی وفاداری کی بجائے اپنے حلقہ انتخاب میں ہر حال میں فتح پر یقین رکھتے تھے۔

‎اس کالم نگار کے لئے عملی زندگی کی عظیم الشان درس گاہ تھے۔ اسلوب زندگی کے ایسے سبق سکھائے میل ملاپ اور برتاو سکھایا۔ طویل عرصہ جیے اور اپنے مرحوم دوستوں کی اولادوں کے سر پر ترجیحاً دست شفقت رکھا۔

‎گزشتہ مہینوں میاں زاہد سرفراز کی عیادت اور ان کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے لائل پور کا پروگرام بنایا۔ مجھے اسلام آباد سے سیدھا گورونانک پورہ پہنچنے کا فرمان امروز جاری کیا۔ یہ کالم نگار پودوں کے عاشق زار میاں زاہد سرفراز کے لیے کلر کہار سے کچھ نایاب قسم کے پودے لے جانے کے چکر میں آدھی رات کو پہنچا تو تینوں مہربان زید اختر خان سمیت بھوکے بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے کہ کھانا اکٹھے کھائیں گے۔

‎چودھری صاحب شخصی زندگی میں پرائیویسی کا ازحد خیال رکھتے تھے لیکن دوستوں کے مسائل کو ذاتی دکھ سمجھ کر حل کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے۔

‎چودھری صاحب حقیقی معنوں میں روشن خیال اور ترقی پسند نظریات کے حامل تھے لیکن دو قومی نظریے پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ایمان رکھتے تھے۔ مولوی سعید کی کتاب ”آہنگ باز گشت ’کی فوٹو کاپیاں سینکڑوں کی تعداد میں دوست احباب کی نذر کیں۔

پروفیسر کرن کا صدمہ بظاہر برداشت کر گئے تھے لیکن اندر سے ٹوٹ گئے تھے 6 نومبر کو سالگرہ پر چند احباب اکٹھے ہوئے لیکن ماحول پر غم کے سائے اور دکھ کی گہری پرچھائیاں چھائی ہوئی تھیں۔ ٹھیک ایک ماہ بعد ان کی اہلیہ کیتھی بھابھی نے عہد وفا کی رسم کچھ ایسے نبھائی کہ آناً فاناً ان کے پیچھے پیچھے سفر آخرت پر روانہ ہو گئیں۔

جنگل کنارے انور عزیز چودھری کے ڈیرے کے وسیع وعریض سبزہ زار کے کنارے مٹی کی دو ڈھیر یاں اپنی دھرتی ماں سے محبت کی لازوال کہانی  بیان کر رہی ہیں۔ یہ پروفیسر کرن عزیز اور انور عزیز چودھری کی قبریں ہیں۔
بہتا رون گے دلاں دے جانی
ماپے تینوں گھٹ رون گے

بشکریہ ایکسپریس

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan