بہنوئی سے شادی سے انکار


”ارے آؤ بھئی آؤ، بڑے ٹائم پہ آئیں، امی کو بھی لے آتیں“
زبیدہ نے آنکھیں موندتے ہوئے کہا، نند آصفہ نے بیٹھے بیٹھے ہاتھ ہلا دیا۔

اماں تو بابا کے ساتھ اسلام آباد گئی ہیں، میرے کچھ دن آف تھے تو سوچا کہ منیٰ کو لے آتے ہیں، ذرا مل جل کر مزہ کرتے ہیں، کہاں ہے وہ؟ ثنا نے کہا

”اوپر ہے، عجب زمانہ ہے نوجوان لڑکیاں دو بچے نہیں سنبھال سکتیں، ویسے بھی حسن کراچی گیا ہوا ہے وہ واپس آئے تو ہی منیٰ آئے گی“

زبیدہ کے لہجے کی نرمی ہوا ہو چکی تھی

دونوں بہنیں تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گئیں اور اوپر منظر نیچے سے مختلف تھا، بچے نرسری میں بلبلا رہے تھے، عیسٰی ماما، ماما پکار رہا تھا، بہن کے بیڈروم میں داخل ہوئیں تو وہ باتھ روم سے نکل رہی تھی، اس کا رنگ خطرناک حد تک زرد تھا، ان کو دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھی مگر درمیان میں ہی چکرا کر گر گئی۔ ایک سوا سال اور ایک تین ماہ کے بیٹے کے ساتھ وہ تیسری بار ماں بننے والی تھی اور حالت یہ تھی کہ ایک مکمل فقرہ بولتے ہوئے اس کی سانس پھول جاتی اور ہائی بلڈ پریشر، خون کی شدید کمی اور کچھ دوسری پیچیدگیوں نے اس کو بستر سے لگا دیا تھا اور ساس مسلسل اس کے نہ کھانے پینے اور الٹیاں کرنے پر اس تنقید کا نشانہ بنا رہی تھیں۔

بہرحال اب وہ میکے میں تھی جہاں ماں باپ کی دلجوئی، بہنوں کا پیار، بیٹوں کی بہترین نگہداشت بھی اس کی حالت میں کوئی خاص فرق نہیں لا رہی تھی اور پھر تیسرے بیٹے کو جنم دے کر وہ زندگی کی بازی ہار گئی۔

ایک قیامت تھی جو اس کے خاندان پر ٹوٹ گئی، ثنا کا دل چاہتا کہ وہ آنکھیں بند کرے تو اس ڈراؤنے خواب سے کبھی نہ اٹھے، اس نے ہاؤس جاب سے رخصت لے لی تھی اور بچوں میں کھو گئی تھی حالانکہ دن اور رات مدد کے لئے دو ملازم لڑکیاں موجود تھیں۔ وقت مگر کسی غم اور خوشی کے لئے رکتا نہیں ہے اور گزر جاتا ہے۔ منیٰ کو گزرے بھی آٹھ مہینے بیت گئے تھے بے شک ماں باپ اور بہنوں کا زخم پہلے دن کی طرح تازہ تھا مگر دنیاوی کام ہونے لگے تھے، وہ دوبارہ ہاسپٹل جانے لگی تھی۔

البتہ تینوں بچوں کے ساتھ اس کی دیوانگی پہلے دن کی طرح تھی جو ماں کی موت کے بعد ننھیال میں تھے۔ حسن ویک اینڈ پر بچوں کو ملنے آتا تھا، کبھی کبھی اس کی امی بھی آتیں اور صاف ستھرے صحت مند بچے جب سب کو نظر انداز کر کے ثنا کی گود میں لپکتے اور وہ دیوانہ وار ان کو آغوش میں لیتی تو وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب جاتیں اور پھر وہ گہری سوچ رنگ لائی اور ثنا کا رشتہ حسن کے لیے مانگ لیا گیا، ظاہر ہے حسن نوجوان تھا اب منٰی کی یادوں کے سہارے تو زندگی نہیں گزار سکتا تھا اور معصوم بچوں کو سوتیلی ماں کے حوالے کرنے کے خیال سے بھی رابعہ اور ظفر کا دل ڈوبتا تھا، سو بچوں سے ثنا کا لگاؤ دیکھ کر انھوں نے دل پر پتھر رکھ کر ہاں کرنے کا فیصلہ کیا اور ثنا کو میں اعتماد لیا مگر اس نے سنتے ہی انکار کر دیا۔

میں نے اپنی زندگی ان بچوں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے اور میں ہی ان کی ماں ہوں مگر حسن بھائی سے شادی کی قیمت پر کبھی بھی نہیں، انھوں نے یا آپ نے سوچا بھی کیسے، نہیں ہر گز نہیں، منٰی کے قاتل ہیں وہ،

اس کا لہجہ سخت اور پر عزم تھا

ماں باپ کی منت سماجت، حسن اور اس کی ماں کے پھیرے اس کی ناں کو ہاں میں نا بدل سکے۔ حسن نے خود اس سے بات کی جس کے لئے وہ بہت مشکل سے تیار ہوئی تھی کیونکہ اس کے دل کے نہاں خانوں کہیں بہت نیچے ایک احساس تھا کہ وہ منٰی کی موت کا ذمہ دار ہے۔

”حسن بھائی میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی“
اس نے صاف انکار کر دیا
مگر ہاں یہ بچے میرے ہیں، میں ہی ان کو پالوں گی، آپ دوسری شادی کر لیں۔

ثنا بیوقوفی کی باتیں مت کرو، ایسا نہیں ہوتا اور ہم دونوں مل کر ان کو پالیں گے۔
حسن کے انداز اور نگاہیں بدلے بدلے تھے جس نے اس کے غم و غصے کی آخری حد کو چھو لیا اور اس نے صاف صاف انکار کر دیا

”میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں اور آپ میرے بڑے بھائی کی حیثیت رکھتے ہیں، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔“

یوں وہ مایوس لوٹا اور بظاہر بات ختم ہو گئی، پھر منیٰ کی پہلی برسی آئی اور گزر گئی اور یہ تین ہفتے کے بعد بات تھی، اس کو دو چھٹیاں تھیں جو بچوں کے لاڈ اٹھاتے گزر رہی تھیں۔ دوپہر کو تینوں سو گئے تو وہ بھی ذرا کمر ٹکا کر لیٹ گئی کہ امی آ گئیں۔

ثنا فارغ ہو؟ کچھ بات کرنا تھی۔
جی اماں آپ کے لئے فارغ ہی فارغ ہوں۔
وہ خوشدلی سے اٹھ گئی۔
کل جمعے کی نماز کے بعد تمہارا حسن سے نکاح ہے
رابعہ کا لہجہ بے تاثر تھا

اماں!
وہ ششدر رہ گئی
نہیں آپ لوگ ایسا نہیں کر سکتے، میں نہیں مانتی
صدمے سے اس کی آواز پھٹ رہی تھی

یہ میرے ہاتھ دیکھو
رابعہ نے زار و قطار روتے ہوئے ہاتھ جوڑے
جن بچوں میں تمھاری جان ہے کیوں ان کو زندگی بھر کے لیے محرومیوں میں دھکیلنا چاہتی ہو
یہ میرے بچے ہیں اور۔

”نہیں یہ حسن کے بچے ہیں اور وہی ان کا وارث ہے مگر بس تم ہم پر یہ احسان کر دو، ورنہ میں اور تمہارے بابا زندہ درگور ہو جائیں گے جب ہماری منیٰ کے بچوں پر دوسری ماں آ جائے گی“

اماں روتے روتے بے دم ہو رہی تھیں لیکن وہ بالکل پتھر کی طرح بیٹھی تھی، اتنے میں ملازم لڑکی عیسیٰ کو اٹھائے کمرے میں آ گئی اور وہ ہمک ہمک کر ثنا کے پاس آنے لگا۔

”رحم کرو ان پر، ہم پر اور اپنی مرحومہ بہن پر جو بھری جوانی میں مٹی اوڑھ کر سو گئی اور کل کے لئے تیار ہو جاؤ، وہ لوگ چار بجے تک پہنچ جائیں گے“

یہ کہہ کر وہ بچے سمیت باہر نکل گئیں۔

اس کے بعد جو ہوا سو ہوا مگر اس میں سب سے زیادہ قصور کس کا ہے؟ ماں باپ کا یا بھری محفل میں انکار کرنے والی لڑکی کا جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور معاشرے میں سر اٹھا کر جی سکتی ہے۔ اس کا قصور یہ ہے کہ اگر بہن کے بچوں سے محبت کرتی ہے تو پھر ضرور اس کی شادی بہنوئی سے کر دی جائے جو نہ صرف اس کا پروفیشن چھڑا دے بلکہ اگلے تین سالوں میں تین اور بچے پیدا کر کے پہلے بچوں سے محبت اس کے دل سے ختم کر دے۔ کیا ہے یہ سب اور کیوں ہے؟

ہمارے مذہب میں، شریعت میں اور معاشرے میں اس طرح کی شادیاں جیسے شوہر کے انتقال کے بعد دیور سے کیونکہ جیٹھ کی بیوی عام طور پر اس قسم کے ارادوں کو ناکام بنا دیتی ہے اور بہن کے انتقال کے بعد بہنوئی سے نہ صرف بہت عام ہیں بلکہ ہمارے یہاں ایک احسن عمل سمجھا جاتا ہے۔

اسلام میں یہ شادیاں جائز ہیں کیونکہ ہمارا مذہب سرا سر بھلائی ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ ایک نوجوان بیوہ ایک یا دو بالکل چھوٹے بچے دنیا میں کوئی اور ٹھکانہ نہیں تو اس کی اور دیور کی مکمل رضامندی سے اس نکاح میں کوئی حرج نہیں، یہ مکمل بھلائی ہے، اسی طرح بہن کے انتقال کی صورت میں بہنوئی سے نکاح میں کوئی گناہ نہیں ہے اور یہ بچوں کو سوتیلی ماں کے ظلم و ستم سے بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

اسلام نے ان شادیوں کو جائز قرار دیا مگر ساتھ ہی ہر قسم کی شادی میں لڑکا اور لڑکی کی دلی رضامندی کے بغیر نکاح کو منع کیا ہے۔

لڑکے جن بھابیوں کو ماں کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کو اچانک ان سے شادی پر مجبور کیا جائے اور وہ خاتون جس پر شوہر کی موت کا پہاڑ جیسا غم آ گیا اس کو دیور سے، اسی دیور کو اپنا چھوٹا بھائی سمجھتی رہی اور وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ دیور اس شادی پر رضامند نہیں اور اس کا اپنا دل بھی نہیں مان رہا مگر خاندان اور برادری کے بے پناہ پریشر کے سامنے دونوں بے بس ہیں، بالکل اسی طرح ایک لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے خلاف بہنوئی سے نہیں کرنی چاہیے مگر ان لڑکیوں کو ماں باپ اس حد تک ایموشنلی بلیک میل کرتے ہیں کہ وہ ”ہاں“ کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں، مرحومہ بیٹی کی محبت میں ماں باپ زندہ بیٹی کے احساسات کی پروا نہیں کرتے، آخر ہم کب تک ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح دھکیلتے رہیں گے۔ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو محبت اور اعتماد دیں، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے دیں تاکہ وہ معاشرے میں بہتر طریقے سے اپنا رول ادا کر سکیں اور اپنی زندگی کے فیصلے بھی آزادانہ کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments