ناروے میں سب ہی کچھ اچھا اچھا نہیں ہے


ابھی تک آپ لوگوں نے ناروے پر میرے سلسلہ وار مضامین سے کچھ ایسا تاثر لیا ہو گا جیسے ناروے کوئی جنت کا ٹکڑا ہے جہاں سب اچھا ہے اور سب لوگ ہمیشہ ہنسی خوشی رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ناروے بھی اسی دنیا کا حصہ ہے۔ اس میں انسان ہی بستے ہیں، فرشتے نہیں۔ جیسے ساری دنیا میں ہوتا ہے، یہاں بھی اچھے برے انسان ہوتے ہیں۔ یہاں چوریاں بھی ہوتی ہیں۔ ڈاکے بھی پڑتے ہیں۔ قتل بھی ہوتے ہیں، عورتوں پر تشدد بھی۔ ٹیکس میں گھپلے بھی ہوتے ہیں اور فراڈ بھی۔

22 جولائی 2011 جمعے کے دن دوپہر تین بج کر پچیس منٹ پر ناروے کا دارالحکومت اوسلو ایک دھماکے سے لرز اٹھا۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ کیا تھا؟ ریڈیو اور ٹی وی کھول کر بیٹھ گئے۔ خبر آئی کہ شاید کوئی گیس پائپ لائن پھٹ گئی۔ دھماکا بیچ شہر ہوا تھا۔ رپورٹر جائے وقوع کی تلاش کرتے وہاں پہنچ گئے۔ سترہ منزلہ یہ عمارت حکومتی کوارٹرز کہلاتی ہے۔ اس میں حکومتی اہل کاروں کے دفاتر ہیں۔ اس وقت کے وزیراعظم لیبر پارٹی کے ینس ستولتن برگ کا دفتر بھی یہیں تھا۔ گرمیوں کی تعطیلات کی وجہ سے دفاتر خالی تھے۔ دھماکا اس عمارت کے باہر کھڑی ایک سفید وین میں ہوا تھا۔ اور خبر آئی کہ یہ بم کا دھماکا تھا۔ لوگ حیران رہ گئے۔ ناروے کی مسلم کمیونٹی سہم گئی۔ اس دہشت گردی کے تانے بانے کہیں مسلم دنیا سے تو نہیں ملتے؟ ابھی اسی سے الجھ رہے تھے کہ ایک اور وحشت ناک خبر آئی۔

اوسلو سے تقریباً 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک جھیل پر ایک چھوٹا سے جزیرہ ہے جس کا نام ہے اوت اویا۔ وہاں اس وقت کی حکومتی پارٹی لیبر پارٹی کی نوجوانوں کی تنظیم کا گرمیوں کا کیمپ لگا ہوا تھا جو ہر سال منعقد ہوتا ہے۔ انہی نوجوانوں میں سے ملک کے نئے لیڈر ابھرتے ہیں۔ اس کیمپ میں ان کی تربیت ہوتی ہے۔ موجودہ اور سابق وزیر اور وزیراعظم آتے ہیں ان سے مخاطب ہوتے ہیں۔ اس کیمپ پر اچانک گولیوں کی بوچھاڑ ہو گئی۔ وہاں سے دل ہلا دینے والی خبریں آنے لگیں۔ میڈیا برابر خبریں نشر کرتا رہا۔ اور ملک کی مسلم آبادی دل تھام کر رہ گئی۔ یہ دہشت گردی ہے اور اس کا الزام مسلمانوں کو ہی دیا جائے گا۔ کچھ گھنٹوں بعد ملک کے وزیر انصاف ٹی وی پر آئے اور جذباتی انداز میں بیان دیا کہ دہشت گرد گرفتار ہو گیا ہے۔ وہ اکیلا ہی تھا اور نارویجین نژاد شہری ہے۔ ملک کی ساری آبادی کی طرح مسلمان بھی اس اندوہناک واقعہ سے دل گرفتہ تھے لیکن انہوں نے اطمینان کا ایک گہرا سانس لیا کہ دہشت گرد مسلمان نہیں تھا۔ اس دن کل 77 جانیں اس دہشت گرد کے ہاتھوں ضائع ہوئیں۔

Utøya island

پورا ملک صدمے میں تھا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ناروے میں اتنے بڑے پیمانے پہ دہشت گردی کیوں اور کس نے کی؟ یہ دہشت گرد آندرز بہرینگ بریویک تھا۔ 2011 میں وہ 32 برس کا تھا۔ اس دن ہوا کچھ یوں کہ حکومتی دفاتر کی عمارت پر دن کے تین بج کر پچیس منٹ پر عمارت کے سامنے پارک ہوئی ایک وین میں دھماکا ہوا۔ یہ دھماکا 950 کیلو یوریا کی مدد سے کیا گیا۔ بریویک نے وین پارک کی اور روانہ ہو گیا۔ اس میں آٹھ لوگ ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ دھماکے سے عمارت کے شیشے ٹوٹے اور خاصا نقصان ہوا۔ بریویک کی دوسری منزل اوت اویا کا جزیرہ تھا۔ ساڑھے پانچ بجے کے قریب پولیس کو پہلی اطلاع ملی کہ جزیرے میں فائرنگ ہو رہی ہے۔

جزیرے میں صبح کا سیشن ختم ہوا تھا۔ تقاریر کرنے والوں میں سابقہ وزیراعظم گرو ہارلم برونٹ لاند بھی تھیں جو کچھ ہی دیر پہلے وہاں سے روانہ ہوئی تھیں۔ اوسلو میں بم دھماکے کی خبریں ان نوجوانوں تک پہنچ گیں اور پریشان تھے۔ ٹولیوں میں جمع ہو کر اس پر بحث کرنے لگے۔ اس وقت جزیرے پر 560 سے لے کر 700 تک کا اجتماع تھا۔ جزیرے پر صرف کشتی کے ذریعہ پہنچا جا سکتا تھا۔ جب بریویک پورٹ تک آیا تو کشتی جانے والی تھی۔ اس نے درخواست کی کہ اسے بھی ضروری وہاں پہنچنا ہے۔ وہ پولیس کا ملازم ہے اور بچوں کی مدد اور حفاظت کے لیے اسے بھیجا گیا ہے۔

Breivik

وہ پولیس کی یونیفارم میں تھا اور اسلحے سے لیس تھا۔ کشتی میں سوار ایک شخص کو شک ہوا اس نے سوال کرنے شروع کیے۔ لیکن تب تک دیر ہو چکی تھا۔ جزیرے پر اترتے ہی اس نے اسے اور اس کی ساتھی کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ آس پاس کے لوگ پہلے تو سمجھ نہ سکے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ اسے پولیس کا اہلکار سمجھ کر اس کے قریب آئے۔ بریویک نے یہ بھی تاثر دیا کہ وہ ان کی حفاظت کے لیے آیا ہے۔ لیکن جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ ان کی اپنی جانیں خطرے میں ہیں۔ گولیاں برستی گئیں اور جزیرے پر ان بچوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔

یہ جزیرہ بہت بڑا نہیں کل 26 ایکڑ ہے اور ساحل سے اس کا فاصلہ 500 میٹر ہے۔ یہاں چھپنے کی جگہیں بھی نہیں ہیں۔ پھر بھی یہ نوجوان اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگے۔ کچھ جزیرے پر بنی چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں جا چھپے، کچھ درختوں کے جھنڈ کے پیچھے اور کچھ نے جھیل کے پانی میں چھلانگیں لگا دیں۔ کچھ کو چھلانگ لگانے کے بعد احساس ہوا کہ وہ ساحل کی طرف تیر کر نہیں پہنچ سکتے وہ واپس مڑے۔ دوسرے کنارے پر بنے گھروں میں رہنے والوں کا احساس ہو گیا کہ جزیرے پر گڑبڑ ہے۔ انہوں نے بچوں کو پانی میں کودتے اور کنارے کی طرف تیرتے دیکھا تو اپنی کشتیاں لے کر انہیں بچانے دوڑے۔ قاتل گولیوں کی بوچھاڑ کرتا رہا۔

ایک گھنٹے سے اوپر قاتل فائرنگ کرتا رہا۔ پھر خود ہی پولیس کو فون کیا اور بتایا کہ وہ اس وقت کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ بقول خود اس کے اس نے دس بار پولیس کو فون کیا اور ہر بار فون کرنے کے بعد وہ دوبارہ فائرنگ شروع کر دیتا۔ پولیس کا پہلا خیال یہ تھا کہ حملہ آور کم سے کم چار افراد ہیں۔ کسی کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔ اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد کتنی ہے۔ جزیرے پر موجود نوجوانوں نے بھی پولیس اور اپنے گھر والوں کو فون اور ٹیکسٹ کیے۔ سب بے انتہا ڈرے ہوئے تھے۔ میڈیا پل پل کی خبر دے رہا تھا۔ سارا ملک دم سادھے ہوئے تھا۔ جب پولیس وہاں پہنچی تو قاتل نے بغیر کسی مزاحمت کے گرفتاری دے دی۔ 69 لوگ مارے گئے اور اتنے ہی شدید زخمی ہوئے۔ ان بچوں کو ایک ایک کر کے کشتیوں میں سوار کر کے خشکی پر لایا گیا۔ وہاں سے زخمیوں کو اسپتال بھیجا گیا۔ باقیوں کو قریبی ہوٹل منتقل کیا جہاں ان کے گھر والے بھی پہنچ گئے۔

ملک ابتدائی صدمے سے نکلا تو سوال اٹھا یہ سب کس نے کیا اور کیوں کیا؟ ان بچوں کا کیا قصور تھا؟ بچوں کے سمر کیمپ پر حملے کا کیا مقصد تھا؟ حملہ آور کا نام تو معلوم ہو گیا لیکن کیوں کا جواب پانا مشکل تھا۔ بریویک ایک عام سا شخص تھا بچپن میں الگ تھلگ رہتا تھا اور بڑے ہونے پر بھی اس کی زندگی کچھ بہتر نہ ہو سکی۔ بریویک نے کئی سو صفحات کی ایک کتاب بھی لکھی جسے وہ اپنا منشور کہتا تھا۔ حملہ والے دن پر انٹرنیٹ پر یہ کتاب ڈالی۔ وہ دائیں بازو کے انتہا پسند خیالات رکھتا تھا۔ طالب علمی کے زمانے ہی سے یہ سوچ رکھتا تھا کہ غیر ملکیوں نے ناروے میں آ کر ملک کی ثقافت اور اقدار کو خراب کیا ہے۔ وہ لیبر پارٹی کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا تھا کہ ان کی امیگریشن پالیسی بہت نرم ہے۔ وہ اس بات سے بھی خائف تھا کہ ملک میں اسلامائزیشن ہو رہی ہے۔ اس نے انٹر نیٹ پر کچھ ہم خیال لوگ ڈھونڈ لیے اور ایک بڑے حملے کی پلاننگ شروع کردی کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ ناروے اور پورا یورپ حالت جنگ میں ہے۔

philip manshaus

بریویک نے انٹر نیٹ کی مدد سے یوریا سے بم بنانا سیکھا۔ نیٹ سے ہی اس نے پولیس کی نقلی یونیفارم اور بوٹ خریدے۔ کافی اسلحہ بھی ادھر ادھر سے خرید لیا۔ گاڑی اس کے پاس تھی ایک وین بھی خرید لی۔ ان سب چیزوں کے لیے اس نے دل کھول کر خرچ کیا۔

ہر ملزم کی طرح بریویک کو بھی وکیل کی سہولت ملی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس نے اپنے دفاع کے لیے جو وکیل چنا وہ لیبر پارٹی کا رکن تھا۔ کیس کسی حد تک آسان تھا۔ بریویک نے تمام جرائم کا اعتراف کیا لیکن اس کے خیال میں وہ سزا کا حقدار نہیں کیونکہ اس نے ملک و قوم کی بہتری کے لئے یہ قدم اٹھایا تھا۔ وہ لیبر پارٹی کی قیادت کو اور اس سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو ختم کرنا چاہتا تھا تاکہ ان میں سے کوئی لیڈر بن کر نہ ابھرے۔

