خوش رہنا کیوں ضروری ہے؟


دنیا میں کوئی ایک ایسا انسان نہیں ہے جسے دکھی رہنا پسند ہو۔ دنیا کا ہر انسان خوش رہنا چاہتا ہے۔ اب سوال یہ کہ انسان ہمیشہ خوش کیسے رہے؟ دنیا کی کسی تعلیمی درسگاہ میں کیا یہ سمجھایا، پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے کہ انسان کیسے خوش رہ سکتا ہے؟ جدید دور میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے کسی اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ انسان ہر وقت، ہر لمحے کیسے خوش رہ سکتا ہے اور یہی اس دنیا کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

کیا انسان کے لئے اس سے بڑا کوئی المیہ ہو سکتا ہے کہ اس کے پاس دنیا کی ہر چیز ہو مگر وہ خوشی کے لئے ترس رہا ہو۔ سوچیں انسان کے پاس دنیا کی جدید ترین سہولیات نہ ہوں، وہ غریب ہو لیکن خوش و خرم زندگی گزار رہا ہو اس سے بڑی نعمت اور کیا ہو سکتی ہے؟ انسان کے لیے خوشی سب سے بڑی نعمت ہے۔ جو انسان خوش ہے اس کے لیے زندگی جنت جیسی ہے اور جس انسان کے پاس دنیا کی ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی چیز ہے لیکن وہ خوش نہیں اور دکھی ہے تو اس سے بڑا بدقسمت انسان کوئی نہیں۔

اس مادی دنیا میں خوش رہنا سب سے بڑا آرٹ ہے لیکن غور کریں اس آرٹ کے بارے میں انسانوں کو نہ کچھ سمجھایا جاتا ہے اور نہ ہی پڑھایا جاتا ہے۔ کیسی بدقسمت دنیا ہے جہاں دکھ کی تبلیغ کی جا رہی ہے اور خوش رہنے کو بے وقوفی اور گناہ سمجھا جا رہا ہے، کیا دنیا میں اس سے بڑا کوئی المیہ ہو سکتا ہے؟ اس دنیا میں بیچارے انسان خوش رہنے اور اپنی خوشی کا اظہار کرنے سے بھی خوف کھاتے ہیں۔ گھر سے باہر کی دنیا تک انسان ہر لمحے اپنے دکھ کو شیئر کرتا رہتا ہے۔

اس دنیا کے سماج کے ڈھانچے کو اس طرح تعمیر کیا گیا ہے کہ ہر انسان کو صرف دکھ ہی نظر آتا ہے۔ ہر انسان کو دوسرے انسان کی کمیاں نظر آتی ہیں، ہر وقت اس کا یہی راگ ہوتا ہے کہ دیکھو وہ کیسا ہے؟ انسانوں کو جو غلط ہو رہا ہے وہ نظر آ رہا ہے لیکن جہاں بہتری اور اچھائی ہے ، وہ نظر نہیں آتی۔ اس لئے ہم انسان خوش نہیں ہیں۔ صبح سے شام تک تنقید کرنا، برائی کرنا ہم انسانوں کی عادت ہے۔ اسی وجہ سے دنیا اس قدر بھیانک نظر آتی ہیں۔

گھر سے مولوی تک، مولوی سے میڈیا تک سب منفی باتیں کر رہے ہیں اور دکھ کو عام کر رہے ہیں؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ اس دنیا میں کچھ اچھا نہیں ہو رہا ہے سب کچھ غلط ہو رہا ہے؟ آج کے انسان کی conditioning ایسی کر دی گئی ہے کہ اسے اچھائی نظر ہی نہیں آتی۔ شک کرنا، ہر وقت منفی باتیں کرنا ہماری عادت بن چکی ہے۔ کہیں اچھائی ہو بھی رہی ہو تو وہاں بھی ہم برائی ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ ہم انسان اگر دھیان اور سمجھ داری سے دنیا پر غور کریں تو ایسا ممکن ہی نہیں کہ صرف بربادی ہی ہے۔

غور سے دیکھیں یہ انسان جو بظاہر چالاک اور ہوشیار نظر آرہے ہیں حقیقت میں بہت معصوم ہیں۔ ہر انسان معصوم ہے لیکن خوف زدہ اور دکھی ہے اور خوش ہونا چاہتا ہے۔ جو انسان اپنی مجبوریوں کی وجہ سے دکھی ہیں وہ بھی خوش ہونا چاہتے ہیں۔ اس دنیا کا کوئی انسان بھی برا نہیں ہے، ہر انسان اچھا ہے اور خوش رہنے کی کوشش کر رہا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے یہ خوبصورت لوگ ایسی صورتحال میں الجھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ دکھی ہیں۔

انسان برا نہیں ہوتا اس کی سوچ بری ہوتی ہے اور یہ سوچ بھی اس لئے بری ہے کہ دنیا کا نظام ہی ایسے کھڑا کیا گیا ہے کہ بیچارہ انسان مشکلات کا شکار رہتا ہے۔ انسان نے اگر خوش رہنا ہے تو سب سے پہلے وہ یہ غلط فہمی دماغ سے نکال دے کہ جب یہ دنیا پرفیکٹ ہو جائے گی تو وہ خوش ہو گا۔ ایسا بالکل نہیں ہو گا۔ دنیا جیسی تھی ویسی ہی رہے گی۔ دنیا پہلے دن سے جیسی تھی آج بھی ویسی ہی ہے اور آگے بھی ویسی ہی رہے گی۔

جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے تب سے اچھائی اور برائی کا کھیل جاری ہے۔کل بھی دنیا میں اچھی اور بری سوچ والے لوگ تھے، آج بھی ویسا ہی ہے اور کل بھی ویسا ہی ہونے والا ہے۔ اس دنیا میں بری سوچ والے لوگوں سے زیادہ اچھی سوچ والے لوگ ہیں۔ ہر وقت اچھائی برائی پر غالب رہتی ہے۔ اگر برائی غالب آ جائے اور اچھائی کی حکمران بن جائے تو انسان زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ جب انسان اس طرح سوچنا شروع کر دیتا ہے تو پھر اسے اچھائی نظر آنا شروع ہو جاتی ہے اور پھر وہ خوش رہنا شروع کر دیتا ہے۔ جب انسان خوش ہوتا ہے تو وہ کسی کو نہیں بتاتا کہ وہ کس قدر خوش ہے۔

لیکن انسان دکھ کو ہر ایک کے سامنے شیئر کرتا ہے اس طرح وہ یہ دکھ سب تک پہنچا دیتا ہے ۔ اسی لئے دنیا میں ہر انسان ہی دکھی دکھائی دیتا ہے۔ جب ہم دکھی ہیں تو کیا ہمیں خوشی نظر آ سکتی ہے۔ جب ہم ہر انسان میں کمیاں دیکھیں گے تو کیسے ہمیں خوبصورت دنیا دکھائی دے سکتی ہے۔ صبح سے رات تک ہم یہی کچھ تو کرتے ہیں دکھ ہی تو پھیلاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خوشی انسان کی فطرت ہے جبکہ دکھ فطری نہیں ہے۔ اب سوال کہ ہم خوش کیسے رہیں؟

انسان کے پاس زندگی گزارے کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو باقی دنیا سے مختلف سمجھنا شروع کردے۔ وہ یہ کہہ کہ میں یہ ہو، میں وہ ہوں، میرے جیسا اور کوئی نہیں، میں نے یہ کرنا، میں نے وہ کرنا ہے۔ ہم ایسے ہی تو ہیں ، ہر وقت میں اور میری میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے انسان جو اپنے آپ کو دوسروں سے مختلف سمجھتے ہیں، باقی انسانوں سے کٹ جاتے ہیں ۔ یہی تو وہ لوگ ہیں جو دکھی ہیں۔ ہم انسان بظاہر الگ الگ دکھائی دے رہے ہیں لیکن فطری طور پر ہم ایک ہی ہیں۔

ہم اسی فطرت کے بنے ہوئے ہیں، اسی کائنات کا تو حصہ ہیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے ہم بھول گئے ہیں۔ فطرت کے ساتھ ہمارا جو ریلیشن شپ ہے ، ہم وہ بھول چکے ہیں اور کچھ ایسے کام کرنے میں مصروف ہیں جن کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ وہ کرنے سے ہمیں خوشی مل جائے گی۔ اب سوال یہ کہ کیا ہمیں خوشی مل گئی۔ سب کچھ تو کر لیا۔ نوکری مل گئی، دولت مل گئی، گھر ، بنگلے،  گاڑیاں مل گئیں۔ اب بھی خوش کیوں نہیں ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔

حل یہ ہے کہ جیسے سماج سوچ رہا ہے ، کیا وہ سچ ہے یا نہیں؟ سچ اور حقیقت تو یہ ہے کہ انسان فطرت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جب ہم فطرت کے ساتھ جڑے ہیں تو کیا ہم پودوں درختوں کو دیکھتے ہیں، کیا صبح واک کرنے جاتے ہیں، کیا پارک میں بیٹھ کر پرندوں کو آسمان پر اڑتا ہوا دیکھتے ہیں یا انہیں پودوں درختوں کی ٹہنیوں کے ساتھ کھیلتا دیکھتے ہیں۔ کائنات کے ساتھ دلکش رشتہ بنانے سے ہی انسان خوش رہ سکتا ہے۔ خوشی صبح کی تازہ ہوا میں ہے، خوشی پیڑ پودوں پرندوں اور جانوروں کے ساتھ رشتہ بنانے میں ہیں۔

خوشی ایک ہونے میں ہے۔ کائنات میں موجود ہر جاندار اور بے جان چیز ایک ہی ہے۔ ہم سانس کی وجہ سے زندہ ہیں اور یہ سانس آکسیجن کی شکل میں ہم انہی پودوں اور درختوں سے تو حاصل کرتے ہیں۔ اگر اس دنیا میں درختوں کو مٹا دیا جائے تو کیا ہم سانس لے سکتے ہیں؟ کیا زندہ رہ سکتے ہیں؟ کیا ہم آسمان کو دیکھتے ہیں، نیچرل آوازوں کو سنتے ہیں؟ جب انسان فطرت کے ساتھ ربط کو محسوس کرتا ہے تب ہی تو وہ خوش ہو سکتا ہے۔

انسان جب فطرت کے ساتھ تعلق بناتا چلا جاتا ہے ، اتنا ہی زیادہ وہ خوشی کو محسوس کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انسان اسی نیچر کے تو بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے دکھ اور غم کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم فطرت سے کٹ چکے ہیں۔ نوکری، گھر، بچے، گاڑیاں، جدید زندگی۔  اسی میں پھنس کر رہ گئے ہیں پھر بھی خوش نہیں ہیں۔ ہم مذہب اور عقیدوں میں الجھے ہیں جبکہ فطرت کو بھول چکے ہیں۔ وہ فطرت جس کی وجہ سے ہم ہیں، اس کو بھول گئے ہیں۔

کیا پانی کے بغیر ہم زندہ رہ سکتے ہیں۔ کیا پودوں کے بغیر ہم سانس لے سکتے ہیں۔ کیا اس زمین سے اگنے والی خوراک کے بغیر ہم جی سکتے ہیں۔ کیا ہے ہماری اوقات پانی کے بغیر۔ کیا ہے ہماری اوقات سورج کے بغیر؟ سائنس دان کہتے ہیں کہ اگر چوبیس گھنٹے سورج نہ ابھرے تو زمین سے زندگی کا خاتمہ ہو جائے۔ سوچیں اس فطرت سے ہم کتنا واقف ہیں؟ ہم انسان اس کائنات سے ہیں اور یہ کائنات ہم سے ہے۔ یہ ہے ہمارا اس کائنات یا فطرت کے ساتھ رشتہ۔

اس دنیا میں ہر انسان اپنی فطرت کے مطابق کام کر رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم انسان ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ ٹھپے لگارہے ہیں کہ وہ سچا ہے، وہ جھوٹا ہے، وہ مذہبی ہے ، وہ غیر مذہبی ہے، اس کا یہ عقیدہ ہے، وہ مسلمان ہے، وہ ہندو ہے، یہ انتہا پسند ہے، وہ لبرل ہے، اس کی چھوٹی سوچ ہے، وہ غریب ہے وہ امیر ہے۔ یہ جو ہم ٹھپے لگاتے ہیں ، اسی وجہ سے دکھی ہیں۔ وہ فطرت جس سے ہم بنے ہیں،  اسے تو بھول گئے ہیں۔

دکھی رہنے کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو تنگ کرتے ہیں۔ کیا ہم پرفیکٹ ہیں؟ انگلیاں اٹھانا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ خدا اور فطرت سے ہم الگ نہیں ہیں۔ کائنات ہو اور زندگی نہ ہو تو کائنات کی کیا اوقات؟ فطرت ہو اور انسان نہ ہو تو فطرت کس کام کی؟ انسان نہیں اور خدا ہو تو کیسے معلوم ہوتا کہ خدا کیا ہے؟ سب ایک ہے۔ اچھی بری سوچ کچھ نہیں ہوتی۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو کیا ہم بتا سکتے ہیں کہ اس کی اچھی سوچ ہے یا بری؟

یہ سوچ تو فیڈ کی جاتی ہے؟ اس کی تعمیر کی جاتی ہے؟ ماں کے پیٹ سے سب ایک ہی طرح ایک ہی طریقے سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سوچ یا تھنکنگ تو سماج تعمیر کرتی ہے کہ یہ اس کا عقیدہ ہو گا، یہ اس کا مذہب ہو گا، یہ اس کا نظریہ ہو گا؟ جب انسان دوسروں کی طرف انگلی اٹھانے کی بجائے انگلی اپنی طرف کر لے گا پھر وہ ہر لمحہ خوشی کو انجوائے کرے گا۔ جب انگلی وہ اپنے سینے پر رکھے گا تب اسے معلوم ہو گا کہ روحانیت کیا ہے، سچ کیا ہے، زندگی کیا ہے؟

جب انسان اپنی اندر کی دنیا میں جھانکتا ہے تو وہ پوری کائنات کو دیکھ لیتا ہے۔ جب انسان کائنات کی حقیقت کو سمجھ لیتا تو جنگ و جدل ختم ہو جاتی ہے، دکھ اور تکلیف کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور پھر ایسا انسان ہر وقت خوش رہتا ہے۔ انسان کی سب سے بڑی پہچان پاکستانی نہیں، انسان کی سب سے بڑی پہچان مسلمان ہونا نہیں، انسان کی سب سے بڑی پہچان انسان بھی نہیں۔ انسان کی سب سے بڑی پہچان زندگی ہے۔

انسان کائنات کی زندگی ہے اور کائنات انسان کی زندگی اور زندگی الگ الگ نہیں ہیں، زندگی ایک ہی ہے جو کائنات کے ذرے ذرے میں ہے جس دن ہمیں اس حقیقت کے بارے میں معلوم ہو جائے گا پھر ہمارا ہر لمحہ سرشاری سے بھرپور ہو گا۔ زندگی خوشی اور مستی کا نام ہے۔ زندگی دکھ اور تکلیف کا نام نہیں۔ زندگی کی حقیقی فطرت خوش رہنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).