تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ


زیرپا جنت تلاشنے کی خاطر شہر اقتدار کی پرپیچ گلیوں سے قریہ ہائے گلاں یعنی پشاور کا قصد کیا۔ فیض آباد کے بس اڈے میں سواریوں کی دھکم پیل سے بچ کر بس ڈرائیور کو زیادہ پیسے کا لالچ دے کر منی بس کی فرنٹ سیٹ پر جلوہ افروز ہوئے ہی تھے کہ چپس پانی بیچنے والوں نے بچی کھچی ذہنی آسودگی کو بھی منتشر کر دیا۔ پھر گداگر ایک ایک کر کے ملتجیانہ نظروں سے طالب بخشیش ہوئے۔

عجب نفسیات ہے صاحب ان لوگوں کی بھی۔ بیچنے والے دھڑلے سے گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹاتے عار محسوس نہیں کرتے جبکہ گداگر مسکین سی صورت بنائے خدا کے دیے ہوئے میں سے کچھ حصہ طلب کرتے ہیں۔ اور اگر اس دوران خواتین گداگر جسم و جاں کا رشتہ بحال رکھنے کے لئے نوحہ کناں ہوں تو یقین مانیے صاحب دل کرچی کرچی ہو جاتا ہے۔ یہ خواتین جو چاردیواری کے حرم کی دیویاں ہیں، جن کا ایک قدم اٹھنے سے پہلے دماغ سو بار سوچتا ہے تو ذرا سوچیے کہ ان کے ہاتھ مانگنے کے لیے کن حالات میں اٹھتے ہوں گے۔ انہوں نے اپنی اناؤں کے بتوں کو کس مشکل سے قدموں تلے روند ڈالا ہو گا۔ آنکھوں میں امڈتی حیا اور رخساروں پر ڈھلکتی حیا کی لالی کو کن حالات کے اوپر قربان کیا ہو گا۔ ذرا چشم بینا میں دیکھنے کی کوشش کیجیے۔ آپ پلکیں جھپکنا بھول جائیں گے اور جب پلک جھپکنے کی نوبت آئے گی بھی تو صدیاں بیت چکی ہوں گی۔

یہ گداگر کوچہ گرانِ شہر اقتدار تھے۔ وہ ہاتھ کہ جن پر ووٹ ڈالتے وقت کی روشنائی بھی کبھی لگی ہو گی، اب اپنے کیے کی سزا کے طور پر گدائی کے لئے اٹھ رہے تھے۔ چند ہی میل پرے شہر قتدار کے مشرقی کونے پر موجود ایوان اقتدار کی غلام گردشوں کے باسیوں کو پتہ بھی نہیں ہو گا کہ انہیں اس ایوان اقتدار تک پہنچانے والے ہاتھ اب بھیک  کے لئے اٹھے ہوئے ہیں۔ دونوں ہی غلط ہیں۔ دونوں سے کہیں بھول ہوئی ہے۔

بقول ساغر صدیقی
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے۔

اسی مکدر کیفیت میں گاڑی چلی ، سوچوں کے زاویے بدلتے رہے لیکن جونہی گاڑی سری نگر ہائی وے پر پہنچی، ایک منظر نے ساری سوچوں کو یکبارگی ذہن کے کسی تاریک خانے میں دفن کر دیا۔ یہ عصر کا وقت تھا کہ جب گاڑی سری نگر ہائی وے پر پہنچی اور یوں لگا کہ جیسے کسی نے بڑی سی تانبے کی پلیٹ گاڑی کی ونڈ سکرین سے چپکا دی ہو۔ یہ فروری کا ڈوبتا سورج تھا اور اتنا صاف اور اجلا کہ اس کے کونے صاف نظر آرہے تھے اور اس کی کرنیں اپنی تمام تر خواب ناکیوں کے ساتھ سری نگر ہائی وے اور ملحقہ علاقوں میں پھیلی ہوئی تھیں۔ خود سورج سری نگر ہائی وے کے مغربی سمت پر جلوہ افروز تھا۔ ایسا ملائم سورج کہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔

سورج اور انسان کا عجیب سا رشتہ ہے۔ یہ چمکتا ہے تو حیات کے جھمیلے وجود میں آتے ہیں۔ اس کی قہرمانیوں نے ہی ہمیں مختلف ذائقوں سے روشناس کروایا۔ اسی نے ہماری بصارتوں کو مہمیز دی اور بصیرتوں کو جلا بخشی۔ اسی کی جھلساتی آگ نے تغذیہ کا ساماں بہم فراہم کیا۔ غرض سورج حیات کی بنیادی اکائی ہے۔ لیکن بندہ بشر ٹھہرا ہی ناشکرا، کبھی آنکھ اٹھا کر اپنے محسن کو دیکھا ہی نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ دیکھنے کی تاب بھی نہیں رکھتا۔ انسان حاسد بھی ہے اور شاید سورج کی اس دائمی چمک دمک سے جلتا بھی ہو، تبھی نہیں دیکھتا۔ اور دیکھتا تبھی ہے جب سورج پر برا وقت آیا ہو جیسے سورج گرہن یا پھر سورج کے زوال کے وقت۔

اس دن بھی سورج گاڑی کے ونڈ سکرین پر اس وقت نمودار ہوا جب اس کا زوال قریب تھا۔ کسی زرد رُو حسینہ کے گلابی مکھڑے کی طرح کہ جس میں خوف اور لرزش بھی نمایاں ہو، سورج میرے سامنے ہی کھڑا رہا اور میں ہونقوں کی طرح مبہوت اسے دیکھتا رہا جیسے برسوں کی چاشنی کے بعد محبوب کا دیدار ہو رہا ہو۔ ایسے میں کس کافر کے اندر یہ جرأت رندانہ پیدا ہو سکتی تھی کہ وہ اپنی نظریں ہٹا لے۔ گاڑی چلتی رہی اور سورج اپنی تمام تر رعنائیوں اور دلبرانہ اداؤں کے ساتھ میرے سامنے عریاں کھڑا رہا۔

لیکن ایک عجب منظر ہے صاحب۔ سورج کے تانبے جیسے بدن پر کوئی عیب نظر نہیں آیا جیسے کہ چندا مہارانی کے بدن پر نظر آتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سورج کا سائز بھی بڑا ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ اور موقعے کو غنیمت جانتے ہوئے آنکھوں کے خالی کٹورے اور دل دزیدہ کے کونوں کھدروں تک یہ ملائم سی روشنی بہم پہنچانے کی بظاہر ناکام کوشش کی۔ دل چاہ رہا تھا کہ سورج کبھی نہ ڈوبے اور یہ سفر کبھی ختم نہ ہو۔ اور میں اس قہر انگیں حسینہ کی نرم و ملائم کرنوں کو یونہی محسوس کرتا رہوں۔

مگر اے آرزو بسا کہ خاک شد۔ موٹر وے پر گاڑی چڑھتے ہی سورج سامنے سے ہٹ کر یکایک گاڑی کی بائیں کھڑکی پر آ گیا۔ شاید اس نے میری آنکھوں سے جھلکتی فریاد پڑھ لی ہو یا پھر دل کی اتھاہ گہرائیوں میں پوشیدہ پیغام پڑھ لیا ہو۔ بائیں سمت آتے ہی میں نے محسوس کیا کہ سورج کا سائز قدرے چھوٹا ہو گیا ہے یا پھر کینوس بڑا ہو گیا تھا۔ شاید میری نظروں کی آوارگی دیکھ کر شرما لجا کر سمٹ گئی ہو گی۔ پھر تھوڑے سے فاصلے بھی بڑھتے ہوئے محسوس ہوئے۔ میرے اندر کی قندیلیں بجھنے سی لگی تھیں اور رہ رہ کر دل سے ہوک اٹھنے لگی تھی۔ ان چند لمحوں میں مجھے اسی سنہری حسینہ سے پیار ہو گیا تھا شاید۔

سورج کہیں دور ٹیلوں اور میدانوں کے اوپر منڈلانے لگا، لیکن میری جدائی اسے بھی برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ تبھی تو ایک ٹیلے سے دوسرے ٹیلے اور ایک میدان سے دوسرے میدان بھاگنے لگی۔ ہماری فرقت کی پریشانی دیکھ کر ماحول میں بھی بھونچال سا آ گیا تھا۔ پرندے غول کے غول اڑتے دکھائی دیے اور میرے سامنے والے درخت بڑی تیزی سے دوڑنے لگے۔ شاید ہماری فرقت کے دوشی خود کو قرار دے کر منہ چھپا کر تیزی سے بھاگ رہے تھے۔ دور میدان میں ایک درخت تن تنہا کھڑا بال کھولے کسی بیوہ کی طرح بین کر رہا تھا۔

زمین بھی شرمسار تھی شاید۔ بار بار منظر بدل رہا تھا کہ شاید کسی منظر پر رفاقت ٹک جائے اور وہ لمحہ امر ہو جائے۔ لیکن سورج دور ہوتا رہا، اسے کہیں جانے کی جلدی تھی، رنگ بھی بدلے سورج نے۔ سنہری سے سانولا اور پھر سرمئی۔ کسی مغرور ٹیلے کے سامنے چھپ جاتا، اور چھوٹے ٹیلوں کی اوٹ سے جھلک دکھلاتا جا رہا تھا۔ اور کسی ایک کمزور لمحے میں ایک اور طاقتور ٹیلے نے سورج کو اس کی تمام قہرناکیوں اور ملائمت سمیت اپنے اندر جذب کر لیا۔ یوں سورج ڈوب گیا۔ سورج تو ڈوب گیا لیکن میرے ارد گرد اندھیرا ہو گیا۔ ظلمت پھیل رہی تھی۔ گاڑی کی بتی چمکنے لگی۔ سورج اپنے ساتھ ہماری بھی روشنیاں لے جا چکا تھا۔

صاحبو یہ سورج کہانی ہے۔ جب اپنے عروج اور جوبن پر ہوتا ہے تو کسی مائی کے لال میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ اسے آنکھ بھر کر دیکھ سکے۔ جس کسی سرپھرے نے ایسی کوشش کی بھی تو اسے اپنی بصارت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ لیکن ہر عروج کو زوال ہے۔ اور جب زوال کا وقت آتا ہے تو وہ زیادہ کربناک ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں ہر شخص کی نہ صرف آنکھیں اٹھتی ہیں بلکہ زبان بھی کھل جاتی ہے۔ عروج کی ہیبت اور جاہ و حشم کی مٹی پلید ہو جاتی ہے۔ اگرچہ عروج دوبارہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لئے شب ظلمت کے کوہ گراں کو پار کرنا پڑتا ہے۔ اور جب عروج کا نام بے نشاں ہوتا ہے تب جاکے اگلے عروج کا دور آتا ہے۔

تو اے وقت کے سورج!  آج ذرا دیکھ کے چل تاکہ تجھے زوال کی لامتناہی ظلمتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز مرے گھر میں اتر شام کے بعد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).