16 اپریل 2012 کو بریویک کا کیس عدالت میں شروع ہوا۔ اس سے پہلے اس کا ذہنی توازن جاننے کے لیے نفسیات دانوں نے اس کا معائنہ کیا کہ آیا وہ اپنے حواس میں ہے اور کیا اس پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ نفسیات دانوں نے جواب دیا کی ملزم کا ذہنی توازن درست ہے اور وہ اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اور اس پر کیس چلایا جا سکتا ہے۔ پہلے دن جب وہ عدالت میں آیا تو اس نے نازی سیلیوٹ کر کے ثابت کر دیا کہ وہ ایک شدت پسند نسل پرست ہے۔ 24 اگست 2012 میں عدالت نے فیصلہ سنا دیا۔ اسے 21 سال کی سزا ہوئی جو سب سے زیادہ ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم خطرناک ترین شخص ہے۔ اس کے خیالات معاشرے کے لیے شدید نقصان دہ ہیں۔ اسے قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ وقت اس کے پاس بہت ہے اس لئے وہ مزید تعلیم حاصل کر رہا ہے جس کی اسے سہولت مل گئی۔ اس کی خواہش ہے کہ اسے پیرول پر رہا کر دیا جائے۔ جولائی 2015 میں اس نے ریاست کے خلاف عدالت میں درخواست دی کہ اسے قید تنہائی میں رکھ کر ریاست نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ وہ یہ کیس ہار گیا۔

دہشت گردی کا یہ واقعہ بہت بڑا تھا۔ پورا ملک صدمے میں تھا۔ اسے آپ ناروے کا نائن الیون سمجھ لیں۔ لیکن کیا اس کے بعد سفید فام نسلی برتری کے ماننے والے ختم ہو گئے؟ جی نہیں۔ ان کا وجود اب بھی ہے۔

اگست 2019 میں ایک سترہ سالہ لڑکے فلیپ مانسہوس نے اپنی منہ بولی بہن، جس کا تعلق چین سے تھا، کو قتل کیا پھر ایک مسجد کا رخ کیا جہاں وہ اور قتل عام کرنا چاہتا تھا۔ لیکن مسجد میں موجود لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور پولیس بلا کر اس کے حوالے کر دیا۔ فلیپ پر مقدمہ چلا اور 21 سال قید کی سزا ہوئی۔ یہ بریویک کی شخصیت اور خیالات سے متاثر تھا۔

SIAN یعنی ناروے کو اسلامیزیشن سے روکو۔ یہ ایک معمولی سا گروپ تھا لیکن اب اس کی شہرت بڑھ گئی ہے۔ یہ گروپ اسلام کا شدید مخالف ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ناروے میں شریعت نافذ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اگست 2020 میں اس گروپ نے ایک مظاہرہ کیا۔ انہیں سننے اور دیکھنے کے لیے ان کے مخالف بھی آئے جن میں بڑی تعداد مسلم نوجوانوں کی تھی۔ پولیس کی نفری بھی موجود تھی۔ گروپ کے لیڈر نے اسٹیج پر قرآن کے اوراق پھاڑے۔ مسلم نوجوان آپے سے باہر ہو گئے اور رکاوٹیں توڑتے ہوئے ان پر جھپٹے۔ پولیس نے انہیں قابو کیا۔ گروپ کی لوگوں کو بحفاظت وہاں سے نکالا۔

دائیں بازو کی بالا دستی کی باتیں ناروے میں نئی نہیں ہیں۔ ایک اور بڑا گروپ ہے ڈی ایم این جو سویڈن میں بنا اور اب ناروے میں بھی قدم رکھ چکا ہے۔ اس قسم کے گروہ پچھلے زمانوں میں یہودیوں کے مخالف تھے آج ان کا نشانہ مسلمان ہیں۔

دوسری جانب شدت پسند اسلامی تنظیموں کی جانب سے ناروے کو دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ ناروے کی سیکریٹ پولیس کی طرف سے یہ بیان آیا ہے کہ کسی بھی وقت کوئی حملہ ہو سکتا ہے۔ ایک جانب دنیا کورونا سے نبرد آزما ہے اور دوسری جناب انسانیت کو انسان ہی سے خطرہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).