خواجہ سراؤں کا والی وارث کون؟


چھ ماہ قبل میں نے سوشل میڈیا پر ”خواجہ سرا“ کے نام سے ایک اکاؤنٹ دیکھا۔ اسے فرینڈ ریکوسٹ بھیجی اور اس طرح ہماری دوستی ہو گئی۔ میں بڑے شوق سے اس کی پوسٹس پڑھتا اور ان پر خیالات کا اظہار کرتا۔ ایک دن میں نے اس خواجہ سرا سے کہا کہ میں آپ کا انٹرویو لینا چاہتا ہوں برائے مہربانی اپنا نمبر ارسال کر دیں۔ اس نے نمبر تو دے دیا لیکن میری کال کبھی اٹینڈ نہیں کی۔

میرے اندر خواجہ سراؤں کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ پہلے سے ہی موجود تھا۔ اس لیے میں نے ان کے سوشل میڈیا پیجز جوائن کرنا شروع کر دیے۔ سوشل میڈیا پر خواجہ سراؤں کے پیجز پر سوائے مایوسی کے اور کچھ نہ تھا۔ لوگوں کو اپنے حقوق کے لئے متحرک کرنے کا گر میں پہلے سے ہی جانتا تھا۔ اس لیے میں نے ان پیجز پر رہنے کا فیصلہ کیا۔

ابتدا میں ان پیجز پر خواجہ سراؤں کے حقوق سے جڑی ماضی کی تحریکں شیئر کرنا شروع کیں۔ پھر میں نے ان پیجز پر باقاعدگی سے لکھنا شروع کر دیا۔ روزانہ نماز فجر کے بعد خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق کوئی پوسٹ کر دیتا جس پر سارا دن بحث چلتی رہتی۔ اس سلسلے نے خواجہ سراؤں کے پیجز سے مایوسی کو کم کرنے میں کافی مدد فراہم کی۔

اس تحریک کے دوران میری بہت سے خواجہ سراؤں سے دوستی ہو گئی، مسائل کو بھرپور انداز میں جاننے کا موقعہ ملا، کچھ خواجہ سراؤں کے انٹرویوز بھی شائع کیے۔

خواجہ سراؤں پر تشدد کے بڑھتے واقعات کی بات کی جائے تو 2015 سے اب تک 1500 سے زائد خواجہ سراؤں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے، 68 قتل کیے جا چکے ہیں جبکہ آئے روز پرتشدد واقعات کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہتی ہیں۔ تشدد کے بڑھتے واقعات نے خواجہ سرا کمیونٹی کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ اکیلے رہنے لگے ہیں۔ کسی سے بات نہیں کرتے، کسی کو اپنا نمبر نہیں دیتے۔ انہیں ہر شخص ظالم، جابر اور قاتل محسوس ہوتا ہے۔

خواجہ سراؤں کے ساتھ مختصر سے مراسم کے بعد مجھے تشدد کے واقعات کی تین بنیادی وجوہات نظر آئیں ہیں۔

پہلی وجہ یہ ہے کہ خواجہ سراؤں کو کم عمری میں گھروں سے نکال دیا جاتا ہے۔ والی وارث نہ ہونے کی وجہ سے انہیں تشدد اور ہراسانی کے لئے آسان ترین شکار سمجھا جاتا ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر خواجہ سرا نجی محفلوں میں ناچ کر، سیکس ورک کر کے یا بھیک مانگ کر گزر بسر کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے با آسانی غلط لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں میں خواجہ سراؤں کے حوالے سے مختلف رویے پائے جاتے ہیں۔ سندھ کے لوگ خواجہ سراؤں کو خدا سے قریب تصور کرتے ہیں ، اس لیے ان سے دعائیں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کراچی کے اردو بولنے والے خواجہ سرا بھی سندھ کے ڈیروں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہاں ان کی جان اور عزت دونوں محفوظ رہتے ہیں۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں خواجہ سراؤں کے حوالے سے سخت رویے پائے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے تشدد کے بیشتر واقعات انہی صوبوں سے رپورٹ ہوتے ہیں۔

آئے روز تشدد کے واقعات کی ویڈیوز وائرل ہوتی رہتی ہیں۔ ایک آدھ دن شور ہوتا ہے۔ پھر بات دب جاتی ہے پھر اور کوئی نئی ویڈیو آ جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان پر تشدد واقعات میں کیسے کمی لائی جا سکتی ہے؟

اس معاملے پر میری ناقص رائے یہ ہے کہ اگر ہماری وزیر انسانی حقوق تشدد کے ان واقعات کا سختی سے نوٹس لینا شروع کر دیں ، موقعے پر جائیں ، متاثرہ خواجہ سرا کے سر پر ہاتھ رکھیں اور سخت ترین کارروائی کا حکم صادر کریں۔ مجرموں کے خلاف ہونے والی کارروائی کو میڈیا پر بھرپور انداز میں نشر کیا جائے۔ اس طرح کے اقدامات سے تشدد کے واقعات میں واضح کمی لائی جا سکتی ہے۔

اس اقدام سے ملک کے طول و عرض میں ایک پیغام جائے گا کہ خواجہ سرا اکیلے نہیں ہیں بلکہ ریاست ان کے ساتھ کھڑی ہے، دوسری طرف خواجہ سرا کمیونٹی میں عدم تحفظ کے احساس میں کمی لانے میں بھرپور مدد ملے گی۔ جب تک حکومت ان واقعات کا سختی سے نوٹس نہیں لے گی اس وقت تک تشدد کے ان واقعات میں کمی لانا ناممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).