انسانی جسم کا دفاعی نظام اور ویکسین


کبھی آپ نے غور کیا کہ چھینک آنے پر الحمدللہ کہنے میں کیا حکمت ہے اور سننے والے پر کیوں واجب ہے کہ وہ یرحمک اللہ کہے یعنی اللہ تم پر رحم کرے؟

پندرہ سو سال پہلے ہمارے نبی ﷺ نے جو سکھایا تھا ، انسان نے صدیوں کی عرق ریزی کے بعد اس کی مصلحت کو جانا۔

چھینک دراصل آپ کے دفاعی نظام کا پہلا مورچہ ہے۔ جب کوئی ضرر رساں چیز ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے تو انتہائی برق رفتار ہوا کا بگولہ اسے دور پھینک دیتا ہے۔ تحقیق کے مطابق چھینک میں ہوا کی رفتار 150 کلومیٹر فی گھنٹہ یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ اگر دشمن گلے کے راستے گھسنے کی کوشش کرے تو محافظ کھانسی دوڑ کر مدد کو آتی ہے۔ کھانسی میں ہوا کی رفتار 75 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔

گلے کی نالی میں خوردبینی برش لگے ہوتے ہیں جو مسلسل گلے اور سانس کی نالی کی صفائی کرتے رہتے ہیں۔ اگر جراثیم یا الرجی زیادہ ہو جائے تو میوکس نامی لیس دار لعاب میں لپیٹ کر گولا بناتے ہیں جو کھانس کے ذریعے خارج کر دیا جاتا ہے۔

سگریٹ نوشی یہ کارآمد برش نوچ کر پھینک دیتی ہے اور اسموکرز کو سانس کی نالی کی صفائی کے لئے بار بار کھانسنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اسی لیے جو کام عام انسان کے جسم میں غیر محسوس طریقے سے مسلسل ہو رہا ہوتا ہے ، سیگرٹ نوشی کے عادی افراد کو کھانس کھانس کے کرنا ہوتا ہے۔ موقع پا کر جراثیم آسانی سے ان کے پھیپھڑوں پر ہلہ بول سکتے ہیں۔

منہ اور ناک ہی نہیں، جسم کے ہر روزن ہر مدخل پر سیکیورٹی گارڈ ایستادہ ہیں۔ مقعد ہو یا مہبل، آنکھ ہو یا جلد دشمن کو دبوچنے کے لیے ہر مقام پر آرٹلری موجود ہے۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے مگر اس آرٹلری میں جراثیم بھی شامل ہیں۔ جی ہاں، سارے جراثیم برے نہیں ہوتے کچھ ہمارے جسم میں دوستوں کی طرح رہتے ہیں اور اُچکے لفنگے جراثیم کو گھسنے نہیں دیتے (جراثیم کش محلول اور اینٹی بائیوٹک کے بے مہار اور غیر معقول استعمال سے یہ ہمدرد جراثیم بھی فنا ہو جاتے ہیں اور ضرر رساں جراثیم آسانی سے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں)

اگر ہراول دستہ حملہ آور کو قابو نہ کر سکے تو دیو کی طرح سالم نگل جانے والے macrophages میدان میں آ پہنچتے ہیں اور عدو کو سالم نگل نگل کر جہنم واصل کرتے ہیں۔ ادھر یہ برسر پیکار ہوتے ہیں ادھر اعلیٰ دفاعی قیادت کو دشمن کی شناخت، نفری اور حملے کی تفصیل بھیج دی جاتی ہے۔ ان معلومات کی روشنی میں special customised force تیار کی جاتی ہے یہ طاقتور فورس اینٹی باڈی اور لمفوسائیٹ antibody and) lymphocytes) کی فوج ہوتی ہے جو حملہ آور کی ساخت کے مطابق تیار کی جاتی ہے۔

اس کی تیاری میں کچھ دن درکار ہوتے ہیں اور تب تک آرٹلری معرکہ ارائی کرتی ہے ، بس ایک بار یہ فورس میدان جنگ میں اترتی ہے تو وہ گھمسان کا رن پڑتا ہے کہ الامان۔ میدان دشمن کی لاشوں سے پٹ جاتا ہے اور cells scavenger لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔ کچھ اپنے سپاہی بھی مارے جاتے ہیں۔ اسلحے کی پٹاپٹ سے حدت بڑھ جاتی ہے اور بیچارا بیمار بخار اور درد سے ہائے ہائے کرتا ہے۔ بالآخر شہزور سپاہ فتح یاب ہوتی ہے اور مریض اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اب جسم تباہ و برباد علاقوں کی مرمت میں لگ جاتا ہے ، مریض تھکا تھکا رہتا ہے تا آنکہ مرمت کا کام مکمل ہو جائے اور انسان پھر سے ہٹا کٹا ہو جائے۔

بایں ہمہ کچھ جراثیم بڑے تباہ کن ہوتے ہیں ، دربانوں کو کچلتے، سپاہیوں کو شہید کرتے سیدھے اعضائے رئیسہ کو جا دبوچتے ہیں اور ایسا کاری وار کرتے ہیں کہ کمک پہنچنے کی مہلت نہیں دیتے اور دم نکال کر ہی دم لیتے ہیں۔ ایسے جراثیم کے لیے حفظ ماتقدم یعنی ویکسین ایجاد کی گئی۔

ویکسین کے بارے میں بڑی افواہیں گرم رہتی ہیں ، پولیو ویکسین تو خاص طور پر معتوب رہی ہے۔ کورونا ویکسین کے بارے میں بھی وسواس پھیلائے جا رہے ہیں ، عوام الناس کو چاہیے کہ ان افواہوں پر کان نہ دھریں۔ صحت کے مستند اداروں کی ویب سائٹ سے رجوع کریں۔

ویکسین کیا ہوتی ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟

ویکسین ہمارے جسم کے قدرتی دفاعی نظام کو استحکام عطا کرتی ہے۔

ایک صاحب فرمانے لگے ”آپ کو پتہ ہے یہ ویکسین کے نام پر پولیو کے جراثیم جسم میں داخل کرتے ہیں تاکہ ہمارے بچوں کو پولیو ہو جائے“ کہہ تو وہ ٹھیک ہی رہے تھے۔ مگر یہ آدھا سچ ہے۔

جی ہاں! تمام ویکسین جراثیم یا ان کے زہر سے ہی بنتی ہیں۔ زندہ، مردہ یا نیم مردہ جراثیم یا ان کا کوئی ذرہ یا پھر ان کے زہر کی بے حد معمولی مقدار جسم میں داخل کی جاتی ہے ، اتنی معمولی کہ اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچتا البتہ دفاعی نظام الرٹ ہو جاتا ہے۔

آئیے ذرا آموختہ دہرا لیں۔ ہم نے بتایا تھا کہ اسپیشل ٹاسک فورس آنے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ پولیو،  خناق ، کورونا جیسے جراثیم اتنی مہلت نہیں دیتے اور کمک پہنچنے سے پہلے ہی ناقابل تلافی زک پہنچا دیتے ہیں۔ ویکسین دراصل خفیہ ایجنسی ہے جو جسم کے دفاعی حکام کو حملہ آور کا بلو پرنٹ فراہم کرتی ہے۔ دفاعی منتظم اس کے مطابق مؤثر فوج تیار کر لیتے ہیں اور پھر جب دشمن شب خون مارنے کی کوشش کرتا ہے تو پہلے سے ہوشیار چاق و چوبند دستے بھرپور جوابی وار کر کے اسے سرپرائز دے دیتے ہیں۔

زندہ جراثیم سے بنی ویکسین بہت موثر ہوتی ہیں مگر حاملہ خواتین نوزائیدہ اور immune compromised افراد کو نہیں دی جا سکتی، مردہ نیم مردہ جراثیم یا ان کے ذرات اور زہر سے تیار کردہ ویکسین مقابلتاً کم تاثیر رکھتی ہیں اور ان کی کئی خوراکیں دینی پڑتی ہیں۔

ہر ویکسین کو عام آدمی کے استعمال سے پہلے چھ مراحل سے گزرنا ہوتا ہے
1۔ لیبارٹری میں تحقیق
2۔ گنی پگ اور بندر پر تحقیق
3۔ پندرہ بیس رضاکار انسانوں پر تحقیق۔ phase 1
4۔ سینکڑوں رضاکار انسانوں پر تحقیق۔ phase 2
5۔ ہزاروں انسانوں پر تحقیق۔ phase 3
6 مندرجہ بالا تجربات کی روشنی میں ویکسین کے اچھے برے اثرات پر مزید تحقیق۔ phase 4

ان چھ مراحل پر جانچنے کے بعد مارکیٹ میں اتارا جاتا ہے اور اس کے بعد بھی مسلسل اس کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔ ہر ملک میں ریسرچ جاری رہتی ہے یہاں تک کہ کئی سال کے محفوظ اور مؤثر استعمال کے بعد مہر تصدیق ثبت ہو جائے۔

پولیو ویکسین ایک ایسی ہی ویکسین ہے ، جس نے دنیا سے اس بنائے معذوری کا قلع قمع کر دیا ہے سوائے چند ممالک کے جن میں بدقسمتی سے پاکستان شامل ہے۔

صحت عامہ کے ادارے پیہم سعی میں مصروف ہیں ، کتنے ہی رضاکار جانوں کی قربانی دے چکے ہیں ۔ میری دعا ہے کہ یہ سعی لاحاصل نہ رہے اور ہم اپنے ہر بچے تک یہ ویکسین پہنچا سکیں ، ہر بچہ کے جسم میں پولیو کے خلاف مضبوط دفاع پیدا ہو جائے اور ہر بچہ اپنے قدموں پر جم کے کھڑا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).