کے ٹو: محمد علی سد پارہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیا ممکنہ حادثہ پیش آیا ہو گا اور ان کی تلاش کے مشن میں کیا ہو رہا ہے؟


سد پارہ
دنیا میں کسی بھی جگہ کے سفر پر نکلنے سے پہلے آپ خود کو پیش آنے والی کسی بھی ناگہانی آفت کی صورت میں اپنے بچاؤ کا بندوبست کر کے ہی نکلتے ہیں۔ اور خدانخواستہ آپ کو کوئی حادثہ پیش آ جانے کی صورت میں آپ کے عزیز و اقارب یا دوست رشتہ دار دوڑے دوڑے آپ کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔

لیکن اگر آپ کو پیش آنے والے اس حادثے کا مقام ’موت کی وادی‘ قرار دیے جانے والے پہاڑوں پر 8000 میٹر سے زیادہ بلندی پر واقع ہو تو سوچیے کیا ہو گا؟

دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو سردیوں میں سر کرنے کی کوشش کرنے والے پاکستانی کوہ پیما علی سد پارہ سمیت تین کوہ پیماؤں کا رابطہ جمعہ کے روز سے بیس کیمپ، ٹیم اور اہل خانہ سے منقطع ہوا اور سنیچر سے اب تک ان کا سراغ لگانے کی تمام کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔

تو ان کوہ پیماؤں کے ساتھ ممکنہ طور پر کیا حادثہ پیش آیا ہو گا؟ پاکستان میں سرچ اور ریسکیو کے حوالے سے کیا پروٹوکول ہیں اور اب تک کیا کیا ہو رہا ہے؟ کون سی ٹیکنالوجی پہلی مرتبہ سرچ اور ریسکیو کے لیے استعمال کی جا رہی ہے؟ اور اس سارے مشن میں پاکستانی فوج کا کیا کردار ہے؟

بی بی سی نے اس مضمون میں ان تینوں کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے کیے جانے والے ریسکیو مشن کے حوالے سے متعلقہ انتظامیہ، خاندان کے افراد اور کوہ پیمائی سے وابستہ ماہرین سے بات کر کے ان سوالوں کا جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔

علی سد پارہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا ہو گا؟

مہم جو عمران حیدر تھہیم کوہ پیمائی کے شوقین اور گذشتہ 10 برس سے اس حوالے سے تحقیق کرتے آ رہے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عمران کہتے ہیں کہ اس طرح کے معاملے میں ریسکیو مشن ایک لحاظ سے ’کاسمیٹک‘ یا یہ کہہ لیں کہ انسان سے جتنا ہو سکے وہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

جیسا کہ ساجد سد پارہ کے مطابق جب انھیں ڈیتھ زون میں ہیلیوسنیشن شروع ہوئی اور آکسیجن ماسک کا ریگولیٹر خراب ہو جانے کے باعث انھیں واپس لوٹا پڑا، اس وقت دن کے 10 بجے کا وقت تھا اور علی سدپارہ کی ٹیم 8200 میٹر پر یعنی ڈیتھ زون کے سب سے مشکل سیکشن کے انتہائی خطرناک حصے پر موجود تھی۔

یہ بھی پڑھیے

کے ٹو کا ’ڈیتھ زون‘ کیا ہے اور کوہ پیما وہاں کتنے گھنٹے زندہ رہ سکتے ہیں؟

پاکستانی کوہ پیما جو K 2 سر کرنے والی پہلی کامیاب مہم کا حصہ نہ بن سکا

نیپالی کوہ پیماؤں نے تاریخ رقم کر دی، کے ٹو کو موسم سرما میں پہلی بار سر کر لیا گیا

علی سدپارہ اور دیگر کوہ پیماؤں کی تلاش کا آپریشن خراب موسم کی وجہ سے روک دیا گیا

عمران کہتے ہیں کہ بوٹل نیک سے گزرنے کے بعد ٹریورس آتا ہے اور کوہ پیما کو اس کی آئس وال کے ساتھ چپک کر فکسڈ لائن پر چلنا ہوتا ہے اور ان کے اندازوں کے مطابق اس جگہ پر علی سدپارہ کی ٹیم کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کی تین صورتحال ہو سکتی ہیں:

1) تھکاوٹ یا آکسیجن کی کمی کے باعث جسم پر ہونے والے منفی اثرات کے باعث آپ کا پاؤں پِھسلے اور آپ فکسڈ لائن کو اپنے وزن کی فرکشن (دو سطحوں کے آپس میں ٹکرانے سے پیدا ہونے والی قوت) کی وجہ سے اُکھاڑنے کا سبب بن جائیں۔

عمران کہتے ہیں کہ جو کوہ پیما تھکاوٹ کا شکار ہو جائیں وہ واپس لوٹ آتے ہیں اور یہ اتنے سخت جان اور تجربہ کار کوہ پیما تھے اور جیسے ان کا بیٹا ساجد بتا رہا ہے کہ وہ بہت اچھی اور فٹ حالت میں اوپر سمٹ کی جانب رواں دواں تھے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ ممکنہ طور پر وہ تھکاوٹ کا شکار تو نہیں تھے۔ لہذا عمران اپنے تجربے اور شواہد کی بنیاد پر اس کیس میں تھکاوٹ کے امکان کو مسترد کرتے ہیں۔

2) رسی اچانک ٹُوٹ جائے

جہاں تک رسی ٹوٹنے کی بات ہے، اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ہر سمٹ پر نئی رسی لگائی جاتی ہے (16 جنوری کو جب نیپالی شرپاؤں کے گروپ نے سمٹ کیا تو اس وقت نئی رسی لگائی گئی تھی جسے لگے 15 دن سے زیادہ گزر چکے تھے اور اس پر برف بھی پڑی ہو گی) لہٰذا پرانی اور نئی رسی میں فرق کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔

روپ

عمران کہتے ہیں کہ اگر تو آپ نے نیپالی شرپاؤں کی لگائی رسی کے بجائے کسی دو سال پرانی کمزور رسی کو ہاتھ لگا لیا تو اس صورت میں اگر آپ گریں یا سلپ ہوں تو فرکشن آپ کے وزن سے 10 گنا زیادہ ہوتی ہے۔

’اگر میرا 80 کلو وزن ہے تو تقریباً 800 کلو کی فرکشن آئے گی‘ (یعنی جب آپ گریں گے تو جو جھٹکا لگے گا وہ 800 کلو کا ہو گا کیونکہ کششِ ثقل آپ کو کھینچ رہی ہوتی ہے۔)

اس صورت میں آپ پینڈولم کی طرح لٹک جائیں گے اور چونکہ فکسڈ لائن پر ایک سے زیادہ کوہ پیما ہوتے ہیں اس لیے وزن کی وجہ سے سب نیچے گِر جائیں گے۔

عمران کے مطابق برف پر گرنے کی صورت میں چونکہ برف نرم ہوتی ہے اور آپ سلائیڈ ہوتے جاتے ہیں اور اس صورت میں جو آپ آئیس ایکس کا استعمال کرتے ہوئے خود کو سیلف ارسٹ (الٹے ہو کر آئیس ایکس کو برف میں مارنا جس سے کسی سٹیج پر جا کر آپ کا پھسلنے کا عمل رک جاتا ہے) کر کے بچا سکتے ہیں۔

لیکن دوسری صورت میں آپ اس حصے میں گریں گے جو پتھریلا چٹانوں والا حصہ ہے جسے تکنیکی زبان میں ابیس Abyss کہتے ہیں (زمین پر جہاں ہوا موجود ہے لیکن خالی گُھپا یا گہرائی ہے اُسے ابِس Abyss کہتے ہیں جبکہ زمین سے اُوپر جہاں ہَوا نہیں اُسے سپیس کہا جاتا ہے۔)

چنانچہ جب کوئی کوہ پیما ابِیس میں گِرتا ہے تو اس کی ہڈیاں ٹُوٹنے اور سر کی چوٹ کا امکان زیادہ ہوتا ہے جس سے فوری موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

ایکس

لہٰذا ہو سکتا ہے کہ اگر وہ تینوں پرانی رسی کو استعمال کر رہے تھے تو یہ خطرناک ہے اور ان کے کہیں گرنے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔

عمران کے مطابق ان کوہ پیماؤں کے ساتھ سنہ 2008 میں ہونے والے حادثے جیسا بھی کچھ واقعہ ہو سکتا ہے۔

’آپ کی رسی فکسڈ لائن پر کیرابینر کے ذریعے اٹیچ ہوتی ہے۔ کیرابینر ایک کلپ ہوتا ہے جسے آپ رسی کے اندر ڈالتے ہیں جو آپ کی سیفٹی ہوتی ہے۔ لیکن اگلا پیچ لگانے اور اپنے کلپ کو ان کلپ کر کے آگے اٹیچ کرنے کی کوشش میں کوہ پیما گر جاتے ہیں۔ سنہ 2008 میں یہی ہوا تھا اور 11 کوہ پیما ہلاک ہو گئے تھے۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ یہ اتنے تجربہ کار کوہ پیما تھے کہ آپ ان سے ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی امید نہیں کر سکتے۔

