اسحاق سے عشق اور عاشق تک


کچھ باوثوق خاندانی ذرائع بتاتے ہیں کہ ہماری پیدائش پر والد صاحب نے ہمارا نام اسحاق کی بجائے کچھ اور ہی تجویز کیا تھا۔ وہ نام کیا تھا، یہ بتانے سے سبھی قاصر ہیں۔ ہمیں تجسس تو بہت ہے کہ اس نام کا سراغ کہیں نہ کہیں سے ملے، لیکن سب راوی خاموش ہیں۔ یہ اطلاع تو بہرحال حتمی ہے کہ اسحاق نام ہماری پھوپھی مرحومہ نے بڑے اصرار کے ساتھ ساتھ رکھا تھا۔ وجہ اس کی یہ کہ حضرت ابرہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام بھی اسحاق تھا اور ہمارے والد صاحب کا نام بھی ابراہیم تھا۔

کبھی کبھار ”اسحاق“ نام کے ساتھ یار لوگ وہ سلوک کرتے ہیں کہ سوچتا ہوں وہی والد صاحب کا تجویز کردہ نام ہوتا تو بہتر تھا۔ وجہ اس کی یہ کہ عرصہ دراز سے یہ نام تختہ مشق بنا ہوا ہے۔ تازہ ترین جھٹکا پچھلے ہفتے پوسٹ آفس میں لگا۔ ایک پارسل کروانے گیا تو وہاں اہلکار نے ہمارے نام کے انگریزی ہجے Ishaq کا اردو ترجمہ کرتے ہوئے اسے اسحاق کی بجائے ”عاشق“ بنا دیا۔ شکر ہے رسید پر نظر پڑ گئی ورنہ بعد میں تو انہوں نے یہی کہنا تھا کہ آپ اس وقت نہیں دیکھ سکتے تھے۔

اس کی مہربانی کہ اس نے عاشق ہی بنایا جو کہ بہرحال ایک رائج نام ہے اور اس کو دیکھ کر حیرانی نہیں ہوتی کہ بھلا یہ کیا نام ہوا۔ ورنہ ایک تعلیمی بورڈ کے ایک اہلکار نے تو سیدھا ”عشق“ ہی بنا ڈالا تھا۔ اس ظالم سے بندہ پوچھے کہ بونگی مارتے ہوئے بندہ سوچ تو لے کہ یہ رائج بھی یا نہیں۔ ویسے تو ہر بندہ چاہے تسلیم کرے یا نہ کرے، عشق بھی کرتا ہے اور عاشق بھی ہوتا ہے، چاہے چھوٹا موٹا ہی ہو۔ لیکن ”عشق“ نام کا بندہ تو ہمارا خیال روئے زمین پر ملنا مشکل ہے۔

ہمارے ساتھ یہ پہلی بار نہیں ہوا، اس کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ میٹرک کے بعد ایک جگہ داخلے کے لئے گیا تو وہاں ایک صاحب نے با آواز بلند ہمارا نام ”اشفاق“ پکارا۔ ہم نے بڑے غور سے اپنے نام کے انگریزی ہجے دیکھے، کہیں پر ہمیں ان میں ”f“ نظر نہیں آیا۔ نام پکارنے والے کا رتبہ اتنا بلند تھا کہ ہم نے ان سے اس کی وجہ پوچھنے کی بجائے صبر ہی کرنے میں عافیت جانی کہ کوئی بات نہیں غلطی انسانوں سے ہی ہوتی ہے۔ بعد میں بھی چند موقعوں پر ہمارے کانوں نے ”اشفاق“ ہی سنا۔

اسی طرح بیٹے کا نتیجہ سننے ایک سکول میں گئے۔ بیٹے کی پوزیشن کی وجہ سے ہمیں اس تقریب کے لئے سکول انتظامیہ نے خصوصی طور پر بلایا تھا۔ ہمارے لئے وہاں ”اکڑ“ کر بیٹھنے کی یہ ایک معقول وجہ تھی۔ چنانچہ ہم وہاں کافی ”کھل کھلا“ کر انتظار کرنے لگے کہ ابھی ہمارا نام پکارا جائے گا اور ہم ”کڑکڑ“ کرتے کپڑوں کے ساتھ اسٹیج پر جائیں گے۔ پر ایسا نہ ہوا، ہمارا نام ہی نہ پکارا گیا۔ ہم اس بے قدری پر افسردہ بیٹھے تھے کہ بیگم نے اچانک کہا کہ ابھی ایک نام ”ہارون عاشق“ پکارا گیا ہے۔ اس پر کوئی طالب علم اسٹیج پر نہیں آیا، ہو نہ ہو یہ ہمارے ہی بیٹے کا نام پکارا گیا ہے۔ واقعی ایسا ہی ہوا تھا۔ یاد رہے کہ بیٹے کا نام ہارون ہے

ہم نے کافی تحقیق کی ہے جس کے مطابق پاکستان میں ”اسحاق“ نام کے انگریزی ہجے ”Ishaq“ ہی استعمال ہوتے ہیں۔ ”عاشق“ کے لئے ”Ashiq“ استعمال ہوتے ہیں اور ”عشق“ کے لئے پہلے عرض کر چکا ہوں کہ نام کے حوالے سے اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ ”اشفاق“ کے بھی ”f“ کا ہونا ضروری ہے۔ پھر ایک بار نہیں، کئی بار ”Ishaq“ کو عاشق، عشق اور اشفاق میں بدلتے دیکھا ہے۔ احباب کی رائے درکار ہے کہ اس مسئلے کا کیا حل نکالا جائے؟

نام تبدیل کرنے کی اب کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ رہا سوال نام کے ہجے تبدیل کروانے کا تو تمام تعلیمی اسناد پر ہجے بھی یہی ہیں، وہاں سے بھی تبدیل کروانا مشکل ہے۔ ہمارے خیال میں میں تو دوا کا وقت تو گزر گیا ہے، اب تو دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ متعلقہ اہلکار لکھتے اور پکارتے وقت تھوڑا غور کر لیا کریں۔ گلے میں تختی بھی نہیں لٹکائی جا سکتی کہ میرا نام اردو میں یہ بنتا ہے۔

یاد رہے کہ اس صورت حال کا نشانہ بننے والے ہم پہلے اور آخری آدمی نہیں ہیں۔ ایک بار سمن آباد لاہور کی گلیوں میں ایک ڈاکیا ”قاتل سپاہی“ کا گھر تلاش کرتے ہوئے ہلکان ہو رہا تھا کیونکہ موصوف Qatil Shiphae کا ترجمہ قتیل شفائی کی بجائے قاتل سپاہی کر بیٹھے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).