سپیڈ بریکرز سے ہماری مثالی محبت



پرانے وقتوں میں جب سواری جانوروں پر ہوتی تھی تو اس مناسبت سے ”روڑے اٹکا“ کر سفر کو روکا جاتا تھا۔ آج کے دور میں روڑے اٹکانا بظاہر تو ایک محاورہ ہی رہ گیا ہے پر ”روڑے اٹکانے“ والوں کی نسل ابھی بھی پائی جاتی ہے۔ آج کل کے روڑے کو ”سپیڈ بریکر“ کہا جاتا ہے۔

یہ انقلابی ایجاد کب ہوئی، کون اس کا موجد ہے ، اس بارے میں کوئی سند تو میسر نہیں آئی فی الحال ، ہاں البتہ اسے ایجاد کرنے والے کو ہم ہر روز اپنی ”سابقہ محبوبہ“ سے بھی زیادہ یاد کرتے ہیں اور تقریباً انہی الفاظ میں بھی۔

اب بظاہر دیکھا جائے تو سپیڈ بریکر بنانے کا مقصد ٹریفک کی رفتار کو آہستہ کرنا ہے اور یہ بہت اچھے طریقے سے استعمال بھی کیا جا سکتا ہے پر ارض پاک میں ایسا کچھ نہیں۔ ہمارے یہاں سپیڈ بریکر کا کام کچھ بھی ہو سکتا ہے پر ٹریفک کی رفتار کو کم کرنا ہرگز نہیں۔

یہاں آج کے دور میں سپیڈ بریکر جسے عرف عام میں ”جمپ“ کہتے ہیں ، وہ سو کا لال نوٹ ہے جسے سفید کاٹن کے سوٹ کو سامنے والی جیب میں رکھا جاتا تھا، یا ’باہر لے‘ ملک سے آئے ماموں کا دیا ہوا واک مین ہے جسے بنا کسی وجہ سے ہر وقت ہاتھ میں رکھا جاتا تھا۔

یہاں سپیڈ بریکر بنانے کے پیچھے انتہائی اہم وجوہات ہوتی ہیں، جیسا کہ لڑکے کی پچیس ہزار تنخواہ لگ گئی تو بناؤ گھر کے آگے ایک عدد جمپ کہ ہر آنے جانے والے کو پتہ لگے ”اے جیدے گھر اگے جمپ آ نا اینا دا منڈا چنگا کما ریا اے“ ۔ گھر بنا رہے یا کوئی توڑ پھوڑ کی ، کچھ اینٹیں روڑے بچ گئے تو بناؤ گھر کے آگے ایک جمپ۔

اچھا اکثر ایسا بھی دیکھا گیا کہ سامنے والوں سے اگر نہیں بنتی تو سڑک کے درمیان تک کا جمپ وجود میں آ جاتا ہے اور اکثر ایک گھر کے دونوں کونوں پر بنایا جاتا ہے جیسے سارے ایٹمی ہتھیار اسی گھر کے سٹور روم میں رکھے ہیں۔

ایسے ایسے ارسطو بھی ہیں کہ ایک گلی میں چار چار سپیڈ بریکر ہیں جو سپیڈ بریکر کم ”پسلی بریکر“ زیادہ لگتے ہیں۔ اور تو اور ایک ایسا سپیڈ بریکر دیکھا جو بند گلی میں آخری گھر سے پہلے تھا۔ مطلب جو بندہ سامنے آٹھ فٹ کی دیوار دیکھ کے نہیں رکے گا ، اسے چار انچ کا جمپ روکے گا۔ ہے ناں کمال۔

یہاں ایسے بھی نظارے ہیں کہ کسی روڈ پر پانی کے پائپ ڈالنے والے بربادی کر گئے، گلی کے دو گٹروں میں سے ایک کا ڈھکن ٹوٹا اور دوسرے کا سرے سے ہے ہی نہیں اور ایسے میں بھی جو تھوڑی سی سیدھی روڈ ہے ، اس پر ایک زگ زیگ شکل کا شاہکار بنا دیا گیا۔ مطلب اتنی بھی کیا ”ان سکیورٹیز“ ہوئیں بھئی!

اب اگر ان کے مختلف ڈیزائنوں کی بات کی جائے تو وہ ایک الگ ہی کلاس ہے۔ جیسے کہ دو تین انچ کا تکونی شکل کا جمپ جو ایسے ہی ہے جیسے روڈ پر لوہے کے سموسے رکھ دیے گئے ہوں۔ اب آپ آہستہ کیا رینگ کر بھی گزرو تو ایسا جھٹکا لگتا ہے کہ معدہ دل کا حال احوال پوچھ کے واپس آئے۔ بقول میرے دوست کہ اسے عرف عام میں ”کھسرا جمپ“ کہتے ہیں۔ اب اس سے پہلے کہ حساس لوگ لٹھ اٹھائیں ، مجھے سمجھانے آئیں ، بتاتا چلوں کہ یہ لقب میں نے دیا ہے اور نہ ہی مجھے اس کی کوئی لاجک سمجھ میں آئی۔بس یہ سنا تو بتا دیا۔

ایک وہ چار پانچ فٹ لمبا جمپ ہوتا ہے کہ اگر آپ ذرا سا بھی سپیڈ میں ہوں تو آپ کی بائیک وہیں رک جائے اور آپ دھڑام سے سجدہ ریز ہو جاؤ۔ یعنی ان کا مقصد آپ کو صرف تیز رفتاری سے روکنا نہیں ہے بلکہ آپ کو اذیت دینا ہے کہ آپ نے یہ گاڑی خریدی ہی کیوں۔ ہماری قوم کو ان ”ترقیاتی جمپوں“ سے اتنی محبت ہو گئی ہے کہ یہاں وارث پورہ روڈ پر ”سپیڈ بریکر“ بنوانے پر ایم این اے صاحب کے شکریے کے بینرز لگا دیے گئے تھے۔

اس تحریر کے چکر میں میں بھول ہی گیا کہ گھر کہ میں باہر جمپ بنا کے آیا ہوں ، ابھی دیکھ کر آتا ہوں کوئی خراب تو نہیں کر گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).