عمران کے مطابق زیادہ امکان یہی ہے کہ ان میں سے کوئی ایک کوہ پیما عدم توازن کے باعث گر گیا ہے اور باقی سب کو بھی ساتھ لے گیا ہے۔

3) گلیشیئر کے ٹوٹنے سے بن جانے والا برف کے لٹکنے والے تودوں over-hanging seracs سے کوئی تودہ ٹُوٹ کر آپ پر گِرے یا فکسڈ لائن کو کاٹ دے

پہاڑ

عمران کے مطابق کے ٹو پر یہ سیراکس 20 منزلوں جتنی بڑی ہیں یعنی بہت بڑا برف کا تودہ ہے جو لٹک رہا ہے۔

چونکہ سال ہا سال سال برف پڑتی رہتی ہے لہٰذا وہ سارا تودہ تو گر نہیں سکتا اس لیے ہو سکتا ہے کہ کوئی تازہ برف اڑتی ہوئی آئی اور کوئی ایک ٹکڑا ٹوٹ کر گرے اور آپ کی رسی کو کاٹ دے۔

وہ بتاتے ہیں آپ اگر تیز رفتاری سے بھی جائیں تو ان سیراکس سے گزرنے میں کم از کم چھ گھنٹے لگتے ہیں یعنی چھ گھنٹے آپ خطرے کے نیچے چلتے ہیں۔ اسی لیے کوہ پیما کوشش کرتے ہیں کہ سورج کی پہلی کرنوں سے بھی پہلے نکلیں اور جب برف ٹھوس حالت میں ہے اس وقت وہاں سے گزر جائیں۔

عمران کہتے ہیں کہ ماؤنٹینیئرنگ کی سمجھ بُوجھ رکھنے والے تمام جونیئر سینیئرز کلائمبرز میں سے اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ اگر سدپارہ کی ٹیم کو کوئی حادثہ پیش آیا ہے اور باٹل نَیک کے علاقے سے ان کی فال ہوئی ہے تو غالب امکان یہی ہے کہ پہلے سے لگی فکسڈ لائن پر کسی پُرانے رسّے کے استعمال سے پریشر کی وجہ سے وہ ٹُوٹ گیا ہو۔

ان کے مطابق بلغارین کلائمبر اٹاناس سکاتوف کی موت کی وجہ بھی اب یہی سامنے آ رہی ہے کہ وہ غلطی سے پُرانے رسے کا استعمال کر بیٹھے تھے جو شاید اُن کے گرنے کا سبب بنی۔

اس فال کے عینی شاہد کینیڈین فوٹوگرافر ایلیا سیکلی نے جو سدپارہ کی مُہم جُوئی کو ڈاکیومنٹ کرنے آئے تھے، نے اپنی انسٹاگرام پوسٹ میں ذکر کیا ہے کہ جب مَیں اپنی کیمرہ ٹیم کے ساتھ کیمپ تھری سے نیچے آ رہا تھا تو بلغارین کلائمبر اُوپر سے کہیں پِھسل کر گِرے اور گولی کی رفتار کے ساتھ عین ہمارے سروں کے اُوپر سے گُزرتے ہوئے ہماری آنکھوں کے سامنے نیچے جا کر ہٹ ہوئے جو بہت خوفناک منظر تھا۔

سرچ اور ریسکیو کے حوالے سے اب تک کیا ہو رہا ہے؟

ہیلی

پاکستان، آئس لینڈ اور چلی کے ان تینوں لاپتہ کوہ پیماؤں کے خاندانوں نے 72 گھنٹے سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود انھیں تلاش اور ریسکیو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس مقصد کے لیے ایک ’ورچوئل بیس کیمپ‘ بھی قائم کیا گیا ہے۔

اس ورچوئل کیمپ کو علی سد پارہ کے دیرینہ دوست راؤ احمد، ان کے بیٹے ساجد سدپارہ اور برطانوی نژاد امریکی کوہ پیما، وینیسا او برائن (جو پاکستان کے لیے خیر سگالی سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہی ہیں اور جون سنوری کے ساتھ کے ٹو کو سر بھی کر چکی ہیں) نے مل کر قائم کیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ونیسا نے بتایا کہ ورٹیکل اور ہاریزانٹل کوریج کے چھ ہیلی کاپٹر پروازوں کے باوجود کسی حادثے یا لاشوں کی کوئی علامت نہیں دیکھی گئی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ خاصے ہوشیار کوہ پیما ہیں، ان کے پاس پانی پگھلنے کے لیے ایندھن ہے، ان تینوں نے مل کر یقیناً کوئی پناہ گاہ بنا لی ہو گی۔

’اگر انھوں نے کوئی سنو شیلٹر یا غار بنا لیا ہے (جس کا زیادہ امکان ہے) تو اس صورت میں ظاہر ہے وہ نظر نہیں آ سکتے اور اسی لیے ہم نے آئس لینڈ کی سپیس ایجنسی کے ساتھ شراکت کی ہے کیونکہ ان کی ٹیکنالوجی کے ذریعے دن ہو یا رات، بارش ہو یا ہوا، آپ اوپر سے نیچے تک دیکھ سکتے ہیں۔‘

کون سی ٹیکنالوجی پہلی مرتبہ سرچ اور ریسکیو کے لیے استعمال کی جا رہی ہے؟

وینیسا او برائن نے ورچوئل کیمپ میں استعمال کی جانے والی تکنیکی مدد سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا پہاڑی علاقہ ہے لیکن انھیں آئس لینڈ کے ریڈار سیٹلائٹ امیجنگ کی مستقل نگرانی فراہم کرنے والی آئس آئی ICEYE ٹیکنالوجی کی مدد حاصل ہے۔

آئس آئی ICEYE سے انھیں ایسی ہائی ریز سیٹلائٹ تصاویر موصول ہوئی ہیں جو آج سے قبل کسی ریسکیو کارروائی میں استعمال نہیں کی گئیں۔

ان تصاویر سے وہ علاقے بھی دیکھنے میں مدد ملی ہے جہاں موسم کی خرابی اور سرد ہواؤں کے باعث اب تک ہیلی کاپٹر کی رسائی ممکن نہیں ہو سکی تھی۔

ونیسا کے مطابق اس ڈیٹا، کوہ پیماؤں کے پاس موجود آلات (گارمن، تھوریا، انمارسٹ ) اور عینی شاہدین کے انٹرویوز کی مدد سے سمٹ کے دوران لاپتہ کوہ پیماؤں کے ممکنہ مقامات کی ایک ٹائم لائن تیار کی گئی ہے تاکہ سرچ اور ریسکیو کی کوششوں کو بہتر انداز میں جاری رکھا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ورچوئل کیمپ کے آپریشنز کو پاکستان انالٹیکا اور کرنل حسن آفتاب کی مدد سے چلایا جا رہا ہے جبکہ ہائی ایلٹیٹیوڈ پورٹرز امتیاز، اکبر، فضل علی اور جلال کی مدد بھی حاصل ہے جو سخت تھکن اور مشکلات کے باوجود تلاش کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سرچ اور ریسکیو مشن کے پروٹوکول کیا ہیں؟

ایورسٹ

الپائن ٹورز کے جنرل سیکریٹری کرار حیدری اور پاکستان میں ہیڈ آف ریسکیو مشن فار پاٹو (پاکستان ٹور آپریڑ ایسوسی ایشن) اصغر علی نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان آنے والے مہم جو افراد لاپتہ ہونے کی صورت میں تلاش اور ریسکیو کے لیے ’عسکری ایوی ایشن‘ نامی کمپنی کے پاس پندرہ ہزار ڈالر کی رقم جمع کرواتے ہیں۔

لیکن مدد کی ضرورت نہ پڑنے کی صورت میں تین سو ڈالر سروس فیس وصول کر کے باقی رقم واپس کر دی جاتی ہے۔

عسکری ایوی ایشن کی ویب سائٹ کے مطابق تلاش اور ریسکیو کے لیے معاوضہ 3200 ڈالر فی گھنٹہ ہے۔

اصغر علی نے بتایا کہ پاکستان میں بین الاقوامی کوہ پیماؤں کو سہولت فراہم کرنے والے ٹور آپریٹرز نے مل کر پانچ پانچ لاکھ روپے عسکری ایوی ایشن کے پاس جمع کروا رکھے ہیں مگر یہ رقم صرف اسی صورت میں استعمال کی جاتی ہے جب کسی کوہ پیما کو حادثے یا جس جگہ وہ پھنسا ہو، وہاں سے ریسکیو کرنا پڑے۔

اگر کوہ پیما کی تلاش کا کام بھی کرنا ہو تو اس صورت میں یہ رقم کم پڑ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں ٹور آپریٹر کوہ پیما کی متعلقہ انشورنس کمپنی سے رابطہ کرتے ہیں اور انشورنس کمپنی کی گارنٹی پر عسکری ایوی ایشن تلاش کا کام جاری رکھتی ہے۔

انشورنس کی رقم کم پڑنے کی صورت میں متاثرہ کوہ پیما کے ملک کی حکومت، ان کا خاندان، دوست احباب اور سفارت خانہ بھی مدد کے لیے آ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کوہ پیما کے ساتھ حادثے کی صورت میں ماؤنٹینیئرنگ کمیونٹی بھی ایکٹو ہو جاتی ہے اور ’گو فنڈ می‘ سے بھی اسے بچانے کے لیے رقم اکھٹا کی جاتی ہے۔

اصغر علی کا کہنا تھا کہ کسی کوہ پیما کے لاپتہ ہونے کی صورت میں بیس کیمپ کا عملہ یا ان کے ساتھی متعلقہ ٹور آپریٹر، اپنی انشورنس کمپنی یا خود انھیں کال کرتے ہیں۔

اس کے بعد متعلقہ انشورنس کمپنی کو حادثے کے مقام کی مناسبت سے ہیلی ریسکیو کے اخراجات کا تخمینہ لگا کر دیا جاتا ہے۔

اصغر علی کے مطابق اگر صرف بیس کیمپ جا کر کسی کوہ پیما کو سکردو لانا ہو تو اس میں اندازاً چار گھنٹے کا وقت لگتا ہے لیکن سرچ مشن بہت مہنگا ہوتا ہے کیونکہ اس کا انحصار اس پر ہے کہ سرچ میں کتنے گھنٹے کا وقت لگا (اصغر علی کے مطابق ان تین کوہ پیماؤں کی تلاش اور ریسکیو کے لیے ابھی تک جتنے بھی ہیلی کاپٹر بھیجے گئے ہیں وہ مشن پاکستانی حکومت، آرمی اور فائیو سکوارڈن کی مہربانی سے مفت کیے جا رہے ہیں۔)

لیٹر یا ای میل پر گارنٹی آف پیمنٹ ملنے کی صورت میں ہیڈ آف ریسکیو مشن فار پاٹو فوراً عسکری ایوی ایشن سے رابطہ کر کے انھیں الرٹ کر دیتے ہیں اور یہ سارا عمل ایک گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے اور ہیلی کاپٹر کی دستیابی اور موسم کی مناسبت سے اسے فوراً سرچ اینڈ ریسکیو کے لیے روانہ کر دیا جاتا ہے۔

اس کے بعد عسکری ایوی ایشن بیس کیمپ سے کوآرڈینیٹ کرنے اور لاپتہ کوہ پیما کو ڈھونڈنے کے لیے ممکنہ روٹس پر ہیلی کاپٹر کو جتنی اونچائی تک لے جا سکیں، لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہیلی کاپٹر سے کیا تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟

اصغر علی کے مطابق ہیلی کاپٹر سے عموماً انسانی آنکھ اور جدید آلات (جی پی ایس ٹریکر وغیرہ) کی مدد سے کوہ پیماؤں کو اس روٹ پر تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جہاں سے وہ سمٹ کرنے گئے ہوں۔

’اگر وہ کہیں گرے ہیں تو اس پر ان کا کوئی نشان ڈھونڈا جاتا ہے اور اگر کوہ پیما کا جی پی ایس چل رہا ہو تو اس کے ذریعے ان کے مقام کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘

گذشتہ 30 برس سے کے ٹو کے بیس کیمپ تک ٹورز کا انتظام کروانے والی کمپنی قراقرم ایڈوینچر کے مینیجنگ ڈائریکٹر نجم الحسن کے مطابق ہیلی کاپٹر پروازوں کے دوران کوہ پیما اپنے ساتھ ایک ریڈیو ٹرانسمیٹر یونٹ بھی رکھتے ہیں جو پہاڑ پر روانگی سے قبل ایکٹیویٹ کر دیا جاتا ہے تاکہ خدانخواستہ اگر وہ برف کے کسی تودے کے نیچے آ جائیں تو یہ آلہ بیپ کرتا رہتا ہے جسے ریسیور کے ذریعے ٹریک کیا جا سکتا ہے۔

عموماً جدید قسم کے ریڈیو ٹرانسمیٹر یونٹ کم از کم 250 گھنٹے (10 دن) تک چلتے ہیں اور شمسی توانائی کی مدد سے انھیں ساتھ ساتھ چارج کیا جاتا ہے۔

لیکن اگر ان آلات کی بیٹری ختم ہو گئی، یا کسی خرابی کے باعث یہ کام نہ کر رہے ہوں یا کوہ پیما کو حادثے کی صورت میں تباہ ہو گئے ہوں یا کوہ پیما اپنے ساتھ کسی حادثے کی صورت میں انھیں چارج نہ کر پایا ہو تو پھر اسے کیسے ڈھونڈا جا سکتا ہے؟

آپ نے دیکھا ہو گا اکثر کوہ پیماؤں نے انتہائی شوخ رنگ کے لباس پہن رکھے ہوتے ہیں، ہیلی کاپٹر پر موجود عملہ انھی رنگوں کی مدد سے بھی ان کی کوئی نشانی تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ہیلی کاپٹر صرف لاپتہ کوہ پیما کے مقام کی نشاندہی کر سکتا ہے

کرار حیدری کے مطابق ہیلی کاپٹر صرف لاپتہ کوہ پیما کے مقام کی نشاندہی کر سکتا ہے وہ اسے ریسکیو نہیں کر سکتا۔ اور آج تک ایسا صرف ایک مرتبہ سنہ 2008 میں آسٹرین کوہ پیما ٹوماس ہیومر کے ریسکیو مشن میں ہوا ہے۔

ٹوماس، نانگا پربت پر 6600 میٹر کی بلندی پر پھنس گئے تھے اور انھیں پاکستان آرمی کے اوک ہیلی کاپٹر سے رسی کے ساتھ باندھی گئی سیٹ پھینک کر ریسکیو کیا گیا تھا۔

کرار حیدری کا کہنا تھا کہ اگر کوہ پیما اتنی بلندی پر موجود ہو جہاں ہیلی پہنچ سکتا ہو تو کیرابائنر اور رسیوں کی مدد سے اسے ریسکیو کیا جا سکتا ہے۔

تلاش کے لیے ڈرون کا استعمال کیوں نہیں کیا جا رہا؟

سوشل میڈیا پر کئی افراد یہ سوال بھی کرتے نظر آئے کہ ان کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے ڈرون کا استعمال کیوں نہیں کیا جا رہا؟

اس بارے میں اصغر علی کہتے ہیں کہ سکیورٹی خدشات کے باعث حکومتِ پاکستان کی جانب سے ڈرون کا استمعال منع ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومت سے درخواست کر رہے ہیں کہ ایسے علاقوں میں ڈرون کے استعمال کی اجازت دی جائے جہاں کوئی سکیورٹی خدشات نہیں ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’سرچ مشن کے آغاز میں ہمارے پاس ڈرون موجود تھا لیکن جو فوجی افسر ساتھ گئے انھوں نے اسے اڑانے کی اجازت نہیں دی۔‘

تاہم اس بارے میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ایک ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈرون صرف 10 ہزار فٹ کی بلندی تک جا سکتا ہے اور منفی 50 درجہ حرارت میں تو فاروڈ لکنگ انفرا ریڈ کیمرا (FLIR) بھی کام نہیں کرتا۔ ‘

کوہ پیما کا سراغ مل جائے تو اسے کیسے ریسکیو جاتا ہے؟

الزبتھ رول

سردیوں میں نانگا پربت سمٹ کے بعد الزبتھ کے پولش پارٹنر ٹوماز میکیوکز کی حالت خراب ہوئی تو انھوں نے فوراً 25,900 فٹ کی بلندی سے اپنے انریچ سیٹلائٹ ڈیوائس کے ذریعے مدد کے لیے ہیلی کاپٹر بھیجنے کو کہا تھا

کوہ پیما کا کوئی بھی سراغ ملنے کی صورت میں ہائی ایلٹیٹیوڈ پورٹر کو اس مقام تک چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں تک ہیلی کاپٹر پہنچ سکیں۔ جیسے سنہ 2018 میں نانگا پربت پر فرانسیسی کوہ پیما الزبتھ ریول کو ریسکیو کرنے کے دوران ہوا۔

سردیوں میں نانگا پربت سمٹ کے بعد الزبتھ کے پولش پارٹنر ٹوماز میکیوکز کی حالت خراب ہوئی تو انھوں نے فوراً 25,900 فٹ کی بلندی سے اپنے انریچ سیٹلائٹ ڈیوائس کے ذریعے مدد کے لیے ہیلی کاپٹر بھیجنے کو کہا تھا۔

خوش قسمتی سے اسی وقت کے ٹو سر کرنے کی کوشش میں ایک پولش ٹیم 20،700 فٹ کی بلندی پر موجود تھی اور ایکلیمٹائزڈ تھی۔ ان میں سے چار کوہ پیماؤں کو کے ٹو سے اٹھا کر نانگا پربت پر 15,750 فٹ کی بلندی پر چھوڑا گیا کیونکہ ہیلی کاپٹر اس سے اوپر نہیں جا سکتے تھے۔

ان چار میں سے دو کوہ پیما الزبتھ کے مقام کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو گئے تھے اور اگلے دن 18 گھنٹے کے بعد یہ ٹیم الزبتھ کو ہیلی کاپڑ تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکی تھی تاہم ان کے ساتھی ہلاک ہو گئے تھے۔

علی سد پارہ اور ان کے ساتھیوں کو کیسے تلاش اور ریسکیو کیا جا سکتا ہے؟

ونیسا کے مطابق علی سدپارہ اور ان کے ساتھی کوہ پیماؤں کی تلاش اور ریسکیو کے لیے ورچوئل بیس کیمپ میں علی سد پارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ کے علاوہ ہائی ایلٹیٹیوڈ پورٹرز امتیاز، اکبر، فضل علی اور جلال بھی موجود ہیں جو سخت تھکن اور مشکلات کے باوجود تلاش کا عمل جاری رکھے ہوئے تھے۔

لیکن ان میں سے صرف ساجد سد پارہ ہی ایکلیمٹائزڈ ہیں۔

عمران کہتے ہیں کہ ابھی تک جو ہیلی کاپٹر مشن ناکام لوٹے ہیں ان کا یہی مطلب ہے کہ وہ 7000 میٹر سے اوپر موجود ہیں اور اس کے لیے گراؤنڈ سرچ ہی ایک آپشن ہے اور وہاں وہی جائے گا جو ایکلیمٹائزڈ ہو گا اور وہ صرف ساجد یا وہ نیپالی شرپا ہیں جو دسمبر سے وہاں موجود ہیں اور انھوں نے سات سات سمٹ کر رکھے ہیں۔

تو ساجد اور سدپارہ کے دوست و رشتہ دار کہاں تک پہنچ پائیں گے؟

عمران کہتے ہیں شمشال کے بلند پہاڑوں میں پیدا ہونے والے یہ سارے پورٹرز اگرچہ انتہائی تجربہ کار ہیں لیکن چونکہ وہ ایکلیمٹائزڈ نہیں ہیں اس لیے وہ کیمپ تھری (7350) تک ہی پہنچ پائیں گے اور اس سے آگے ان کی جانوں کو بھی خطرات لاحق ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر تو ان تینوں کا سراغ (سپاٹ ہو گئے) مل گیا تو اس کے بعد پتا چلے گا وہ کس بلندی پر ہیں لیکن اس سب کے باوجود ’8000 میٹر سے نیچے تو کسی باڈی کو نیچے نہیں لایا جا سکتا۔‘

عمران کہتے ہیں کہ ’ٹھیک ہے معجزے بھی ہوتے ہیں لیکن اگر آپ سائنسی طورپر دیکھیں تو 8000 میٹر سے اوپر کوئی بھی 90 گھنٹوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکا۔‘

یاد رہے نیپال کے پیمبا گلجئین شرپا سنہ 2008 میں دو کوہ پیماؤں کو بچانے کے لیے 90 گھنٹے تک کے ٹو کے ڈیتھ زون میں رہے تھے۔

عمران کے مطابق ’نیپالی شرپاؤں کا ہیموگلبن عام انسانوں سے بہت زیادہ ہوتا ہے لہذا سب سے بہتر صورتحال تو یہی ہو گی کہ وہاں پہلے سے بہترین انداز میں ایکلیمٹائزڈ اور تجربہ کار نیپالی شرپا جو اوپر سے نیچے آئے ہیں انھیں تلاش کرنے کے لیے بھیجا جائے۔‘

لیکن وہ کہتے ہیں ’یہ نیپالی شرپا جو خود بنا سمٹ کیے اپنی جان بچا کر نیچے آئے ہیں تو وہ کسی اور کو بچانے یا ریسکیو کرنے کیوں جائیں گے۔‘

ان کے مطابق ابھی کوئی سراغ نہ ملنے کی صورت میں امکان یہی ہے کہ جون میں سمٹ کرنے کے لیے آنے والوں کو ان تینوں لاپتہ کوہ پیماؤں کا کوئی نشان مل سکے۔

سرچ اینڈ ریسکیو مشن کو ’کال آف‘ کرنے کا فیصلہ کب کیا جاتا ہے؟

روپ

اصغر علی کے مطابق اس بات کا فیصلہ کوہ پیماؤں کے خاندان اور بیس کیمپ میں ان کی ٹیم کے سینئیر ممبران مل کر ہی کرتے ہیں کہ کب تک سرچ اینڈ ریسکیو مشن کو جاری رکھا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوہ پیما برف کے نیچے دبا ہو اور کسی صورت اس کے مقام کا اندازہ نہ لگایا جا سکتا ہو تو ایسے میں صرف گرمیاں اور برف کا طوفان آنے کا انتظار ہی کیا جا سکتا ہے جس کے دوران ان کی باڈی نظر آنے کا امکان ہوتا ہے۔

ریسکیو اور سرچ مشن میں فوج کا کردار

ریسکیو اور سرچ مشن میں فوج کے کردار کے حوالے سے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’آج موسم خراب تھا لیکن پچھلے 72 گھنٹوں میں پاکستان آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹروں نے روزانہ کی بنیاد پر لاپتہ کوہ پیماؤں کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے اور انھیں پاکستانی فوج کی جانب سے ہر قسم کے وسائل اور مدد فراہم کی جا رہی ہے۔‘

وینیسا او برائن کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں لاپتہ کوہ پیماؤں کے اہلِ خانہ نے پاکستانی حکومت اور فوج سے ریسکیو مشن جاری رکھنے کی درخواست کی ہے۔ اس حوالے سے آئی ایس پی آر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ ریسکیو مشن ان کا سراغ ملنے تک جاری رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان لاپتہ کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے پاکستانی فوج تمام وسائل (جن میں ہر قسم کے جدید آلات بھی شامل ہیں) بروِئے کار لائے گی۔

’پوری امید ہے والد زخمی ہوں گے اور ریسکیو کا انتظار کر رہے ہوں گے‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سکرود میں موجود علی سد پارہ کے چھوٹے بیٹے مظاہر حسین سدپارہ کا کہنا تھا کہ انھیں پوری امید ہے کہ ان کے والد زخمی ہوں گے اور ریسکیو کا انتظار کر رہے ہوں گے۔

مظاہر کا کہنا تھا کہ ’والدہ کو بھی ہم نے پُرامید رکھا ہوا ہے کہ والد لوٹ آئیں گے۔‘

یاد رہے محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے اتوار کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے والد اور ساتھی کوہ پیماؤں کی تلاش اور بچاؤ کی مہم کو اب ان کی لاشوں کی تلاش کی مہم کے طور پر جاری رکھنا چاہیے۔

عمران حیدر کہتے ہیں کہ کے ٹو پہاڑ کا وحشی پن اور اس کے موسم کی سختیاں جھیلنے کے چیلنجز اپنی جگہ لیکن کم از کم انسانی کاوشوں میں موجود کمیوں کو تو دُور کیا جانا چاہییے تاکہ پاکستان میں ماؤنٹینیئرنگ پروفیشنل انداز میں آگے بڑھ سکے۔

وہ کہتے ہیں کہ سالہا سال سے کے ٹو پر جو مُہمات آتی رہی ہیں اور اس وجہ سے پہاڑ پر جو ماؤنٹینیئرنگ کے سامان کے ہارڈ ویئر کا سالڈ ویسٹ یعنی رسیاں، آکسیجن کے کنستر اور ٹُوٹے خیمے وغیرہ اُس کے لیے ایک سپیشل کلین اپ مُہم جُوئی ہونی چاہیے اور والینٹیئر کلائمبرز کو لے کر ہر کیمپ سائیٹ پر کلین اپ ہونا چاہیے۔

’نیپال میں ماؤنٹ ایورسٹ پر یہ کام ہر سال ہوتا ہے تو کے ٹو پر کم از کم ہر پانچ سال بعد تو ہونا چاہیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32469 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments