بلوچستان میں کالجز کی حالت زار


\"\"صوبہ بلوچستان ایک طرف رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے تو دوسری طرف آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ۔ یوں یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جانی چائیے کہ یہاں آبادی فی مربع کلومیٹر آبادی کتنی ہو گی یا یہاں کی آبادی کتنی پھیلی ہوئی ہو گی۔ یہ وضاحت یہاں اس لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ حکمران جب بھی عوام اور میڈیا کے سامنے آتے ہیں تو چند اعداد و شمار کے سہارا لیتے ہیں جو بلوچستان کے وسیع و عریض رقبے کے حوالے سے کسی بھی حالت میں تسلی بخش نہیں۔ ملک کے 43 فیصد رقبے پر مشتمل اس صوبے کو فنڈ آبادی یعنی 70 لاکھ نفوس کے حساب سے ملتا ہے۔ اور اس رقم میں جو پیسے ترقیاتی بجٹ کے نام پر جاری کئے جاتے ہیں ان میں سے 43 فیصد ایم پی ایز سے لے کر چپڑاسی تک مختلف شرح سے کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔
یہاں موضوع بحث گورنمنٹ کالجوں کی حالت زار ہے۔ جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ صوبے کے کل کالجوں، فیکلٹی، اور زیر تعلیم طلباء کی تفصیل دیئے گئے ٹیبل سے ملاحظہ فرمائیں۔

شروع میں صوبے کے وسیع رقبے کا ذکر اس لئے کیا تھا کہ آگے جا کر مسائل کا اندازہ ہو سکے۔ چند ایک ایسے تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہیں جہاں انٹر کالج کا کوئی نام و نشان نہیں۔ ایسی صورتوں میں بچوں کو ایک تحصیل سے انٹر کی تعلیم کے لئے دوسری تحصیل تک جانا پڑتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہاں ہاسٹلز نہیں ہوتے۔ اور جہاں کہیں کسی ڈگری کالج میں ہاسٹل ہے تو وہ رہنے کے قابل نہیں ہے۔ یہ بوائز کا ذکر ہو رہا ہے۔ بچیوں کے لئے تو ہائی سکول تک موجود نہیں۔
صرف طلباء ہی نہیں، چند ایک کالجوں میں پروفیسرز کے رہنے کے لئے بیچلر لاج تک موجود نہیں۔ اور جہاں ہیں تو ان کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ جب بیچلر لاجز کی یہ حالت ہو تو فیملی کوارٹرز کی تعداد اور حالت بخوبی سمجھ آنی چاہیے۔ بجلی اور پانی کی دستیابی کا کون روئے یہاں تو طلباء کے لئے واش روم تک موجود نہیں۔
سیکورٹی کی مخدوش صورت حال کے پیش نظر دور افتادہ کالجوں کا تو خدا ہی حافظ، کوئٹہ کے اکثر کالجوں میں اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ امسال قبل از وقت سردیوں کی چھٹیاں بھی سیکورٹی خطرات کی وجہ سے دی گئی تھیں۔ جب کہ خطرات کی پیش خبری اور سیکورٹی اقدامات اٹھانے کے حوالے سے کاغذوں کی حد تک خطوط ضرور اداروں کو ملتے رہے ہیں۔ خواتین پروفیسرز کے مسائل اور بھی گھمبیر ہیں۔ گرلز کالجوں میں ڈے کیئر سینٹرز یہاں کے پروفیسرز ایسوسی ایشن کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
جن گرلز کالجوں میں خواتین اساتذہ کی کمی کا سامنا ہوتا ہے وہاں قریب تر بوائز کالج کے پروفیسرز جا کر ان کالجوں میں پڑھاتے ہیں۔ اس مد میں ان پروفیسر کو تنخواہ دی جاتی ہے جو ڈاکٹر مالک نے سو فیصد بڑھا کر 7ہزار روپے ماہانہ کر دیا تھا۔ لیکن جب سے یہ اعلان ہوا ہے پرانے حساب سے بھی کسی کو یہ پیسے نہیں ملے۔ محکمہ کالجوں کی جانب سے اس مد میں 3کروڑ روپے کی ڈیمانڈ کی گئی تھی جب کہ منظوری صرف 80 لاکھ روپے کی ہوئی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ایسی صورت میں کوئی پڑھانے ہی نہیں جاتا اور قوم کی بچیاں تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔
بلوچستان میں اعلیٰ اور معیاری تعلیم کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوگا جہاں پروفیسرز کے لئے ٹریننگ کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہوں۔ اس حوالے سے ایک اکیڈمی موجود ہے لیکن وہ اب تک تمام لیکچررز کو بھی بنیادی ٹریننگ نہیں دے سکی ہے۔ دوسری طرف صوبے کے کالج اساتذہ پر اعلیٰ تعلیم یعنی ایم فل اور پی ایچ ڈی کے دروازے ناروا محکمانہ قوانین بنا کر بند کر دیئے گئے ہیں۔ حکمران نیا بی ایس پروگرام شروع کرنے کا ارادہ تو رکھتے ہیں لیکن فیکلٹی کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ جو آنکھیں بند کر کے کسی ہائی وے پر سفر کرنے کے مترادف ہے۔
یہاں ٹرانسفر /پوسٹنگ کی کوئی شفاف پالیسی نہیں ہے۔ روز پروفیسرز سیاسی پسند و ناپسند کی زد میں آکر صوبے کے طول و عرض میں آتے جاتے ہیں۔ پچھلے سال تک تو 2006 کے رولز کے نام سے ایک ایسا کالا قانون موجود تھا جس سے سینکڑوں پروفیسرز کی ترقیاں متاثر ہوتی رہیں۔ شرط یہ تھی کہ ہوم اسٹیشن سے باہر ڈیوٹی نہ کرنے والوں کو ترقی نہیں دی جائے گی۔ اب یہ قانون تو ختم ہو گیا ہے لیکن بیوروکریسی کی ذہنیت نہیں بدلی اور کام مزید سست کر دیا ہے۔ ٹرانسفر کی مد میں قوانین کے مطابق  TA/DAسالوں تک بیچاروں کو نہیں ملتی۔ علاج و معالجے کا معاملہ تو یہاں تک آ پہنچا ہے کہ اکثر پروفیسرز نے اسے Claim کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
بلوچستان میں نقل کا تو ہر کوئی روتا ہے لیکن اس کے بنیادی وجوہات کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ نقل کے نعرے لگانے والی بیوروکریسی کو امتحانات کے ایام میں کثیر رقم TA/DA کی مد میں ملتی ہے اور سیر سپاٹے اس کے علاوہ۔ صوبے کو ایک تعلیمی بورڈ اور ایک ہی یونیورسٹی سے چلایا جا رہا ہے۔ امتحانات میں خدمات سرانجام دینے والے پروفیسرز کو معاوضہ مروجہ قوانین کے مطابق نہیں دیا جاتا۔ اس کے علاوہ پیپر مارکنگ پر دی جانے والی رقم بھی دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ ایسے حالات میں تعلیم کے معیار کا گرنا ایک فطری عمل ہے۔
یہاں ایک گھمبیر مسئلہ طلبا کی حاضری ہے۔ عدالت عالیہ کا حکم موجود ہے کہ جس کی حاضری 75 فیصد سے کم ہو اس کا داخلہ نہیں بھیجا جائے۔ لیکن آج تک اس پر عمل نہیں ہوا۔ حالت یہ ہے کہ داخلہ لینے والوں میں سے 10فیصد طلباء ہی کالج کا رخ کرتے ہیں۔ سال دوئم، سوئم اور چہارم میں یہ تعداد بالترتیب کم ہوتی جاتی ہے۔ سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے دور افتادہ کالجوں میں اسٹاف کی حاضری بھی ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔
چونکہ یہاں چند ایک کے علاوہ باقی پرنسپلز کی تعیناتی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ اس لئے کالجوں کو سالانہ فنڈ کی صورت میں مختلف امور کے لئے جو کم رقم ملتی ہے وہ بھی کاغذات میں تو استعمال ہو جاتی ہے لیکن گراؤنڈ پر نظر نہیں آتی۔ اس معاملے میں چند ایک ایماندار پروفیسروں اس سے دور ہی رہے ہیں لیکن یہی ایماندار لوگ پھر مشکلات کا سامنا بھی کرتے ہیں۔

پشتون بلوچ قوم پرست صوبے میں تعلیم خاص کر اعلیٰ تعلیم کا بہت روئے ہیں۔ جب موجودہ مخلوط حکومت اقتدار میں آئی تو سب کو امید تھی کہ اب اعلیٰ تعلیم کی جانب توجہ دی جائے گی۔ تعلیمی ایمرجنسی کے نعرے تو اب بھی لگ رہے ہیں لیکن ان ترقی پسندوں نے تعلیم کے میدان میں بہتری لانے کی بجائے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ نئے کالجوں کے نام پر سیاسی دکانیں تو چلائی جا رہی ہیں لیکن پرانے کالجوں کی حالت زار پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔
قوم پرستوں کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ان 70سال کے بعد بھی صوبے میں ایک تعلیمی بورڈ سے میٹرک، انٹر کے معاملات کنٹرول کئے جا رہے ہیں۔ ڈگری لیول بھی ایک ہی یونیورسٹی کے رحم و کرم پر ہیں۔ کیونکہ یہاں جنرل یونیورسٹی ایک ہی ہے۔ ایک ہی زرعی کالج ہے۔ میڈیکل اور لا کالج بھی ایک ایک ہی ہیں۔ ایک پولی ٹیکنک خواتین کے لئے، ایک ٹیچرز ایجوکیشن، ایک کامرس کالج اور ایک ہی فیزیکل ایجوکیشن کا کالج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments