بین کلچر (امتناعی ثقافت) اور ہماری سہل پسندی


بسنت کے تہوار کا منانا تو ویسے ہی اپنا حسن کھو چکا ہے، حکومتی پابندی تو ایک طرف مگر کائٹ فلائنگ ایسوی ایشنز نے بھی اس خوبصورت تہوار کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کیمیکل ڈور اور کنڈوں نے اتنے جان لیوا نقصانات کیے کہ اس تہوار کا حسن ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ مگر جو روایتی حل صوبائی گورنمنٹ نے تجویز کیا، یہ مناسب حل نہیں ہے ۔دوسرا اس کو آج تک لوگوں نے قبول بھی نہیں کیا۔ اور ہر سال فروری آتے ہی انتظامیہ اور شہری ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ مگر افسوس دیگر بہت سے تہواروں کی طرح بسنت بھی روایتی ”بین کلچر“ کی بھینٹ چڑھ گیا۔

پب جی (PUBG) پاکستان سمیت دنیا بھر کھیلی جانے والی گیم ہے، یو ٹیوب دنیا بھر میں سب سے زیادہ وزٹ کی جانے والی ویب سائٹس میں شمار ہوتی ہے۔ فیس بک ، ٹویٹر دنیا بھر میں سوشل نیٹ ورکنگ میں سربراہان مملکت سے لے کر عام آدمی تک اربوں صارفین رکھتی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر واٹس ایپ کا استعمال اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ حکومتوں کی زیادہ تر دستاویزات متعلقہ اداروں میں بعد میں پہنچتی ہیں اور واٹس ایپ گروپس میں پہلے پہنچ جاتی ہیں۔

اب آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو ایک طرف آئی ٹی کی دنیا میں انقلاب کی علامت مانا جا رہا ہے ، دوسری طرف ابھی سے سائنس دان اس کے متوقع خطرات سے آگاہ کرنا بھی شروع ہو گئے ہیں۔ آج کی دنیا میں سائنس اور آئی ٹی اپنے اچھے برے فوائد اور نقصانات کے ساتھ ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکی ہیں مگر ہمارے ملک میں ان کے ساتھ ایک اور کلچر بھی پایا جاتا ہے ، وہ ہے ”Ban Culture“ ۔ یعنی جب تک کوئی چیز فائدہ دیتی ہے ، ٹھیک ہے اور جیسے ہی اس کے منفی پہلو سامنے آ تے ہیں سرکار فوراً حکم جاری کر دیتی ہے کہ اس سروس کو بین کر دو۔

بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی یہ کلچر گورنمنٹ سے لے کر عوام تک ہر جگہ سرایت کر چکا ہے جہاں چیزیں آپ کی مرضی کے خلاف یا کنٹرول سے باہر ہوتی ہیں ، بجائے انہیں ریگولرائز کرنے یا ان مسائل کو حل کرنے کے سادہ روایتی طریقہ اپناؤ اور انہیں بند کر دو۔ انٹرنیٹ سروس بند کر دو، ادارہ بند کر دو، روڈ بند کر دو یا پورا سیکٹر ہی بند کر دو یا اس کے راستے اس قدر مشکل کر دو کہ بظاہر تو وہ ادارہ یا سیکٹر چل رہا ہو مگر رکاوٹیں اتنی کر دو کہ وہ سانس بھی نہ لے سکے اور اپنی موت آپ مر جائے۔

اس کی مثال غیر سرکاری ادارے ( این جی اوز ) ہیں جن پر اس قدر پابندیاں عائد کر دیں گئیں ہیں کہ سانس تک لینا دشوار ہو گیا ہے۔ گورنمنٹ کا جواز بڑا مناسب ہے کہ انٹرنیشنل فنڈنگ کے ساتھ انٹرنیشنل ایجنڈا بھی ہوتا ہے یا یہ فنڈنگ کہیں اینٹی سٹیٹ سرگرمیوں کے لیے تو استعمال نہیں ہو رہی؟ ایف اے ٹی ایف کی ڈیمانڈز بالکل ٹھیک ہیں مگر انہیں پورا کرنے کے لیے جو طریق کار اختیار کیا گیا ہے ، اس نے ڈویلپمنٹ سیکٹر کو تقریباً بند کر دیا ہے۔

غیر سرکاری تنظیموں نے اگر ملک کو نقصان پہنچایا ہے تو شاید اس سے زیادہ حکومت کے حصے کا کام این جی اوز ہی کرتی ہیں اور ہماری جغرافیائی حدود گواہ ہیں کہ جہاں حکومت نہیں پہنچ پاتی وہاں اکثر برے حالات میں فوج کے بعد غیر سرکاری تنظمیں ہی پہنچتی ہیں اور ہر طرح کے ریلیف آپریشنز اور ترقی کے کاموں میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ ہیلتھ کے شعبے میں، تعلیم کے شعبے میں، تعمیر و ترقی کے شعبے میں، صاف پانی کی عدم دستیابی میں، کورونا سمیت قدرتی آفات کے نتیجے میں متاثرہ علاقوں میں حتیٰ کہ جمہوریت کی ترقی کے لیے غیر سرکاری تنظیمیں ہی ہمیشہ کام کرتی رہی ہیں۔ مگر کسی بھی طرح کے منفی اثرات سامنے آ نے پر ہمارے پاس ایک ہی حل ہوتا ہے ، یا تو انہیں بین کر دو یا ان کے کام کے طریق کار اتنا مشکل اور پیچیدہ بنا دو کہ وہ لوگ خود ہی اپنا کام بند کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

بین کلچر کے متبادل حل بھی موجود ہیں مگر ضرورت ہے ان کو سمجھنے کی۔ سگریٹ بھی مضر صحت پراڈکٹ ہے مگر گورنمنٹ نے اسے ریگولرائز کرنے کے لیے پالیسیز مرتب کی ہیں ۔ مثال دینے کا مطلب یہ نہیں کہ سیگریٹ نوشی عام کر دیں بلکہ ضرورت اس امر کی ہے منفی پہلوؤں کو کنٹرول کیا جائے، چیک اینڈ بیلنس کا مؤثر طریقہ کار اپنایا جائے ، جو منفی پہلو ہیں ، انہیں درست کیا جائے ، نہ کہ روایتی طریقہ کار کے تحت چیزوں کو ”بین“ کر کے اپنی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار کر لی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).